Getty Images
’یہ پہلا موقع ہے جب میں نے کسی ایسے شخص کو دفن کیا ہے جسے پہلے ہی دفن کیا جا چکا تھا۔‘
یہ کہنا تھا مک مینی کی بیٹی میرے کا جنھوں نے اپنی کتاب ’یو کانٹ ایٹ روزز میری‘ (آپ گلاب نہیں کھا سکتی، میری) میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کے والد کی آخری رسومات ادا کرنے والے پادری کے الفاظ تھے۔
مک مینی کی پہلی بار آخری رسومات اس واقعے سے 35 سال قبل ادا ہوئی تھیں۔ اور اس وقت ناصرف ایک بہت بڑا ہجوم وہاں موجود تھا بلکہ عالمی پریس نے بھی شرکت کی تھی۔ لیکن وہ اس وقت زندہ تھے۔
جی ہاں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک تماشہ تھا جو عوام اور میڈیا کی توجہ مبذول کرنے کے لیے رچایا گیا تھا۔
اس غیر معمولی کہانی ایک آئرش شراب خانے میں شروع ہوتی ہے۔
مرکزی کردار، مینی، ایک کسان کا بیٹا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کی تلاش میں انگلینڈ چلا گیا تھا۔ ان کا خواب ورلڈ باکسنگ چیمپئن بننا تھا لیکن انھیں ایک مزدور کے طور پر کام کرنا پڑا۔
رنگ میں کامیاب ہونے کا ان کا خواب ایک حادثے میں اس وقت ٹوٹ گیا جس میں ان کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ لیکن ایک اور حادثے میں ایک اور خیال نے جنم لیا۔
وہ ایک سرنگ کھود رہے تھے جب مٹی ان پر گری اور کہا جاتا ہے کہ جب وہ ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے تو ان کے نئے خواب کا بیج پھوٹ پڑا: ’تابوت میں زندہ دفن ہونے کا ریکارڈ توڑنے کا۔‘
امریکہ میں ایسے غیر معمولی مقابلے فیشن بن چکے تھے اور 1966 میں ایک ملاح آئرلینڈ میں 10 دن تک دفن رہا۔
ایک امریکی شخص نے ٹینیسی میں زیر زمین 45 دن گزارے تھے اور یہی وہ ریکارڈ تھا جسے مینی شکست دینا چاہتے تھے۔
لوگ خود کو دفن کیوں کرتے تھے؟Getty Imagesامریکہ میں ایسے غیر معمولی مقابلے فیشن بن چکے تھے اور 1966 میں ایک ملاح آئرلینڈ میں 10 دن تک دفن رہا
لوگ ایسا کچھ کرنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں جو پوری تاریخ میں اذیت کا ایک طریقہ رہا ہے اور ہم میں سے اکثر کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے؟
نام نہاد آخری رسومات کے فنکاروں کی وجوہات مختلف نظر آتی ہیں: محض ریکارڈ توڑنے کی خوشی سے لے کر پیسہ کمانے تک، حتیٰ کہ کسی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی۔
مثال کے طور پر اوڈیل نامی شخص نے اپنی زندگی میں 158 بار رضاکارانہ طور پر خود کو دفن کیا، اکثر جگہوں یا مصنوعات کی تشہیر کر کے پیسہ کمایا، لیکن 1971 میں انھوں نے آخری بار پٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے کے منصوبے کو فروغ دینے کے لیے ایسا کیا۔
مطلب وہ ایک سے زیادہ چیزوں کے لیے ایسا کرتے رہے۔
33 سال کی عمر میں مک مینی کے پاس بھی کوئی قابلیت، اعلیٰ تعلیم، یا واضح صلاحیت نہیں تھی۔
لیکن اس طرح کا کارنامہ ان کا نام گنیز بک آف ریکارڈز میں درج کروا سکتا تھا اور انھیں اتنا امیر بنا سکتا تھا کہ وہ آئرلینڈ میں گھر بنا سکیں۔
انھوں نے اعلان کیا ’حقیقی زندگی میں میرا کوئی مستقبل نہیں تھا۔ اسی لیے میں اپنی قابلیت ثابت کرنا چاہتا تھا۔‘
