BBCزیارت بی بی، انور بی بی اور شمیم بی بی (دائیں سے بائیں)
اُس روز زیارت بی بی اور انور بی بی بہت خوش تھیں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ 30 ستمبر 2024 کا دن تھا اور یہ دونوں بزرگ خواتین عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہونے والی تھیں۔
پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے ایک قریبی رشتہ دار نیئر عباس کے ہمراہ قریب کے ایک اور گاؤں پہنچیں، جہاں کے امام مسجد محمد ریاض بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ اس سفر میں اُن کے ساتھ شریک ہونے والے تھے۔
اِن پانچوں افراد کے عمرے کا بندوبست مبینہ طور پر مقامی زمیندار صدام حسین نے کروایا تھا جنھوں نے نہ صرف عمرے کے اخراجات ادا کیے بلکہ پانچوں افراد کو اسلام آباد ایئر پورٹ بھی اپنے خرچے پر بھیجا۔
لیکن پاکستان سے روانگی کے صرف ایک ہفتے بعد اِن پانچوں افراد کی سعودی عرب میں گرفتاری کی خبر ملنے پر اُن کے اہلخانہ ہکا بکا رہ گئے۔ اور اُن کی پریشانی اُس وقت مزید بڑھ گئی جب لگ بھگ پانچ ماہ بعد، 17 فروری 2025، کو ان تین خواتین سمیت پانچوں افراد کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں ایک سعودی عدالت نے پچیس، پچیس سال قید کی سزا کا حکم دے دیا۔
یہ معاملہ کیا ہے؟ اس بارے میں زیارت بی بی کے بیٹے ابرار حسین نے بی بی سی سے بات کی ہے جبکہ اس کیس سے متعلق حکام سے بھی تفصیلات حاصل کی گئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے سادہ لوح افراد کو عمرے کا جھانسا دے کر روانگی سے تھوڑی دیر پہلے انھیں زبردستی ایسا سامان پکڑایا گیا جس میں منشیات چھپائی گئی تھی۔
لیکن سعودی عرب جانے سے پہلے یہ کیسے ہوا؟ اور اب یہ پانچ افراد بشمول زیارت بی بی اور انور بی بی کہاں ہیں؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہمیں 30 ستمبر 2024 کے دن جڑانوالہ واپس جانا ہو گا جب ابرار حسین نے اپنی والدہ کو اسلام آباد ایئر پورٹ تک چھوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن مبینہ طور پر اِس سفر کا بندوبست کرنے والے صدام حسین نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
عمرے پر جانے والوں کی ’خدمت‘ اور ’تحائف‘Getty Imagesپانچوں افراد 30 ستمبر 2024 کو ائیر سیال کی فلائٹ نمبر پی ایف 718 کے ذریعے صبح چھ بج کر دس منٹ پر جدہ روانہ ہوئے تھے
25 سال قید کی سزا پانے والی ضعیف خاتون زیارت بی بی کے بیٹے ابرار حسین کی خواہش تھی کہ وہ اپنی والدہ کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر خود الوداع کرنے جاتے لیکن، اُن کا دعویٰ ہے کہ صدام حسین نے کہا کہ ’آپ لوگوں کو اسلام آباد آنے جانے کا خرچہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘
اُن کے مطابق صدام حسین نے انھیں بتایا کہ ’ہم اگر اِن کو ایصالِ ثواب کی نیت سے عمرہ کے لیے بھجوا رہے ہیں تو اسلام آباد میں اُن کو کوئی تکلیف پہنچنے نہیں دیں گے۔‘
ابرار حسین کے مطابق تسلی کے یہ الفاظ سُن کر اُن کی فکر ختم ہو گئی۔ صدام حسین شاہ گاؤں کے بڑے زمیندار تھے اور مقامی لوگوں کے مطابق وہ ہر سال چار سے پانچ لوگوں کو ’ثواب کی غرض سے‘ عمرے پر بھجواتے تھے۔
