کرس گیل سمیت عالمی شہرت یافتہ کرکٹرز کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر بلانے والی لیگ جس کے منتظمین ادائیگی کیے بغیر غائب ہو گئے

بی بی سی اردو  |  Nov 05, 2025

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کولگام سے تعلق رکھنے والے ندیم ڈار ’انڈین ہیون پریمیئر لیگ‘ کے پہلے میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں نہ تو مین آف دی میچ کا کوئی انعام ملا اور نہ ہی اس میچ کی فیس دی گئی۔

ندیم 17 سال کی عمر سے کرکٹ کھیل رہے ہیں اور وہ ’گلمرگ رائلز‘ نامی ایک کرکٹ ٹیم کے آل راوٴنڈر ہیں۔ ان کی ٹیم کو سرینگر میں ہونے والی ’انڈین ہیون پریمیئر لیگ‘ میں شامل کیا گیا تھا جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی۔ لیکن یہ لیگ سرکاری حمایت کے باوجود تنازع کا شکار ہو چکی ہے۔

لیگ کے منتظمین چند میچز کے بعد ہی راتوں رات غائب ہو گئے اور اس دوران کئی مقامی، انڈین اور عالمی کرکٹرز ہوٹلوں میں بیٹھے رہ گئے۔

لیگ میں شامل افراد کا دعویٰ ہے کہ منتظمین نے کھلاڑیوں، امپائرز اور حتی کہ ہوٹلوں کے مالکان کو ادائیگی تک نہیں کی۔ پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیر میں اس طرح کا ہائی پروفائل کرکٹ ٹورنامنٹ تنازعے کا شکار ہوا ہو۔

ندیم ڈار کا کہنا ہے کہ ’میں نے سوچا تھا کہ عالمی سطح کے کرکٹرز کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن اب میں ذہنی تناوٴ میں ہوں۔‘

’کرس گیل تو پہلے ہی چلے گئے اور پھر باقی کھلاڑی بھی چلے گئے۔‘

ٹورنامنٹ ایک ماہ تک جاری رہنا تھا مگر 10 روز میں ہی ختم ہو گیا

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز کے سابق پاور ہٹر کرِس گیل، سری لنکا کے تشار پریرا ، نیوزی لینڈ کے جیسی رائڈر، کشمیر کے پرویز رسول، انڈیا کے فیض فضل اور جنوبی افریقہ کے رچرڑ لیوی سمیت کئی انڈین، کشمیری اور عالمی شہرت یافتہ کرکٹرز کو مدعو کیا گیا تھا۔

سرینگر میں پہلی بار عالمی اور انڈیا کے قومی کھلاڑیوں کے علاوہ مقامی کشمیری کھلاڑیوں کی شرکت کے ساتھ ہونے والا یہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ اُس وقت سنسنی خیز تنازع میں تبدیل ہوا جب اس مقابلے کے منتظمین کھلاڑیوں اور امپائرز کی فیس اور ہوٹلوں کا کرایہ ادا کیے بغیر راتوں رات غائب ہو گئے۔

کرکٹ سے متعلق دو سرکاری اداروں جموں کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن اور جے کے سپورٹس کونسل کے حکام نے منتظمین سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ کرکٹ مقابلوں کے لیے میدان اور دوسری سہولیات مہیا کی گئی تھیں۔

یہ ٹورنامنٹ ایک ماہ تک جاری رہنا تھا جس میں 30 سے زیادہ میچز ہونے تھے۔ لیکن منتظمین کے غائب ہونے کے بعد یہ صرف دس روز میں ہی تنازع کا شکار ہو کر ختم ہو گیا۔

’جموں لائنز‘ نامی ٹیم کے کھلاڑی دردِش گونی کا کہنا ہے کہ انھیں اُس وقت شک ہوا تھا جب آسٹریلیا کے شان مارش اور بنگلہ دیش کے شاکب الحسن مدعو کیے جانے کے باوجود بھی لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔

دردِش کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں اور امپائرز کو اُس وقت بھی شک ہوا جب ’لداخ ہیروز‘ اور ’پلوامہ ٹائٹنز‘ کے درمیان ہونے والے میچ کے بعد کرِس گیل شیڈول سے کافی پہلے ہی چلے گئے۔

ایک کھلاڑی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کرِس گیل کے لیے جو رقم فیس کے طور طے ہوئی تھی، وہ پوری نہیں ملی تو وہ چلے گئے۔ اسی وجہ سے کچھ میچز ملتوی ہو گئے۔‘

کمنٹری کے دوران ’آزاد کشمیر‘ بولنے پر انڈین صارفین کی ثنا میر پر تنقید: ’میرے دل میں بغض نہیں، براہ کرم اس پر سیاست نہ کریں‘نقشے میں کشمیر کو ’پاکستان کا حصہ دکھانے‘ پر انڈین صارفین ناراض، اسرائیلی فوج کی معذرت’ایسا پہلے کبھینہیں ہوا‘: ’کشمیر کا مطالبہ‘ اور انڈین آرمی چیف کی وہ تصویر جس نے ہنگامہ برپا کر دیا’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونجمنتظمین کون تھے؟

