Reutersفردو کی جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے امریکہ نے اپنے بنکر بسٹر بم استعمال کیے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں نے ایران میں تین جوہری مقامات پر بمباری کی ہے، جس کے بعد امریکہ باقاعدہ طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہو گیا ہے۔
اتوار کی صبحصدر ٹرمپ نے امریکی عوام سے ٹیلی ویژن پر ایک مختصر خطاب میں کہا کہ ’یاد رہے، بہت سے اہداف باقی ہیں۔ آج کی رات اب تک کی سب سے مشکل اور شاید سب سے مہلک رات تھی،"
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر امن جلد نہیں قائم ہوا تو ہم درستگی، رفتار اور مہارت کے ساتھ ان دوسرے اہداف تک جائیں گے۔‘
امریکی بمباری کے اہداف میں سے ایک تہران کے جنوب میں دور دراز پہاڑی علاقے میں قائم یورینیم کی افزودگی کا مرکز فردو تھا جو ایران کے جوہری عزائم کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ فردو کی تنصیبات کو کس قسم کا نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں امریکہ کے ساتھ "مکمل ہم آہنگی" میں تھے۔
بی بی سی کے پارٹنر امریکی چینل، سی بی ایس نیوز کو امریکی حکام نے بتایا ہے کہ، امریکہ نے سنیچر کو سفارتی چینلز کے ذریعے ایران سے رابطہ کیا اور بتا دیا تھا کہ وہ صرف فضائی حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ کہ ایران میں ’حکومت کی تبدیلی کی کوششیں‘ منصوبے کا حصہ نہیں۔
ایران ان حملوں کے بعد خطے میں امریکی فوجی اثاثوں کو نشانہ بنا کر جواب دے سکتا ہے۔ اسرائیل سے حالیہ جنگ کے آغاز کے بعد ایرانی حکام پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ کسی بھی امریکی حملے سے علاقائی جنگ کا خطرہ ہے اور وہ جوابی کارروائی کریں گے۔
آئیے دیکھیں کہ ہم ایران اسرائیل جنگ اور اس میں امریکہ کی شمولیت کے بارے میں اب تک کیا جانتے ہیں۔
یہ سب کچھ شروع کیسے ہوا؟
اس حالیہ جنگ کا آغاز 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران میں درجنوں ایرانی جوہری اور عسکری اہداف پر اچانک حملے سے ہوا تھا۔ اسرائیل نے کہا کہ اس کی خواہش ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا ہے، جس کے بارے میں وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا دعویٰ تھا کہ وہ جلد ہی ایٹم بم تیار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کے جوہری عزائم پرامن ہیں۔ جوابی کارروائی میں تہران نے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ اور ڈرون داغے اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر فضا کے راستے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ٹرمپ ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران کے جوہری ہتھیار رکھنے کے مخالف ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں حالانکہ وہ اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔
مارچ میں، امریکی قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبارڈ نے کہا تھا کہ اگرچہ ایران نے اپنے یورینیم کے ذخیرے کو غیر معمولی سطح تک بڑھا دیا ہے، لیکن وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے۔ ایران پر امریکی حملے سے چند دن قبل جب امریکی صدر سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تلسی گبارڈ کا اندازہ ’غلط‘ تھا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں ’احمقانہ لامتناہی جنگوں‘ میں ملوث ہونے پر ماضی کی امریکی انتظامیہ پر تنقید کرتے رہے تھے اور انھوں نے امریکہ کو غیر ملکی تنازعات سے دور رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
13 جون کو اسرائیل کے اچانک حملے کے وقت امریکہ اور ایران جوہری مذاکرات کر رہے تھے اور حملے سے صرف دو دن پہلے، صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ایران کو حملہ کرنے سے پہلے ٹھوس مذاکرات کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیں گے- لیکن اصل مدت بہت کم ثابت ہوئی۔
ایران نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کی حالیہ لڑائی میں اب تک 200 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیل میں بھی ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں چند افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
امریکہ ایران اسرائیل جنگ میں شامل: تین جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کے بعد ایران کے اسرائیل پر میزائل حملےسب سے طاقتور بنکر شکن بم جو امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے لیے استعمال کیےایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے کیا خطرات جنم لے سکتے ہیں؟ایران میں یورینیم کی افزودگی: 3.67 فیصد کی حد کہاں سے آئی اور دنیا کے لیے 60 فیصد افزودہ یورینیم پریشانی کا باعث کیوں؟امریکہ نے حملے کہاں کیے اور کون سا اسلحہ استعمال ہوا؟BBC
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایران میں تین جوہری مقامات کو نشانہ بنایا جو فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع ہیں۔
فردو تہران کے جنوب میں ایک پہاڑی علاقے میں زیرِ زمین واقع ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ برطانیہ اور فرانس کو ملانے والی چینل ٹنل سے زیادہ گہرائی میں بنایا گیا ہے۔
اس گہرائی نے اسرائیل کے ہتھیاروں کی اس تک رسائی مشکل بنا دی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ امریکہ کے ’بنکر بسٹر‘ بم کے علاوہ کوئی ہتھیار اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اس امریکی بم کو جی بی یو -57 میسیو آرڈننس پینیٹریٹر کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس کا وزن 13 ہزار کلوگراماور یہ پھٹنے سے پہلے تقریباً کنکریٹ میں 18 میٹر اور عام زمین میں 61 میٹر تک گھس سکتا ہے۔
خیال ہے کہ فردو کی سرنگیں سطح زمین سے 80 سے 90 میٹر نیچے ہیں اس لیے بنکر بسٹر کے حملے کے کامیاب ہونے کی حتمی ضمانت نہیں ہے، لیکن یہ واحد بم ہے جو ان کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں بنکر بسٹر بم استعمال کیے گئے ہیں۔