ابرار کے مطابق انھیں تسلی دینے کے کچھ ہی دیر بعد اسرار اللہ نامی شخص ان پانچوں افراد کو ایک گاڑی میں لے کر اسلام آباد روانہ ہوئے جہاں اُن کو ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ بعدازاں ان پانچوں افراد نے اپنے اپنے گھروں میں فون پر رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ خیریت سے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں اور یہ کہ اگلے دن انھیں جدہ کے لیے روانہ ہونا ہے۔
اس کیس کی تفتیش پر معمور ایک اہلکار اور ابرار کے مطابق اگلی صبح ان افراد کو گل خان نامی شخص ملا، جس کا تعارف صدام حسین کے دوست پر کروایا گیا۔
ابرار کہتے ہیں کہ اُس روز اُن کی والدہ نے انھیں بتایا کہ گل خان نے دعویٰ کیا کہ اس کے ہاں 20 برس بعد اولاد ہوئی ہے اور اسی لیے وہ عمرے پر جانے والوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اُنھوں نے ان پانچوں افراد کو نئے جوتے، کپڑے اور کچھ گفٹ پیک دیے۔
ابرار کے مطابق اُن کی والدہ نے بتایا کہ گل خان نے عمرے پر جانے والے افراد سے کہا کہ ’جوتے اور کپڑے آپ لوگوں کے لیے ہیں اور گفٹ پیکٹ میرے ایک دوست آپ سے جدہ ائیر پورٹ پر وصول کر لیں گے۔‘
ابرار کہتے ہیں کہ پانچوں افراد نے ابتدا میں یہ چیزیں لینے سے انکار کیا تاہم اِس کے بعد گل خان نے اُن کی صدام حسین سے فون پر بات کروائی جس نے کہا کہ ’ہم آپ کے لیے اتنا کچھ کر رہے ہیں، آپ میرے دوست کا اتنا سا کام نہیں کر سکتے۔‘ ابرار کے مطابق اُن کی والدہ نے بتایا تھا کہ فلائٹ کا وقت بھی ہو رہا تھا اور ایسے میں بحث کرنے کا زیادہ وقت نہ تھا۔
اور پھر اگلی صبح یہ پانچوں افراد ائیر سیال کی فلائٹ نمبر پی ایف 718 کے ذریعے صبح چھ بج کر دس منٹ پر جدہ روانہ ہو گئے۔
’پتر میں جیل میں ہوں‘
ابرار کے مطابق جدہ جانے کے بعد ابتدا میں اُن کی والدہ کا اُن سے رابطہ نہیں ہوا جس پر وہ کچھ فکرمند تھے۔
تقریباً ایک ہفتے بعد چھ اکتوبر کی صبحابرار حسین کا فون بجا تو دوسری جانب اُن کی والدہ زیارت بی بی تھیں۔ ابرار کے مطابق اُن کی والدہ نے انھیں بتایا کہ ’پُتر، میں جیل سے بول رہی ہوں۔ ہمیں جو گفٹ پیک دیے گئے تھے ان میں منشیات (بعدازاں پتا چلا کہ یہ آئس تھی) تھی۔ تحفے میں دیے گئے جوتوں کے تلووں میں بھی منشیات تھی۔‘
ابرار کہتے ہیں کہ یہ سُن کر اُن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
اُن کے مطابق اُن کی والدہ زیارت بی بی نے روتے ہوئے انھیں بتایا کہ جب وہ جدہ ائیرپورٹ پہنچے تو اُن کے سامان کی تلاشی لی گئی جس میں تمام پانچوں افراد کے سامان سے مجموعی طور پر پانچ کلو، 500 گرام منشیات (آئس) برآمد ہوئی جس کے بعد انھیں ائیرپورٹ پر ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
زیارت بی بی نے اپنے بیٹے کو یہ بھی بتایا کہ سعودی جیل حکام نے ہی اُن کی فون پر بات کروائی ہے تاکہ ورثا کو اس معاملے کا علم ہو سکے۔
ابرار حسین نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’وہ فون گویا میرے سر پر بم بن کر گرا۔ فون تو پانچ منٹ بعد بند ہو گیا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا کروں، رونا شروع کر دوں یا چیخوں چلاؤں، ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ ہماری ماں اللہ کے گھر میں عبادت کر رہی ہو گی اور روضہ رسول پر حاضری دے رہی ہو گی لیکن وہ تو جیل میں تھیں۔‘
دلاسے اور خفیہ ایجنسیوں کا پوچھ گچھGetty Images
ابرار بتاتے ہیں کہ ’میں نے پانی پیا تو میرے حواس بحال ہوئے، کچھ ہی دیر بعد میں نے پاگلوں کی طرح اپنے دیگر اہلخانہ اور رشتہ داروں کو فون ملانا شروع کر دیا۔‘