یوں انھوں نے عالمی شہرت یافتہ چیمپئن بننے کے خواب کو بھی برقرار رکھا اور چونکہ وہ اب ایک باکسر کے طور پر یہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انھوں نے برداشت کے شاندار کارنامے میں سب سے بہتر ہونے پر شرط لگانے کا عزم کیا۔
جب لوگ تابوت میں سونے کے لیے پیسے ادا کیا کرتے تھے’ماں نے کہا زندہ رہنا چاہتے ہو تو بھاگ جاؤ‘: 12 سالہ لڑکا جو نازیوں سے بچنے کے لیے دو سال تک جنگل میں چھپا رہاحسن بن صباح، قلعہ الموت اور جنت نما باغات میں رہنے والے فدائین: رازوں میں لپٹے نزاری فرقے کے عروج و زوال کی داستان ’جب میں 16 سال کی تھی، سی آئی اے نے مجھ پر دماغی کنٹرول کے تجربات کیے تھے‘Getty Imagesاس طرح کا کارنامہ ان کا نام گنیز بک آف ریکارڈز میں درج کروا سکتا تھا اور انھیں اتنا امیر بنا سکتا تھا کہ وہ آئرلینڈ میں گھر بنا سکیں
مینی شمالی لندن کے ایک محلے میں رہتے تھے جو اس وقت ان کے بہت سے ہم وطنوں کا گھر تھا۔ یہاں ایڈمرل نیلسن نامی ایک مشہور شراب خانہ تھا جسے مائیکل ’بٹی‘ سوگرو چلاتے تھے۔
وہ پہلے خود ایک سرکس میں پہلوان رہ چکے تھے اور کرسی پر بیٹھے شخص کو صرف اپنے دانتوں سے اٹھانے جیسے کرتب دکھاتے تھے۔
وہ ایک تاجر بھی تھے اور باکسنگ کو فروغ دینے کے شوقین بھی۔ چار سال بعد وہ محمد علی کو ڈبلن میں لڑنے کے لیے لائے۔
جب مک مینی نے شراب پیتے ہوئے اپنے آپ کو زندہ دفن کرنے کے خیال کا ذکر کیا تو یہ سوگرو کو پسند آیا۔
مک مینی کی بیٹی میری بتاتی ہیں کہ جب ان کی والدہ نے ریڈیو پر سنا کہ ایک شخص 45 دن سے زیادہ زیر زمین گزار کر عالمی ریکارڈ توڑنے کی کوشش کر رہا ہےتو وہ جان گئیں کہ یہ ان کا شوہر ہے اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
وہ یہ کرتب آئرلینڈ میں کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے خاندان نے اسے روک دیا، اس ڈر سے کہ وہ سب سے زیادہ خوفناک موت کا شکار ہو جائیں گے جسے کیتھولک چرچ پسند نہیں کرے گا۔
لیکن میری کے مطابق 21 فروری 1968 کو انھوں نے وہ کر دکھایا۔
زیر زمین
سوگرو نے کافی بڑا شو کیا تھا۔ اس کے ذہن میں یہ آیا تھا کہ مک مینی کو تابوت کے ڈھکن پر مہر لگانے سے پہلے اپنا ’آخری کھانا‘ شراب خانے میں عالمی پریس کے سامنے کھا لینا چاہیے۔
نیلے پاجامے اور ٹائٹس میں ملبوس خواہشمند چیمپئن 1.90 میٹر لمبے اور 0.78 میٹر چوڑے تابوت میں کھڑے ہوئے، جسے چیلنج کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے ساتھ ایک صلیب اور ایک مالا اٹھا رکھی تھی، اور اس سے پہلے کہ اسے بند کیا جاتا انھوں نے اعلان کیا ’میں یہ اپنی بیوی اور بیٹی اور آئرلینڈ کی عزت اور شان کے لیے کرتا ہوں۔‘
دفن ہونے کے بعد وہ کاسٹ آئرن سے بنی ٹیوبوں کی بدولت سانس لے سکتے تھے۔ انھی کی مدد سے انھیں ٹارچ لائٹ کے ذریعے پڑھنے کے لیے اخبارات اور کتابیں، ساتھ ہی کھانے، مشروبات اور سگریٹ بھی ملتے تھے۔
چائے اور ٹوسٹ، روسٹ گائے کا گوشت اور پسندیدہ شراب بھی ملتی۔ تابوت کے نیچے بنے ایک گڑھے کی طرف ایک ٹریپ ڈور بیت الخلا کا کام کرتا تھا۔
Getty Imagesان کی واپسی نے صحافیوں اور مداحوں کی بھیڑ کو اپنی طرف متوجہ کیا
سائٹ پر ایک عطیہ خانہ قائم کیا گیا تھا اور آپ رقم دے کر ان سے بات کر سکتے تھے۔
