Getty Images
پاکستان کی حکومت نے کئی برسوں کی کوشش کے بعد حال ہی میں سالہا سال سے خسارے میں چلنے والی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے اکثریتی شیئرز فروخت کر دیے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ان 75 فیصد حصص کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ایک گروپ عارف حبیب کنسورشیئم نے 135 ارب روپے میں خریدا۔
لیکن کیا حکومت نے پی آئی اے کو سستا فروخت کر دیا اور قومی خزانے کو ان پیسوں میں سے محض دس ارب روپے ملیں گے؟ پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے اس نوعیت کے بہت سے سوال پاکستان میں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔
ان میں بنیادی سوال یہ ہے کہ پی آئی اے کی اس نجکاری سے پاکستان کے قومی خزانے کو بنیادی طور پر کتنا پیسہ ملے گا؟ کچھ حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جتنے پیسوں میں حکومت قومی ایئر لائن کو بیچ رہی ہے اس سے زیادہ مالیت کے تو اس کے پاس جہاز موجود تھے۔
ان جیسے سوالات کے سامنے آنے کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے پی آئی اے کی نجکاری کے طریقہ کار میں شامل کی گئی وہ شق بھی ہے جس میں یہ کہا گیا کہ حکومت حالیہ فروخت سے ملنے والی رقم کا صرف 7.5 فیصد کیش میں لے گی جبکہ باقی سارا پیسہ واپس پی آئی اے میں انویسٹ کر دیا جائے گا۔
تو یہاں ایک سوال یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ حکومت یہ کیسے یقینی بنائے گی کہ وہ تمام پیسہ واقعی قومی ایئر لائن میں دوبارہ انویسٹ ہوا یا نہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ پاکستان کے قومی خزانے کے لیے یہ کتنا نقصان دہ ہو گا۔
پاکستان کے نجکاری کمیشن کا موقف ہے کہ قومی خزانے کو اس نجکاری سے دس ارب نہیں بلکہ 55 ارب ملیں گے اور حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ڈیل کے اندر گارنٹیز رکھی ہیں کہ وہ تمام پیسہ جو حکومت نہیں لے رہی وہ کمپنی میں واپس انویسٹ ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو گا؟
قومی خزانے کو اس ڈیل سے کیا ملے گا؟
وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتےہوئے بتایا کہ بنیادی طور پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے 75 فیصد حصص بیچے گئے ہیں جن کے عوض ملنے والے 135 ارب روپے کی رقم کا 7.5 فیصد براہ راست حکومت کو ملے گا۔
انھوں نے بتایا کہ حالیہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے باقی ماندہ 25 فیصد کی ویلیو 45 ارب روپے طے پائی یعنی قومی ایئر لائن کی کل مالیت 180 ارب تک پہنچی۔ حکومت کو پہلے 75 فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والی رقم میں سے دس ارب ملے گا۔
’اس کے بعد اگر باقی ماندہ 25 فیصد شیئرز بھی بولی جیتنے والا عارب حبیب کنسورشیئم خرید لیتا ہے تو حکومت کو اس کی ویلیو کا 45 ارب مل جائے گا۔‘
چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی کے مطابق اس طرح حکومت کو مجموعی طور پر اس ڈیل میں سے 55 ارب ملیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو خریدنے والے عارف حبیب کنسورشیئم نے حکومت کو یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ باقی ماندہ 25 فیصد حصص بھی خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ان کے پاس تین ماہ کا وقت ہے۔
’اگر وہ یہ حصص بھی خرید لیتے ہیں تو حکومت کو 55 ارب روپے مل جائیں گے جو قومی خزانے میں جائیں گے۔ اگر وہ نہیں بھی خریدتے تو بھی یہ تمام شیئرز جن کی ویلیو 45 ارب روپے ہے وہ حکومت کے پاس رہیں گے۔‘