’سب لوگ ہمارے گھر میں جمع ہوئے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر صدام حسین کے گھر جا کر اس سے پوچھا جائے۔‘
ابرار حسین کہتے ہیں کہ ’ہم صدام حسین شاہ کے ڈیرے پر پہنچے تو یہ تفصیلات سُن کر وہ بھی بظاہر پریشان ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، آپ کو یقیناً کوئی غلطی لگی ہو گی۔‘
ابرار کے مطابق صدام حسین نے انھیں دلاسہ دیا اور کہا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں، میں پانچوں افراد کی رہائی کا بندوبست کرتا ہوں۔
لیکن ابرار کہتے ہیں کہ اُن کے وہاں سے جانے کے بعد صدام حسین بھی ڈیرے سے غائب ہو گئے اور انھوں نے اپنے اہلخانہ کو بھی وہاں سے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ ہی روز گزرے تھے کہ گاؤں میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار آئے۔ وہ ہمارے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے اور انھوں نے متعلقہ تھانے جا کر بھی ہمارا ریکارڈ چیک کیا۔‘
’کسی اور کو بیگ نہ دینا:‘ ایف آئی اے کی تحقیقات میں کیا پتہ چلا؟
سعودی عرب میں یکم اکتوبر 2024 کو منشیات سمگلنگ کے الزام میں گرفتار ہونے والے ان پانچوں افراد کو ایک سعودی عدالت نے 17 فروی 2025 کو پچیس، پچیس سال قید کی سزا کا حکم دیا۔
اس کے علاوہ اس گروہ کے دو ارکان جنھوں نے گفٹ پیک کی شکل میں منشیات وصول کرنا تھیں، ان کو بھی سعودی عرب کی سکیورٹی فورسز نے حراست میں لے کر سزائیں سُنائیں۔
ادھر پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس واقعے کے بارے میں باقاعدہ تحقیقات کا آغاز 6 نومبر 2024 کو کیا اور انکوائری ٹیم نے تحقیقاتی رپورٹ میں تین افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی سفارش کی جس پر 20 جنوری 2025 کو صدام حسین شاہ، اسرار اللہ اور گل نواز خان نامی افراد کے خلاف تھانہ ایف آئی اے فیصل آباد میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سعودی عرب میں رواں برس دو پاکستانیوں سمیت 347 افراد کو سزائے موت: ’لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا جا رہا ہے‘بیگ سے منشیات برآمد ہونے کے الزام میں سعودی جیل میں قید پاکستانی خاندان کی بے گناہی کیسے ثابت ہوئیتیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانیشاہ عبدالعزیز کے بیٹے کے ہاتھوں سفارتکار کے قتل کے بعد شراب پر لگائی گئی پابندی سعودی حکام اب کیوں ختم کرنے جا رہے ہیں؟
ایف آئی اے نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے تو ملزم صدام حسین نے سیشنز کورٹ سے عبوری ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی جبکہ ایک ملزم اسرار اللہ کو 27 فروری کو لاہور کے تھانہ ساندہ کی پولیس نے گلشن راوی سے گرفتار کر لیا جس کے قبضے سے، پولیس کے مطابق، پانچ کلو ہیروئن بھی برآمد ہوئی۔
ایف آئی اے کے ایک افسر کی طرف سے بی بی سی اردو کو اس مقدمے سے متعلقہ دستاویزات فراہم کی گئیں جن کے مطابق ملزم صدام حسین شاہ عبوری ضمانت کروانے کے بعد پانچ مارچ کو اس کیس میں شاملِ تفتیش ہوئے۔
دستاویزات کے مطابق اس دوران مدعی مقدمہ ابرار حسین نے انکوائری افسر کو ایک یو ایس بی فراہم کی جس میں ملزم صدام حسین کی سعودی عرب میں گرفتار ہونے والے نئیر عباس کے ساتھ چیٹنگ کا ریکارڈ موجود تھا جس کے مطابق ملزم صدام حسین عمرہ کے سفر اور گفٹ بیگز کے متعلق بار بار ہدایت کر رہے تھے اور اسے تاکید کر رہے تھے کہ بیگ میرے بھیجے ہوئے بندے کے علاوہ کسی اور کو نہ دینا۔
