پنجاب میں بجلی چوری کے خلاف مہم، ملزمان کو سزا کیوں نہیں ہوتی؟

اردو نیوز  |  Jun 29, 2025

پراسیکیوشن اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں بجلی چوری کے خلاف دو برس سے جاری مہم کے باوجود ایک بھی ملزم کو سزا نہیں ہوئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 80 سے 90 فیصد مقدمات خارج ہو چکے ہیں۔ اور لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) اور پنجاب پولیس کی مشترکہ کوششوں کے باوجود ایک بھی سزا ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔

مہم کی صورت حالپنجاب پولیس کے مطابق سنہ 2023 سے 2025 تک لاہور سمیت صوبے بھر میں بجلی چوری کے دو لاکھ سے زائد مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے ایک لاکھ سے زیادہ صرف لیسکو ریجن سے ہیں۔ سنہ 2024 میں لیسکو نے ایک لاکھ 34 ہزار 815 ملزمان کے خلاف مقدمات درج کیے، جن میں سے 22 ہزار 448 گرفتار ہوئے۔ ان مقدمات میں 11 کروڑ سے زائد یونٹس کا ڈٹیکشن بل جاری کیا گیا، جن کی مالیت چار ارب 38 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔

تاہم پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا کام پولیس کی تفتیش کو عدالت میں پیش کرنا ہے۔ مقدمہ بنانا یا تفتیش ہمارا دائرہ کار نہیں۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ کمزور تفتیش کی وجہ سے اکثر مقدمات عدالت میں نہیں ثابت نہیں ہوتے۔

اس حوالے سے ترجمان لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ’ہر بجلی چوری کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے، لیکن زیادہ تر ملزمان جرمانہ ادا کر دیتے ہیں اور یوں مقدمہ واپس لے لیا جاتا ہے‘

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا جرمانے ہی اس مہم کا اصل مقصد ہیں؟

لیسکو کا طریقہ کارلیسکو کے ایک اعلٰی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’بجلی چوری کے خلاف چھاپوں کے لیے لیسکو، پولیس اور بعض اوقات رینجرز کی مشترکہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ ٹیمیں کنڈا ڈالنے، میٹر ٹیمپرنگ، یا ڈائریکٹ سپلائی جیسے طریقوں سے چوری پکڑتی ہیں۔ ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے، اور ڈٹیکشن بل جاری کیا جاتا ہے، جو چوری شدہ بجلی کے یونٹس اور ٹیرف کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سنہ 2024 میں لیسکو نے تین ارب 57 کروڑ روپے کے واجبات وصول کیے۔‘

دوسری جانب لیسکو کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد چوری روکنا اور قومی خزانے کو نقصان سے بچانا ہے۔ چیف ایگزیکٹو انجینیئر شاہد حیدر کی ہدایت پر یہ مہم بلا تعطل جاری ہے۔‘

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمانوں کی ادائیگی کے بعد مقدمات کی واپسی سے ملزمان کو سزا سے استثنیٰ مل جاتا ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟پاکستان کے فوجداری قانون کے سیکشن 462 کی شق کے مطابق کمرشل میٹر سے چوری کی صورت میں ملزم کو تین برس قید، 60 لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ گھریلو صارفین کے لیے بھی یہی قانون ہے، لیکن جرمانے کی رقم کم ہوتی ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد شاہ نے کہا کہ کمزور تفتیش کی وجہ سے اکثر مقدمات عدالت میں نہیں ثابت نہیں ہوتے۔ (فائل فوٹو: ایکس)ایڈووکیٹ محمد رضوان کہتے ہیں کہ ’سنہ 2023 کے بعد قانون میں سختی کی گئی ہے۔ اب پولیس موقع پر ہی ملزم کو گرفتار کرتی ہے، لیکن ضمانت کے لیے بل کی ادائیگی لازمی ہے۔ اس لیے زیادہ تر مقدمات ریکوری کے بعد خارج ہو جاتے ہیں۔‘

ماہر قانون ڈاکٹر عثمان علی کے مطابق ’یہ نظام جرمانوں کی وصولی کو ترجیح دیتا ہے، نہ کہ سزا کو۔ قانون میں سزا کا ذکر موجود ہے، لیکن تفتیشی خامیاں اور عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ اسے غیرموثر بناتا ہے۔‘

سزا کیوں نہیں ہوتی؟ماہرین کے مطابق بجلی چوری کے مقدمات میں سزا نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ پولیس کی تفتیش اکثر ناکافی ہوتی ہے، جس سے شواہد عدالت میں پیش نہیں ہو پاتے۔ پراسیکیوٹر جنرل فرہاد شاہ نے اس کی تصدیق کی کہ تفتیش کا معیار مقدمات کی کامیابی کا تعین کرتا ہے۔

لیسکو اور دیگر بجلی کمپنیوں کا زور مالی وصولی پر ہے۔ سنہ 2024 میں لیسکو نے ایک دن میں 251 نادہندگان سے ایک کروڑ 66 لاکھ روپے وصول کیے۔ یہ طریقہ کار ملزمان کو سزا سے بچاتا ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر فیصل رحمان کے مطابق بجلی چوری قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتی ہے، لیکن جرمانوں سے عارضی ریکوری تو ہو جاتی ہے، مگر یہ چوری کو روکنے کا مستقل حل نہیں۔ ایک مضبوط عدالتی اور تفتیشی نظام کے بغیر یہ مہم صرف دکھاوا بن کر رہ جائے گی۔‘

ایڈووکیٹ محمد رضوان کہتے ہیں کہ ’سنہ 2023 کے بعد قانون میں سختی کی گئی ہے۔ اب پولیس موقع پر ہی ملزم کو گرفتار کرتی ہے۔‘ (فائل فوٹو: پکسابے)حیران کن طور پر سنہ 2024 میں لاہور کی ایک عدالت نے بجلی چوروں کو سزا کے بجائے ’اخلاقی تربیت‘ دینے کا فیصلہ کیا۔ پروبیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک نیا تجربہ ہے، لیکن اس سے ملزمان کی اصلاح ممکن ہے۔‘

تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر چوری کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More