اسلامی معیشت اور خواتین کی مالی شمولیت

ہماری ویب  |  May 21, 2025

کسی بھی قوم کی معاشی اور سماجی ترقی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس کی نصف کے قریب آبادی رسمی معیشت سے باہر رہے۔ پاکستان میں خواتین ملک کی آبادی کا تقریباً 49 فیصد ہیں، لیکن وہ اب بھی مالیاتی نظام میں مؤثر طور پر شامل نہیں۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں صرف 26 فیصد خواتین کو باضابطہ بینک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل ہے، جبکہ محنت کش خواتین کی شرح محض 21 فیصد ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ صورتحال مزید سنگین ہے، جہاں مالیاتی رسائی کو ثقافتی روایات، بنیادی سہولتوں کی کمی اور ادارہ جاتی رکاوٹوں نے محدود کر رکھا ہے۔ ایک ایسا ملک جو پائیدار ترقی اور سماجی انصاف کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے، وہاں خواتین کو مالیاتی نظام سے باہر رکھنا ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر اس مسئلے کا سنجیدہ حل نکالا جائے تو یہ پاکستان کی معاشی سمت کو یکسر تبدیل کرسکتا ہے۔

مالیاتی شمولیت محض بینک اکاؤنٹ کھولنے تک محدود نہیں۔ یہ دراصل ایسے ذرائع، علم اور نظام فراہم کرتے ہیں جو افراد کو بچت ، سرمایہ کاری ، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور معاشی خودمختاری حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو روایتی مالیاتی نظام اکثر ملک کی وسیع ثقافتی اور مذہبی اقدار خاص طور پر خواتین کے حوالے سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا۔ ایسے میں اسلامی معیشت ایک متبادل نظام کے طور پر سامنے آئی ہے، جو نہ صرف جامع ہے بلکہ ہماری اقدار کے زیادہ قریب بھی ہے۔ اسلامی معیشت برابری، سماجی انصاف اور باہمی فلاح و بہبود جیسے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ صرف مالی لین دین کو منظم کرنے کا طریقہ نہیں بلکہ ایک ایسا مالیاتی نظریہ پیش کرتی ہے جو زیادہ اخلاقی، منصفانہ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہے۔ ایک ایسا نظام جو حقیقی شمولیت اور دیرپا ترقی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

پاکستان میں اسلامی بینکاری کی جانب پیش قدمی کو محض ایک مخصوص طبقے یا محدود مارکیٹ کی تبدیلی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسے وسیع پیمانے پر مالیاتی اور سماجی شمولیت کے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اسلامی معاشی ماڈل باہمی شراکت داری، حقیقی اثاثوں پر مبنی فنانسنگ اور استحصالی طریقوں خصوصاً سود (رِبا) سے اجتناب پر زور دیتا ہے، جنہیں نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ اسلامی تعلیمات کے منافی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ خواتین جو عموماً ضمانت، روایتی ملازمت کا ریکارڈ یا مالیاتی ساکھ جیسے تقاضے پورے نہیں کر پاتیں، اسلامی بینکاری کے ذریعے ایسے متبادل مالیاتی ذرائع تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں جو ان کی اقدار سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر قابلِ عمل بھی ہیں۔ اسلامی مالیاتی مصنوعات جیسے مرابحہ (قیمتِ خرید پر نفع کے ساتھ فروخت)، اجارہ (لیزپر دینا) اور مشارکہ (منافع میں شراکت) خواتین کو یہ موقع دیتی ہیں کہ وہ چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں، ضروری ساز و سامان خرید سکیں اور اپنی گھریلو مالیاتی ضروریات بہتر انداز میں پورا کرسکیں، وہ بھی بغیر سود یا قرضوں کے سخت شرائط کے۔ یہ ماڈل نہ صرف مالیاتی خودمختاری کو فروغ دیتا ہے بلکہ خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔

کوئی بھی مالیاتی ماڈل چاہے وہ کتنا ہی جامع کیوں نہ ہو اُس وقت تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اُس کی بنیاد تعلیم پر نہ رکھی جائے۔ پاکستان میں خواتین میں مالیاتی شعور کی سطح تشویشناک حد تک کم ہے۔ بہت سی خواتین نہ صرف بنیادی مالیاتی تصورات سے ناواقف ہیں بلکہ اُنہیں ان تک رسائی بھی حاصل نہیں۔ اگر تعلیم پر خصوصی توجہ نہ دی گئی تو مالی شمولیت کا خواب صرف ایک دعویٰ بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے تعلیم کو ایک متوازی حکمتِ عملی کے طور پر اپنانا ہوگا۔ ایک ایسی حکمتِ عملی جو خواتین کو نہ صرف خواندگی فراہم کرے بلکہ انہیں اس قابل بھی بنائے کہ وہ معاشی نظام سے مؤثر طور پر جُڑ سکیں، مالیاتی مصنوعات کو سمجھ سکیں اور پائیدار آمدن کے ذرائع خود تشکیل دے سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ پروگرام نہایت اہمیت رکھتے ہیں جو فنی تربیت کو مالیاتی تعلیم کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ایسے پروگراموں کو وسیع پیمانے پر فروغ دینے کے لیے عوامی اداروں اور نجی بینکوں کی معاونت اور شراکت ضروری ہے۔

تعلیم اور مالی رسائی کے ذریعے خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانا بظاہر ایک مشکل بلکہ ناممکن ہدف محسوس ہو تا تھا، لیکن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے اس منظرنامے کو یکسر بدل دیا ہے۔ ڈیجیٹل بینکاری اب مالی شمولیت کے تمام بڑے چیلنجز کا ایک موثر جواب بن کر سامنے آئی ہے، خصوصاً اُن خواتین اور نوجوانوں کے لیے جو جغرافیائی فاصلے یا سماجی پابندیوں کے باعث بینکوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ اسلامی ڈیجیٹل بینکاری اس میں مزید کشش پیدا کرتی ہے، کیونکہ یہ اُن طبقات کے لیے بھی قابلِ قبول ہے جو سود پر مبنی نظام کی وجہ سے روایتی بینکاری سے دور رہتے ہیں۔ آج موبائل والٹس، بائیومیٹرک تصدیق اور اَیپ بیسڈ بینکاری پلیٹ فارمز جیسے ذرائع مالیاتی خدمات کے دروازے کھول رہے ہیں۔ ان سہولتوں سے بچت، قرض اور بیمہ جیسی سہولتوں تک دور دراز علاقوں میں بھی آسان رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف ایک سہولت ہے بلکہ بڑی معاشی اور سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہے۔

پاکستان میں براڈ بینڈ تک رسائی غیر مساوی ہے، خصوصاً شہری علاقوں سے باہر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں۔ اگرچہ اسمارٹ فون کا استعمال بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن کم آمدن والے طبقات اور دیہی آبادی میں اس کی رسائی تاحال محدود ہے۔ خواتین کو اس حوالے سے واضح صنفی خلا کا سامنا ہے۔ موبائل فون کی ملکیت سے لے کر انٹرنیٹ کے استعمال تک وہ کئی سطحوں پر محرومی کا شکار ہیں۔ یہ رکاوٹیں اکثر معاشی عدم استطاعت، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی اور سماجی و ثقافتی رکاوٹوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 11 فیصد خواتین اسمارٹ فون کی مالک ہیں جبکہ 15 فیصد خواتین کو انٹرنیٹ تک مکمل رسائی حاصل ہے۔ ان حالات میں اگر اسلامی ڈیجیٹل بینکاری کو اس کی مکمل صلاحیت کے ساتھ فروغ دینا ہے تو صرف ٹیکنالوجی مہیا کر دینا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے جامع حکمت عملی بھی درکار ہے جس میں ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر میں بھرپور سرمایہ کاری، عوامی و نجی شعبوں کے اشتراک سے کم لاگت یا مفت آلات کی فراہمی،خواتین کے لیے مخصوص آگاہی اور تربیتی پروگرام جو ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرے ، ضروری ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف مالی رسائی کو بڑھائیں گے بلکہ خواتین کو بااختیار بنانے اور اسلامی مالیاتی نظام کی وسعت کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی فراہم کریں گے۔