ایف آئی اے کے مطابق ملزم صدام حسین کی ضمانت خارج ہونے پر انھیں 18 اگست 2025 کو بلآخر حراست میں لے لیا گیا جس کے بعد ایف آئی اے نے عدالت سے اُن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا اور بعد ازاں تفتیش کا عمل مکمل ہونے پر ملزمان صدام حسین اور اسرار اللہ خان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیا گیا۔
صدام حسین اور اسرار اللہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر کیمپ جیل لاہور میں قید ہیں جبکہ ملزم گل نواز خان کو عدالت نے اشتہاری قرار دے کر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔
ایف آئی اے کی سپیشل سینٹرل کورٹ فیصل آباد میں اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔
ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ تینوں ملزمان کے خلاف چالان مضبوط شواہد پر مشتمل ہے۔
اُن کے مطابق ملزمان نے ناصرف پانچوں افراد کے ویزوں کی فیسیں جمع کروائیں، ائیرلائن ٹکٹیں اپنے اکاؤنٹ سے خریدیں بلکہ تینوں ملزمان کے موبائل فونز کی سی ڈی آرز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیصل آباد سے روانگی سے لے کر متاثرہ فیملی کو ائیر پورٹ ڈراپ کرنے تک ان تینوں ملزمان کا آپس میں درجنوں بار رابطہ ہوا۔
مرکزی ملزم صدام حسین کا مؤقف کیا ہے؟
ملزم صدام حسین شاہ کے وکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر رکھی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدام حسین شاہ اس معاملے میں بے قصور ہیں اور ان کا منشیات کی سمگلنگ کا کوئی سابقہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔
اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدام حسین کی طرف سے جتنے لوگوں کو بھی ماضی میں سعودی عرب بھجوایا گیا ان سے کوئی رقم نہیں لی گئی اور تمام لوگ عمرہ کر کےوطن واپس آ چکے ہیں۔
درخواست کے مطابق پاکستان سے سعودی عرب جاتے اور واپس آتے ہوئے ان کی مکمل چیکنگ کی گئی، جبکہ سعودی عرب میں گرفتار ہونے والے ان پانچ لوگوں کے ساتھ منشیات کا کب اور کہاں معاملہ ہوا، اس بارے میں صدام حسین کی جانب سے دائر درخواست میں لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق جب ایک ٹیم نے علاقے میں جا کر چھان بین کی تو انکشاف ہوا کہ صدام حسین شاہ نے اس سے پہلے جن لوگوں کو مفت یا کم رقم کے عوض عمرے کے لیے بھجوایا تھا وہ سب لوگ واپس آ چکے ہیں۔
ان کے مطابق حالیہ کیس سے پہلے قریب کے ایک اور گاؤں کے تین افراد بھی ایسے ہی عمرہ کرنے کے لیے گئے اور واپس آ گئے۔
حکومت کا کیا کہنا ہے؟
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ان پانچ افراد کی رہائی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ان کے مطابق اس سلسلے میں پاکستان میں موجود سعودی سفارت خانے کی وساطت سے سعودی حکومت کے ساتھ بات چیت بھی چل رہی ہے۔
طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ہماری کوششوں میں کمی نہیں، تاہم یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر زیادہ پیشگی رائے نہیں دی جا سکتی۔
