لیبر پارٹی کی سابق رکن پارلیمان زارا سلطانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیرمی کوربن کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے جا رہی ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق زرا سلطانہ نے برطانوی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ میں ’نسل کشی میں فعال طور پر شریک‘ ہے۔زارا سلطانہ نے یہ اعلان جمعرات کی شام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس ایک دن بعد اس وقت کیا جب جیرمی کوربن نے آئی ٹی وی کے سیاسی پروگرام ’پیسٹن‘ میں کہا کہ برطانوی سیاست میں ایک متبادل کی اشد ضرورت ہےاپنے پیغام میں زارا سلطانہ نے دعویٰ کیا کہ ویسٹ منسٹر کا سیاسی نظام تباہ حال ہے اور ان کی نئی تحریک برطانیہ اور دنیا بھر میں سماجی انصاف پر توجہ دے گی۔
انہوں نے لکھا ’لیبر پارٹی لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اور پورے سیاسی نظام میں، (ریفارم پارٹی کے رہنما نائیجل) فراج سے لے کر (وزیراعظم) سٹارمر تک، وہ غزہ میں نسل کشی روکنے کی کوشش کرنے والے باضمیر افراد کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔‘
’لیکن حقیقت واضح ہے: یہ حکومت نسل کشی میں فعال طور پر شریک ہے۔ اور برطانوی عوام اس کی مخالفت کرتے ہیں۔‘زارا سلطانہ نے مزید کہا کہ اگلے عام انتخابات میں ووٹرز کے سامنے انتخاب ہوگا ’سوشلسٹ نظام یا بربریت‘۔انہوں نے اعلان کیا کہ ’جیرمی کوربن اور میں دیگر آزاد ارکان پارلیمنٹ، کارکنوں اور ملک بھر کے سرگرم افراد کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں۔‘جیرمی کوربن نے تاحال اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ وہ اس نئی جماعت کا حصہ ہوں گے یا نہیں، تاہم ٹی وی پروگرام میں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ جولائی 2024 میں غزہ میں جنگ کی مخالفت کے منشور پر منتخب ہونے والے چار آزاد ارکان پارلیمان ، شوکت آدم، ایوب خان، عدنان حسین، اور اقبال محمد، سے ایک نئی امن پر مبنی جماعت بنانے پر بات چیت کر چکے ہیں۔بی بی سی کے پروگرام ’نیوز نائٹ‘ نے تصدیق کی کہ زارا سلطانہ نے اس ہفتے کے اوائل میں جیرمی کوربن اور آزاد اتحاد کے ارکان سے ملاقات کی تھی، تاہم ’مشترکہ قیادت‘ کا خیال کوربن کو زیادہ پسند نہیں آیا۔صحافی گیبریل پوگرنڈ نے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ کوربن ’ناراض اور حیران‘ تھے کہ زارا سلطانہ نے ان سے مشورہ کیے بغیر اعلان کر دیا۔زارا سلطانہ کو گزشتہ سال اس وقت لیبر پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: ایکس)برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کئی بار اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں، اور موجودہ صورتحال کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دیا ہے، لیکن انہوں نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام نہیں لگایا۔سابق لیبر کمیونیکیشن ڈائریکٹر ایلسٹر کیمبل نے بی بی سی کو بتایا کہ غزہ میں جنگ سے متعلق حکومت کے اقدامات لیبر پارٹی کی ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں۔زارا سلطانہ کو گزشتہ سال اس وقت لیبر پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا جب انہوں نے بچوں کے فوائد سے متعلق ووٹ میں حکومت کی مخالفت کی تھی۔وہ اپنی سابقہ جماعت کی سخت ناقد رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی جب حکومت نے فلسطین ایکشن گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوشش کی تو زارا سلطانہ نے ایکس پر پوسٹ کیا تھا کہ ’ہم سب فلسطین ایکشن ہیں۔‘یہ پوسٹ اس قانون سازی سے پہلے کی گئی جو 26 ارکان پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود منظور ہو گئی۔اپنے نئے سیاسی اقدام کے اعلان میں انہوں نے کہا کہ ’ویسٹ منسٹر ناکام ہو چکا ہے، لیکن اصل بحران اس سے کہیں گہرا ہے۔ آج صرف 50 خاندانوں کے پاس برطانیہ کی نصف آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے، عدم مساوات بے حد ہو چکی ہے، اور دو بڑی جماعتوں کا نظام صرف تباہی اور جھوٹے وعدے دے رہا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ہم اجنبیوں کا جزیرہ نہیں، بلکہ ایک ایسا جزیرہ ہیں جو مصیبت میں ہے۔ ہمیں ایسی زندگیاں اور گھر چاہییں جو ہم واقعی برداشت کر سکیں، نہ کہ ہر ماہ وہ مہنگے بل جن سے چند امیر لوگ مالامال ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنا پیسہ عوامی خدمات پر خرچ کرنا ہے، نہ کہ ختم نہ ہونے والی جنگوں پر۔‘لیبر پارٹی کے اندر اس اعلان پر ملا جلا ردِ عمل آیا۔سابق شیڈو چانسلر جان میکڈونل، جنہیں زارا سلطانہ کے ساتھ معطل کیا گیا تھا، نے ایکس پر لکھا کہ ’زارا سلطانہ کا لیبر پارٹی سے جانا میرے لیے افسوسناک ہے۔ پارٹی کی موجودہ قیادت کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ایک نوجوان، باصلاحیت، سوشلسٹ خاتون کیوں محسوس کرتی ہے کہ اب اس کا لیبر میں کوئی مقام نہیں۔‘برینٹ ایسٹ سے رکن پارلیمنٹ ڈان بٹلر نے کہا کہ وہ سلطانہ کی مایوسی سمجھ سکتی ہیں۔