ایران میں امریکی حملے سے کیا نقصان ہوا ہے؟
اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ امریکی حملوں کو مکمل کامیاب قرار دیتے ہوئے دعوے کر رہے ہیں کہ فردو کی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ تینوں جوہری تنصیبات پر امریکی حملے سے کیا نقصان ہوا ہے۔
ایرانی حکام کی جانب سے ان حملوں کے بعد سے ہی ان کو غیراہم قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ 'غیر مصدقہ' خبریں ہیں۔
تاہم ایک ایرانی عہدیدار کی جانب سے سرکاری طور پر اس حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق، صوبہ قم کے کرائسس مینجمنٹ کے ترجمان مرتضی حیدری کا کہنا ہے کہ 'فردو نیوکلیئر سائٹ کے ایک حصے پر فضائی حملہ کیا گیا۔'
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل نیٹ ورک سوشل ٹروتھ پر ایک پیغام میں لکھا کہ 'فردو تباہ ہو گیا ہے۔' تاہم ایران کے سرکاری ٹی وی پر کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ فردو جوہری تنصیب کو تباہ کرنے کے حوالے سے 'چکمہ' دے رہے ہیں اور حملے میں فردو کے داخلی اور خارجی راستے پر صرف دو سرنگوں کو ہی نقصان پہنچا ہے۔
دوسری جانب اصفہان کے سکیورٹی ڈپٹی گورنر اکبر صالحی نے حال ہی میں کہا ہے کہ 'نطنز اور اصفہان میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، ہم نے اصفہان اور نطنز کے جوہری مقامات کے قریب حملے دیکھے۔'
ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کے ڈپٹی پولیٹیکل ڈائریکٹر حسن عابدینی سرکاری ٹی وی پر براہ راست نظر آئے اُن کا کہنا تھا کہ 'ایران نے کچھ عرصہ قبل ان تین جوہری تنصیبات کو خالی کرا لیا تھا جنھیں سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب امریکہ کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔'
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکی صدر ٹرمپ کی بات سچ بھی ہے تو ایران کو 'کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا کیونکہ (جوہری) مواد پہلے ہی ان مقامات سے نکال لیا گیا تھا۔'
خیال رہے کہ اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’جوہری افزودگی کی سہولیات کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔‘ لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، امریکہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری برائے سیاسی و عسکری امور مارک کِمِٹ، اس معاملے پر کہیں زیادہ محتاط دکھائی دیے اور ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو چکا ہے۔‘
BBCایران کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
ایران اب تک اپنے فوجی اڈوں پر اسرائیل کے حملوں اور اس سے قبل لبنان (حزب اللہ)، شام اور غزہ (حماس) میں اپنی حامی تنظیموں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے کمزور ہوا ہے لیکن وہ اب بھی بڑا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایرانی حکام نے امریکہ کو اسرائیل اور اپنی جنگ میں ملوث ہونے کے امکان کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ہوا تو امریکہ کو ’ناقابل تلافی نقصان‘ پہنچے گا اور اس سے پورے خطے میں ’مکمل جنگ‘ کا خطرہ ہے۔
امریکہ کے حملوں کے بعد ایران نے اتوار کو فوری طور پر اسرائیل پر مزید میزائل داغے ہیں لیکن تاحال امریکی اثاثوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران نے امریکی حملے کی صورت میں خطے میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کم از کم 19 مقامات پر امریکہ کے فوجی اڈے ہیں جو بحرین، مصر، عراق، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں واقع ہیں۔
ایران کے لیے سب سے واضح اہداف میں بحرین میں مینا سلمان میں امریکی بحریہ کا پانچواں فلیٹ ہیڈکوارٹر ہے۔
وہ آبنائے ہرمز کے نام سے معروف جہاز رانی کے راستے کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے، جو خلیج فارس کو بحر ہند سے جوڑتا ہے اور جس کے ذریعے دنیا کی تیل کی سپلائی کا 30 فیصد پہنچایا جاتا ہے۔ یہ دوسرے سمندری راستوں پر بھی حملہ کر سکتا ہے جس سے عالمی منڈیوں کے غیر مستحکم ہونے کا خطرہ ہے۔
ایران ایسے قریبی ممالک کے اثاثوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے جن کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ امریکہ کی مدد کر رہے ہیں جس سے جنگ کے پورے خطے میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔
Does Trump need approval from Congress to send the US to war?
امریکی قانون کے تحت صدر کو کسی دوسرے ملک کے خلاف باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان کرنے کا واحد اختیار نہیں ہے اور صرف کانگریس یعنی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے منتخب قانون ساز ہی ایسا کرسکتے ہیں۔
لیکن قانون یہ بھی کہتا ہے کہ صدر مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ امریکی فوجیوں کو تعینات کر سکتا ہے اور جنگ کے باقاعدہ اعلان کے بغیر فوجی آپریشن کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، 2017 میں شام میں اسد حکومت کے خلاف فضائی حملے کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کو کانگریس سے منظوری کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے بجائے، ٹرمپ نے قومی سلامتی اور انسانی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے یکطرفہ طور پر کام کیا۔
امریکہ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے کچھ قانون سازوں نے حال ہی میں کانگریس کے ذریعے جنگی طاقتوں کی قرارداد کو آگے بڑھا کر ایران پر امریکی حملوں کا حکم دینے کی ٹرمپ کی صلاحیت کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ اس پر رسمی ووٹنگ میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، اور ایسے اقدامات زیادہ تر علامتی سمجھے جاتے ہیں۔
کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟’سات منٹ میں تل ابیب‘ تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے والا ایرانی سجیل میزائل کتنا خطرناک ہے؟