طلال چودھری نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے سعودی سفارت خانے کی وساطت سے متعلقہ ریکارڈ بھجوا دیا ہے اور یہ آگاہ کیا ہے کہ منشیات سمگل کرنے والے گروہ کے ملزمان پاکستان میں حراست میں لیے جا چکے ہیں، اس لیے سعودی عرب میں جو بے گناہ افراد زیرِ حراست ہیں ان کو انسانی ہمدردی کی بنا پر رہا کیا جا سکتا ہے۔
تاہم طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ اس بارے حتمی فیصلہ سعودی حکومت نے اپنے قوانین کے مطابق کرنا ہے۔
واضح رہے کہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے رواں ماہ دسمبر میں قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ 21 ہزار 600 سے زائد پاکستانی اس وقت بیرون ملک قید ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد 10 ہزار745 افراد سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں، اس کے بعد متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں پانچ ہزار 297 پاکستانی قید ہیں جن میں بہت سے افراد کے خلاف مقدمات ابھی زیرِ سماعت ہیں۔
’اصل ملزمان گرفتار ہو چکے تو بے گناہ افراد کو رہا کیا جائے‘Getty Images
سعودی عرب میں زیرِ حراست 40 سالہ نئیر عباس کی والدہ جمیلہ بی بی کا کہنا ہے کہ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں تو بے گناہ گرفتار ہونے والے پانچوں افراد کو رہا کیا جانا چاہیے۔
اُنھوں نے بتایا کہ وہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی درخواستیں بھجوا چکے ہیں کہ ’انسانی ہمدردی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم پر رحم کیا جائے۔‘
والدہ کے مطابق نئیر عباس کے تین چھوٹے بچے ہیں اور خاندان کی کفالت کا کوئی اور سہارا نہیں ہے۔ زیارت بی بی اور انور بی بی کی عمریں اسی سال سے تجاوز کر چکی ہیں، اس کے علاوہ امام مسجد محمد ریاض اور اس کی بیوی شمیم بی بی کے دو بچے معذور ہیں۔ میاں بیوی کی گرفتاری کے بعد بچوں کو خالہ اپنے گھر لے گئی ہیں۔
ابرار حسین بتاتے ہیں کہ میری والدہ زیارت بی بی کے ساتھ میرے والد محمد رمضان نے عمرہ کے لیے جانا تھا لیکن ان کا شناختی کارڈ زائد المعیاد ہو چکا تھا اور پاسپورٹ بھی نہیں بنا ہوا تھا۔
’والد صاحب کو اس بات کا رنج تھا کہ میں عمرہ کی سعادت سے محروم رہ گیا ہوں، اب اگرچہ لوگ انھیں کہتے ہیں کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ جیل میں قید ہونے سے بچ گئے لیکن وہ پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ خوش قسمت تب ہوں گا جب میری بیوی گھر واپس آ جائے۔‘
سعودی عرب میں رواں برس دو پاکستانیوں سمیت 347 افراد کو سزائے موت: ’لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا جا رہا ہے‘بیگ سے منشیات برآمد ہونے کے الزام میں سعودی جیل میں قید پاکستانی خاندان کی بے گناہی کیسے ثابت ہوئیسعودی عرب میں پاکستانیوں کو سزائے موت: ’معلوم نہیں بھائی کی لاش کہاں دفن ہے‘سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اسرائیل کے خلاف، ایران کے حق میں بیان اور خطے میں طاقت کا نیا کھیلتیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانیمحمد بن سلمان کا وژن 2030: مستقبل کے جدید شہر کے بعد دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کا منصوبہ کیا ہے؟بیگ سے منشیات برآمد ہونے کے الزام میں سعودی جیل میں قید پاکستانی خاندان کی بے گناہی کیسے ثابت ہوئیریاض سیزن: سعودی فیشن شو میں ’شیشے کا کیوب‘ اور کعبہ سے مماثلت کا تنازع