انڈین پنجاب میں مقیم ایک این جی او ’یُوا سوسائٹی‘نے سرینگر میں ’انڈین ہیون پریمیئر لیگ‘ کے تحت ٹی ٹوئنٹی کرکٹ مقابلوں کا اعلان کیا تو حکومت نے نہ صرف سٹیڈیم اور دوسری سہولیات مہیا کروائیں بلکہ پولیس اور نیم فوجی عملے کو بھی کھلاڑیوں کی سکیورٹی پر تعینات کیا گیا۔

یُوا سوسایٹی کے چیئرمین پرمندر سنگھ اور صدر آشو دھانی کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر کے پورے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔

برطانیہ اور ویلز کرکٹ بورڑ کی کوچ میلیسا جُونیپر بھی غیر ملکی امپائرز میں شامل تھیں جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں فیس نہیں دی گئی۔

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’کسی کو فیس نہیں دی گئی، نہ کھلاڑیوں کو نہ امپائرز کو۔ کمپنی کے لوگ بھاگ گئے اور ہوٹل والے ہم سے تقاضا کرنے لگے۔‘

ہوٹل سٹاف نے کھلاڑیوں اور امپائرز کو ہوٹل سے چیک آؤٹ کی اجازت نہیں دی کیونکہ منتظمین کے فون سوئچ آف تھے۔تاہم پولیس کی مداخلت کے بعد انھیں جانے دیا گیا۔

انڈین پنجاب کے شہر موہالی سے تعلق رکھنے والے پرمندر سنگھ نے ’یوا سوسائٹی‘ نامی این جی او 2011 میں اس اعلان کے ساتھ قائم کی تھی کہ وہ نوجوانوں میں کھیل کو فروغ دیں گے۔

انھوں نے ’رُتبہ پنجاب‘ اور متحدہ عرب امارات میں ’گلوبل ٹی ٹوئنٹی بیٹل‘ نام سے بھی کرکٹ مقابلوں کا انعقاد کیا تھا۔

کشمیر میں بھی انڈین ہیون پریمیئر لیگ یا آئی ایچ پی ایل نام سے مقابلوں کی شروعات کی گئی تھی۔ سوسائٹی کے صدر آشو دھانی ایک سابقہ کرکٹر ہیں۔

’لیگ جعلی ثابت ہوئی‘

حالانکہ ’یوا سوسائٹی‘ انڈیا کی بی سی سی آئی یا عالمی سطح کی آئی سی سی میں تسلیم شدہ نہیں ہے تاہم کشمیر میں اتنے بڑے ایونٹ سے پہلے حکومت نے کوئی تفتیش نہیں کی۔

سابق کرکٹ کھلاڑی اور کوچ احسان الٰہی زرگر کہتے ہیں کہ ’اس لیگ کے بارے میں شکوک پہلے سے پیدا ہو رہے تھے جب کچھ میچز ملتوی کئے گئے لیکن حکومت نے اس طرف دھیان نہیں دیا۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں قیامِ امن کے دعوؤں کو تقویت دینے کے لیے یہاں سرکاری سطح پر کھیل کود کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جا رہا ہے۔

2019 میں کشمیر کی انڈین آئین میں خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے انڈین حکومت نے ’کھیلو انڈیا‘ مہم شروع کی جس کے تحت ہزاروں مقابلوں کا اہتمام ہوا۔

سپورٹس کونسل کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کھیلوں کو فروغ دینا سرکار کی پالیسی ہے۔ ہم نوجوانوں کو منشیات اور تشدد سے دُور رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‘

’جب اِن لوگوں (یوا سوسائٹی) نے لیگ کی تجویز دی تو ہمیں لگا بہتر ہی ہے اور ہم نے انفراسٹرکچر اور لاجسٹکس میں مدد کی۔ لیکن یہ لیگ ہی جعلی ثابت ہوئی۔‘

واضح رہے کہ اس لیگ کے افتتاحی میچ میں صوبائی کمشنر کے علاوہ پولیس اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور کشمیر پولیس پنجاب کی پولیس کے ساتھ رابطے میں ہے۔

انڈیا پاکستان جنگ کا خطرہ برقرار: مسئلہ کشمیر کا حل کیوں ضروری ہے؟نقشے میں کشمیر کو ’پاکستان کا حصہ دکھانے‘ پر انڈین صارفین ناراض، اسرائیلی فوج کی معذرتکمنٹری کے دوران ’آزاد کشمیر‘ بولنے پر انڈین صارفین کی ثنا میر پر تنقید: ’میرے دل میں بغض نہیں، براہ کرم اس پر سیاست نہ کریں‘’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونج’ایسا پہلے کبھینہیں ہوا‘: ’کشمیر کا مطالبہ‘ اور انڈین آرمی چیف کی وہ تصویر جس نے ہنگامہ برپا کر دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More