اس چیلنج نے باکسر ہنری کوپر اور اداکارہ ڈیانا ڈورس جیسے ستاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا، جو ان کی قبر پر مک مینی سے ملنے گئے تھے۔
تابوت کے اندر نصب ٹیلی فون سے انھوں نے بیرونی دنیا سے بات کی۔ ایڈمرل نیلسن پب سے منسلک لائن، جہاں سوگرو نے ہر کال کے لیے پیسے وصول کیے۔
پریس نے تھوڑی دیر تک ان کی خبر کا تعاقب کیا، لیکن پھر حقیقت نے انھیں بے گھر کر دیا: ویتنام کی جنگ اور مارٹن لوتھر کنگ کے قتل نے تقریباً ہر چیز کو گرہن لگا دیا۔
اس کے باوجود جب باہر نکلنے کا دن آیا تو سوگرو نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سب اس کے بارے میں جانیں۔
شہرت سے فراموشی تک
رقاصوں، موسیقاروں اور صحافیوں کے ساتھ، 22 اپریل کو، تدفین کے 8 ہفتے اور 5 دن بعد، تابوت کو نکالا گیا اور ایک ٹرک میں، ایک ہجوم کے درمیان جیسے ہی انھوں نے ڈھکن ہٹایا، مک مینی نے اپنی آنکھوں کی حفاظت کے لیے دھوپ کے چشمے پہنے اور مسکرائے۔
وہ گندے، میلے کچلیے تھے لیکن بلا شبہ فاتح بن چکے تھے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ’میں مزید سو دن رہنا چاہتا ہوں۔‘
طبی معائنے سے تصدیق ہوئی کہ وہ ٹھیک تھے۔
Getty Imagesرقاصوں، موسیقاروں اور صحافیوں کے ساتھ، 22 اپریل کو، تدفین کے 8 ہفتے اور 5 دن بعد، تابوت کو نکالا گیا
ان کی بیٹی میری کے مطابق ان سے 100,000پاؤنڈ نقد کے ساتھ ورلڈ ٹور کا وعدہ کیا گیا تھا۔
یہ بہت پیسہ تھا: 1970 میں ڈبلن کے ایک خوبصورت محلے میں ایک 3 منزلہ مکان کی قیمت تقریباً 12,000 پاؤنڈ تھی۔
61 دن زیر زمین رہنے کے بعد، مینی نے ریکارڈ سے کہیں زیادہ تجاوز کر لیا تھا۔ لیکن نہ تو پیسہ ملا نہ عالمی دورہ ہوا۔ وہ اپنی جیب میں ایک پیسہ لیے بغیر آئرلینڈ واپس آئے۔
گنیز ورلڈ ریکارڈز نے بھی کبھی ان کے ریکارڈ کو تسلیم نہیں کیا کیوں کہ ان کے کارنامے کی تصدیق کرنے کے لیے کوئی نمائندہ ہی موجود نہیں تھا، جیسا کہ جنازے کے فنکاروں کے زیادہ تر معاملات میں ہوا تھا۔
تاہم، عالمی پریس کی گواہی موجود تھی اور کوئی بھی ان کے 61 دنوں کے دعوے پر شک نہیں کر سکتا تھا۔
صرف چند ماہ بعد اسی سال ایما سمتھ نامی ایک سابق راہبہ نے انگلینڈ کے شہر کے ایک تفریحی پارک میں رضاکارانہ طور پر 101 دن تک دفن رہ کر ان کے کارنامے کو چکنا چور کردیا۔
ان کی موت کے دو دہائیوں بعد، 2003 میں، مک مینی کی کہانی ’بریڈ الائیو‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم کی شکل میں دوبارہ زندہ ہوئی۔ انھیں شاید یہ پسند آیا ہوگا۔
جب لوگ تابوت میں سونے کے لیے پیسے ادا کیا کرتے تھےتابوت سے آفت نکلنے کی افواہ مصر بھر میں پھیل گئی’ماں نے کہا زندہ رہنا چاہتے ہو تو بھاگ جاؤ‘: 12 سالہ لڑکا جو نازیوں سے بچنے کے لیے دو سال تک جنگل میں چھپا رہاحسن بن صباح، قلعہ الموت اور جنت نما باغات میں رہنے والے فدائین: رازوں میں لپٹے نزاری فرقے کے عروج و زوال کی داستان ’بدکردار بیوی یا خفیہ جاسوس‘؟ اس عورت کی کہانی جسے تاریخ نے سب سے زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا’جب میں 16 سال کی تھی، سی آئی اے نے مجھ پر دماغی کنٹرول کے تجربات کیے تھے‘