یعنی پی آئی اے کی مکمل فروخت پر حکومت کو 55 ارب ملیں گے ورنہ اس کے پاس دس ارب کیش اور 45 ارب شیئرز کی صورت میں رہے گا۔
Getty Imagesپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ان 75 فیصد حصص کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ایک گروپ عارف حبیب کنسورشیئم نے 135 ارب روپے میں خریداکیا پی آئی اے کو کم قیمت پر بیچا گیا؟
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز مسلسل خسارے میں چلتی رہی تاہم اس کی فروخت کے بعد ایک سوال یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس خسارے کے باوجود ایئر لائن کی قیمت اتنی کم نہیں تھی جتنے میں حکومت نے اس کو فروخت کیا۔
پاکستان کے وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے اس سوال پر ایک وضاحت اپنے ایکس اکاونٹ پر ایک پیغام کے ذریعے کی۔
ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے جو کہ مسلسل خسارے میں چل رہی تھی اس کو نجکاری کے ذریعے سرمایہ کاروں کے لیے قابل خرید بنانے کے لیے حکومت کو چند اقدامات کرنے پڑے جن میں اس کے ذمے 600 ارب کے واجب الادا قرضوں کا بوجھ ایک ہولڈنگ کمپنی بنا کر اس میں منتقل کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے بیرون ملک اثاثے، جن میں امریکہ میں روز ویلٹ ہوٹل اور پیرس میں سکرائب ہوٹل شامل ہیں، اس نجکاری معائدے کا حصہ نہیں۔
’ان کی الگ سے نجکاری کر کے اس رقم سے ہولڈنگ کمپنی کو منتقل ہونے والا قرض ادا کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے موجودہ وہ تمام اثاثہ جات جو اس نجکاری کے ذریعے بیچے جا رہے ہیں ان کی کل ویلیو 190 ارب روپے بنتی ہے جن میں 33 جہاز شامل ہیں جن میں سے 30 منزلوں تک جانے کے لیے 18 جہاز آپریشنل ہیں۔
’اس کے علاوہ 170 گلوبل سلاٹس، 78 ڈیسٹینیشنز اور 97 ایئر لائنز ڈیزیگنیشن شامل ہیں۔‘
تاہم خرم شہزاد نے بتایا کہ ’اگر ان 190 ارب میں سے پی آئی اے کے ذمے موجود واجبات کے 181 ارب روپے نکال لیے جائیں تو پی آئی اے کی کل مالیت یا نیٹ ایکیوٹی صرف 9 ارب بچتی ہے۔‘
خرم شہزاد نے مزید بتایا کہ پی آئی اے کے نقصانات گزشتہ دس برس کے دوران 500 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے یعنی ہر برس پی آئی اے کو 50 ارب کانقصان ہو رہا تھا۔
عارف حبیب کنسورشیئم اور فوجی فرٹیلائزر: پی آئی اے کے نئے مالکان میں کون سی کمپنیاں شامل ہیں؟عارف حبیب گروپ نے 135 ارب روپے میں پی آئی اے کے 75 فیصد حصص خرید لیےپی آئی اے: ’باکمال لوگوں‘ کی ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اِس نے یہ نام کیسے کمایا؟ایک سال پہلے اربوں روپے خسارے والی پی آئی اے منافع بخش کیسے بن گئی؟اگر نیا خریدار پیسے پی آئی اے میں واپس انویسٹ نہیں کرتا؟
پی آئی اے کی حالیہ نجکاری کے بعد ملنے والی رقم کا 7.5 فیصد جو کہ دس ارب روپے بنتا ہے وہ حکومت تین ماہ کے اندر کیش میں لے گی تاہم باقی ماندہ 9.5 فیصد کمپنی میں دوبارہ انویسٹ کیا جانا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ نجکاری کے اس عمل میں حکومت نے یہ کیسے یقینی بنایا کہ نیا خریدار یہ تمام رقم واپس پی آئی اے میں انویسٹ کرے گا۔
نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا ممکن نہیں کہ پی آئی اے کو خریدنے والی کمپنی یہ شرط پوری نہ کرے۔
انھوں نے بتایا کہ پی آئی اے خریدنے والے گروپ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یہ تمام پیسہ پی آئی اے میں دوبارہ انویسٹ کریں گے۔
