قومی احتساب بیورو (نیب) نے ملک بھر میں مختلف جائیدادیں 15 روزہ کے لیے منجمد کرنے کا حکم دے دیا، جن میں معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے اور ان کی کمپنی بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کی جائیدادیں شامل ہیں، یہ کارروائی بااثر افراد کے خلاف دائر ایک ریفرنس پر کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت نیب کی جانب سے ملک ریاض کے خلاف کی جانے والی سابقہ کارروائیوں میں ایک اور اضافہ ہے، جنہیں 190 ملین پاؤنڈ کے القادر ٹرسٹ کیس میں بھی مفرور قرار دیا گیا تھا۔ 19 جون کو جاری حکم نامے کے مطابق نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 12 (جائیداد منجمد کرنے کا اختیار) اور دفعہ 34 اے (اختیارات کی تفویض) کے تحت 457 غیر منقولہ جائیدادیں منجمد کی گئی ہیں۔
تحقیقات کا حوالہ دے کر حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے ایک دوسرے سے ملی بھگت کر کے ضلع ملیر، کراچی میں واقع 16,896 ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کیا، جو نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 اے کی خلاف ورزی ہے۔
حکم نامے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی ڈی ایچ اے راولپنڈی میں 5، احمد علی ریاض کی اسلام آباد میں 2، اور بحریہ ٹاؤن کی اسلام آباد میں 18 جائیدادیں منجمد کی گئی ہیں، جو مجموعی طور پر 25 بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک ریاض کے داماد زین ملک کی دو جائیدادیں بھی فہرست میں شامل ہیں۔
یہ حکم 15 دن تک نافذ العمل رہے گا، تاہم دستاویز میں درج ہے کہ یہ حکم اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک احتساب عدالت اس پر فیصلہ نہ دے دے، جیسا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2019 میں ایس سی ایم آر 1106 کے فیصلے میں قرار دیا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ایک احتساب عدالت نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمین ہتھیانے کے مقدمے میں ملک ریاض، ان کے بیٹے اور دیگر افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ نیب نے کچھ ماہ قبل بحریہ ٹاؤن کے مالکان، پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور سرکاری افسران کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے کے لیے سرکاری زمین کو غیر قانونی طور پر تبدیل، منتقل اور الاٹ کیا۔