پاکستان میں متعدد اسلامی بینک خصوصاً فیصل بینک خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کر رہے ہیں۔فیصل بینک کی ”عمل“ پروڈکٹ خواتین کے لیے شریعت کے مطابق بچت اور سرمایہ کاری کی سہولتیں فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ محفوظ اور بااعتماد انداز میں مالی منصوبہ بندی کر سکیں۔ جب کہ ”خود مختار“ پروگرام اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر فنی تربیت کو مالیاتی تعلیم سے جوڑتا ہے تاکہ خواتین نہ صرف ہنر حاصل کرسکیں بلکہ اس ہنر کو معاشی خودکفالت میں بھی بدل سکیں۔اسی طرح ”نیا سفر“ ان خواتین کی معاونت کرتا ہے جو گھریلو یا ذاتی وجوہ کی بنا پر کیریئر میں وقفہ لینے کے بعد دوبارہ عملی زندگی میں لوٹنا چاہتی ہیں۔یہ اقدامات صرف کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کی سرگرمیاں نہیں بلکہ مالیاتی اداروں کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل ہیں جو انہیں منافع کے ساتھ ساتھ معاشرتی شمولیت اور مساوی ترقی کا ذریعہ بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

خواتین کی مالی شمولیت محض اعداد و شمار تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسی تبدیلی کا آغاز ہے جو نسلوں پر محیط ہو سکتی ہے۔عالمی تحقیق مسلسل اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ خواتین اپنی آمدن کا تقریباً 90 فیصد اپنے اہل خانہ کی تعلیم، صحت اور مجموعی فلاح پر خرچ کرتی ہیں ۔مردوں کے مقابلے میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔یہ رجحان محض انفرادی یا گھریلو سطح پر بہتری تک محدود نہیں رہتا، بلکہ معاشی تسلسل پیدا کرتا ہے جو پوری برادری کی خوشحالی اور استحکام کا باعث بنتا ہے۔میکنزی کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں خواتین کی معاشی شرکت کے میدان میں صنفی خلا کو کم کیا جائے، تو 2025 تک خطے کی مجموعی پیداوار میں 700 ارب ڈالرز تک کا اضافہ ممکن ہے۔پاکستان بھی اس معاشی امکانی فائدے سے بھرپور استفادہ کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ خواتین کی مالی شمولیت کو محض ایک سماجی نعرہ نہ سمجھے بلکہ اسے قومی ترقی کی حکمت عملی کا مرکزی ستون بنائے اور اس پر عملی اقدامات کرے۔

پاکستان کو اگر منصفانہ، مساوی اور خوشحال معاشرہ بننا ہے تو اس کی ابتدا خواتین کی مکمل شمولیت سے ہونی چاہیے نہ صرف عددی اعتبار سے بلکہ بااختیار اور فعال کردار کے ساتھ۔یہ محض پالیسی سازی کا مسئلہ نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک ایسی سوچ جومعاشی پالیسیوں کو زمینی، سماجی اور ثقافتی حقائق سے ہم آہنگ کرے، انسانی وسائل اور ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر میں مسلسل سرمایہ کاری کو یقینی بنائے اور مالیاتی اداروں کو صرف نفع کمانے والے اداروں کے بجائے سماجی بہتری کے ذرائع کے طور پر دیکھے۔اسلامی معاشیات محض ایک مالیاتی نظام نہیں بلکہ ایک ایسا جامع وژن ہے جو معاشرتی عدل، اشتراک اور باہمی فلاح پر مبنی ترقی کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس وژن میں خواتین صرف فائدہ اُٹھانے والی نہیں بلکہ ترقی کی معمار، ذریعہ اورمحافظ تینوں کرداروں میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ایک ایسی قوت جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں آگے لے جا سکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More