’اس کا طریقہ کار ایسا رکھا گیا ہے کہ عارف حبیب گروپ کو 7.5 فیصد جو کہ دس ارب روپے بنتا ہے پہلے تین ماہ کے اندر جمع کروانا ہے۔ ساتھ ہی انھیں تین ماہ کے اندر 92.5 فیصد کا دو تہائی حصہ پی آئی اے کے اندر انویسٹ کرنا ہے۔
یہ رقم لگ بھگ 83 ارب بنتی ہے۔
محمد علی نے بتایا کہ ’اس کے بعد ہی ان کے ساتھ ڈیل بند ہو پائے گی۔ باقی رقم جو 37 ارب روپے بنتی ہے وہ انھیں کمپنی میں دوبارہ انویسٹ کرنے کے لیے ان کے پاس 12 ماہ کا وقت ہو گا۔‘
چیئرمین نجکاری کمیشن نے بتایا کہ جب تک وہ یہ تمام رقم بارہ ماہ کے اندر ادا نہیں کر دیں گے اس وقت تک ان کے شیئرز حکومت کے پاس ود ہولڈ رہیں گے۔ ’تمام رقم پی آئی اے میں انویسٹ ہونے کے بعد ہی وہ شیئرز ان کو ریلیز کیے جائیں گے۔‘
مشیر برائے نجکاری محمد علی کا کہنا تھا کہ یہ بندوبست اس لیے کیا گیا کہ اس سے دو مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
’ایک تو یہ کہ حکومت کے پاس پیسے آ جائیں اور دوسرا اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام 92.5 فیصد کی رقم کمپنی میں دوبارہ انویسٹ ہو۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ حکومتی اندازے کے مطابق پی آئی اے کی حالت میں بہتری لانے کے لیے سالانہ 120 ارب روپے کی ضرورت ہو گی اور اسی لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ 75 فیصد حصص کی نجکاری سے ملنے والی رقم کا بڑا حصہ واپس کمپنی میں انویسٹ کیا جائے گا۔
Getty Imagesپی آئی اے کی فروخت میں اگلے مراحل کیا ہوں گے؟
مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اگلےمراحل میں آئندہ دو ہفتے کے بعد پی آئی اے کے 75 حصص خریدنے والے گروپ کے ساتھ معائدے پر دستخط کرنے کا عمل مکمل کیا جائے گا۔
نجکاری کمیشن کا بورڈ پہلے ہی حکومت کو عارف حبیب کنسورشیئم کی بولی کی منظوری کے لیے اسے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کو پیش کرنے کی منظوری دے چکا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد معائدے پر دستخط کرنے کا مرحلہ طے پائے گا۔
اس کے بعد تین ماہ کے عرصے کے بعد عارف حبیب کنسورشیئم کی جانب سے پیسوں کی ادائیگی کے بعد ان کے ساتھ معائدہ مکمل ہو جائے گا۔
مشیر برائے نجکاری اور نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے بعد لگ بھگ اپریل کے مینے سے پی آئی اے کے نئے مالکان کو کمپنی کا کنٹرول مل جائے گا تاہم مکمل طور پر کمپنی کو چلانے کے لیے انھیں وقت درکار ہو گا۔
اس دوران مزید بہت سی رسمی کارروائیاں مکمل کرنا ہوں گی جن میں بیرون ملک پی آئی اے کے معاہدوں میں ضابطے کی کارروائیاں درکار ہیں۔ ان کے لیے حکومت نے پہلے ہی سے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔
’اس کے علاوہ نئی مینیجمنٹ کو پی آئی اے کے تمام تر نظام کے سمجھنے اور اس کو مکمل طور پر سنبھالنے کےلیے وقت چاہیے‘ تاہممحمد علی کو امید ہے کہ آئندہ ایک سال کے عرصے کے اختتام تک پی آئی اے کے آپریشنز میں بہتری باقاعدہ طور پر نظر آنا شروع ہو جائے گی۔
عارف حبیب کنسورشیئم اور فوجی فرٹیلائزر: پی آئی اے کے نئے مالکان میں کون سی کمپنیاں شامل ہیں؟ایک سال پہلے اربوں روپے خسارے والی پی آئی اے منافع بخش کیسے بن گئی؟عارف حبیب گروپ نے 135 ارب روپے میں پی آئی اے کے 75 فیصد حصص خرید لیےپی آئی اے کے لیے صرف 10 ارب روپے کی بولی: کیا ’باکمال لوگوں‘ کی ایئرلائن کی نجکاری میں حکومت بری طرح پھنس گئی؟پی آئی اے: ’باکمال لوگوں‘ کی ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اِس نے یہ نام کیسے کمایا؟ساڑھے چار سال کی پابندی کے بعد پی آئی اے پرواز کی یورپ روانگی: مگر اس پابندی سے قومی ایئرلائن کو کتنے ارب کا نقصان اٹھانا پڑا؟