’جب تک وہ زندہ ہیں ہماری لیڈر ہیں‘: سزائے موت کے فیصلے کے بعد شیخ حسینہ کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟

بی بی سی اردو  |  Nov 23, 2025

Getty Images

بنگلہ دیش کی معزولوزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد سے ان کے سیاسی مستقبل اور عوامی لیگ کی قیادت کے بارے میں بحث جاری ہے۔

یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیشی سیاست میں واپس آ سکیں گی؟

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر صابر احمد نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’اب بات بہت آگے نکل چکی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ شیخ حسینہ دوبارہ بنگلہ دیش میں وہ مقام حاصل کر سکیں گی جس پر وہ فائز تھیں۔‘

پروفیسر احمد کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ بہت سے لوگ کہیں گے کہ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ لیکن جب قیادت سے کوئی بڑی غلطی ہوتی ہے تو پھر نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔‘

BBC

شیخ حسینہ نے اپنے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کو ’متعصبانہ اور سیاسی بنیادوں‘ پر سنایا جانے والا فیصلہ قرار دیتے ہوئے ٹربیونل کو ’کینگرو کورٹ‘ قرار دیا تھا۔

عوامی لیگ کے مرکزی رہنماؤں نے بھی ٹربیونل کے فیصلے کو مسترد کیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کے نچلی سطح کے رہنما اور کارکن اس فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

عوامی لیگ کے ایک ضلعی سطح کے رہنما نے بی بی سی بنگلہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب جنگی مجرموں کے خلاف مقددمات چلائے جا رہے تھے تو جو وکلا ملزم تھے، وہ اس ٹربیونل میں ریاست کے وکیل ہیں۔ لہذا کسی کو یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہے کہ یہ من مانا فیصلہ ہے۔‘

بنگلہ دیش کی طاقتور وزیراعظم سے سزا یافتہ مجرم تک: شیخ حسینہ کے سیاسی سفر کی کہانیکیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟کیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟

ماہرین کے مطابق عوامی لیگ کے رہنما اور کارکن اس فیصلے کو تسلیم نہ بھی کریں تو یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت نے اُن کی پارٹی کی سربراہ کو زیادہ سے زیادہ سزا سنائی ہے۔

عوامی لیگ کے ایک اور نچلی سطح کے رہنما نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا: ’ہمیں شروع سے معلوم تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ عوام اسے قبول نہیں کریں گے اور ہمیں نہیں لگتا کہ اس کا زمینی سطح پر لوگوں پر کوئی اثر پڑے گا۔‘

عوامی لیگ ماضی میں کئی مواقع پر کہہ چکی ہے کہ شیخ حسینہ کی قیادت کو لے کر پارٹی کے اندر کوئی تنازع نہیں ہے۔ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی سربراہکے خلاف سزائے موت کے اعلان کے بعد بھی یہ سوچ برقرار ہے۔

عوامی لیگ کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری اے ایف ایم بہاؤالدین نسیم نے کہا کہ ’شیخ حسینہ کی قیادت کے بارے میں کسی کو کوئی سوال نہیں ہے، جب تک وہ زندہ ہیں، ہم ان کی قیادت میں آگے بڑھیں گے۔‘

پارٹی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ شیخ حسینہ کی انڈیا روانگی کے بعد پارٹی قیادت کے خلا کے چیلنج سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے۔ شیخ حسینہ بھی انڈیا میں بیٹھ کر پارٹی معاملات سے متعلق ہدایات دیتی رہی ہیں۔

ضلعی سطح کے عوامی لیگ کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’رہنما نے ہمیں بتایا کہ جو بھی علاقے میں پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کام کرے گا، وہی اس علاقے کا لیڈر ہوگا۔ تب سے ہم سب متحرک ہو گئے ہیں۔ اب چونکہ ہمارا ملک کی ہر یونین اور ہر وارڈ میں ایک مضبوط نیٹ ورک ہے، تو ہم کسی بھی وقت بازی پلٹ سکتے ہیں۔‘

BBC

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اب عوامی لیگ کے صدر کو عدالت میں سزا سنائے جانے کے بعد ملک واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔

قانونی مشیر پروفیسر ڈاکٹر آصف نذرل نے جمعرات کو کہا کہ شیخ حسینہ کی واپسی کے لیے جلد ہی انڈین حکومت کو باضابطہ خط بھیجا جائے گا۔

لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انڈین حکومت بنگلہ دیش حکومت کی اس کال کا جواب دے گی۔

عوامی لیگ کے ایک نچلی سطح کے رہنما نے کہا کہ اس وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سزا کا اعلان بھی ہو جائے تو اس حکومت کے لیے ہمارے لیڈر کو ملک واپس لانا اور اس پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں ہے۔

ادھر عوامی لیگ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سرکردہ رہنما ملک میں نہ ہونے کے باوجود پارٹی کی تنظیمی سرگرمیاں نہیں رکی ہیں۔

ترنمول عوامی لیگ کے لیڈر نے کہا، ’ہم سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سے عوامی جلسے کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری پارٹی کی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔ بلکہ ہم پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔ تاہم اچھی وجوہات کی بنا پرکام کے انداز کو کچھ بدلنا پڑا ہے‘۔

پارٹی کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری اے ایف ایم بہاؤالدین نسیم نے دعویٰ کیا ہے کہ حالات جتنے مشکل ہو رہے ہیں،عوامی لیگ اتنی ہی منظم ہوتی جا رہی ہے۔

بہاؤالدین نسیم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ عوامی لیگ متحد ہے اور رہے گی۔ اب تک کسی نے بھی عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک بار پھر شیخ حسینہ کا عروج دیکھے گا۔

BBC

تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی حقیقت میں عوامی لیگ کے لیے فوری طور پر سیاسی میدان میں واپسی کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر صابر احمد کہتے ہیں کہ ’ان کے مرکزی قائدین کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے۔ مجھے شک ہے کہ آیا ان میں سے کسی کے لیے اگلے پانچ سے دس سالوں میں معمول کی زندگی کی طرف لوٹنا ممکن ہو گا۔‘

پروفیسر احمد نے کہا کہ ’اگر یہ ممکن نہیں تو ٹیم کو دوبارہ منظّم کرنا بہت مشکل کام ہو گا۔‘

ڈھاکہ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر احمد کا ماننا ہے کہ عوامی لیگ کو جس بحران کا سامنا ہے۔ اس پر قابو پانا آسان نہیں ہو گا۔

اُن کے بقول گذشتہ برس کے واقعات پر معافی مانگنے یا شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے پارٹی کے رہنما اس بغاوت کو غیر ملکی سازش قرار دینے پر اصرار کر رہے ہیں۔ یہ شیخ حسینہ کی سیاسی میدان میں واپسی کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔

اُن کے بقول اگر شیخ حسینہ بغاوت سے پہلے ہی خود پیچھے ہٹ جاتیں تو وہ کم از کم پارٹی کو بچا سکتی تھیں۔

جلا وطن اتحادی اور کشیدہ تعلقات: شیخ حسینہ کی سزا کے بعد انڈیا کا بنگلہ دیش کے ساتھ تعلق کیسا ہو گا؟شیخ حسینہ کو سزائے موت کا بنگلہ دیش کے لیے مطلب کیا ہے؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More