الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی مشہور امریکی کمپنی ٹیسلا آئندہ ہفتے انڈیا کے دارالحکومت ممبئی میں اپنا پہلا انڈین شو روم کھولے گی جس کے لیے اس نے 10 لاکھ ڈالر مالیت کی گاڑیاں اور تجارتی سامان درآمد کیا ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جمعرات کو دیر گئے میڈیا کو دیے گئے ایک دعوت نامے میں کمپنی نے کہا ہے کہ ’15 جولائی کو ہونے والی تقریب باندر کرلا کمپلیکس میں ٹیسلا کے تجرباتی سینٹر کے افتتاح کے ذریعے انڈیا میں ٹیسلا کا آغاز ہے۔‘
فروخت اور منافع میں کمی کے مسائل سے دوچار ٹیسلا نے انڈیا میں درآمد شدہ کاریں فروخت کرنے کی کوشش کی ہے جس پر اسے تقریباً 70 فیصد درآمدی ڈیوٹی اور دیگر محصولات ادا کرنا ہوں گے۔
جنوری سے جون تک تجارتی طور پر دستیاب کسٹم ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیسلا نے انڈیا میں بنیادی طور پر چین اور امریکہ سے تقریباً 10 لاکھ ڈالر کی گاڑیاں، چارجرز اور پُرزے درآمد کیے۔ ان میں ٹیسلا کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے وائی ماڈل کی چھ گاڑیاں شامل ہیں۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کئی برسوں سے ٹیسلا کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ گذشتہ سال انڈیا نے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے ایک پروگرام بھی شروع کیا تھا۔اس پالیسی کے تحت ان عالمی کار سازوں کے لیے ای کاروں پر درآمدی ڈیوٹی میں کمی کردی گئی، جنہوں نے 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے اور تین سال کے اندر مقامی پیداوار شروع کرنے کا عہد کیا تھا۔اس حکومتی اقدام کو ٹیسلا کو مقامی پلانٹ لگانے کی ترغیب دینے کے طور پر دیکھا گیا۔گذشتہ برس ایلون مسک نے انڈیا کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ مقامی ای وی مینوفیکچرنگ سمیت 20 لاکھ ڈالر سے 30 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کریں گے تاہم عین وقت پر یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ ٹیسلا نے کہا تھا کہ وہ اس وقت انڈیا میں مینوفیکچرنگ میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’اگر ٹیسلا انڈیا میں اپنی فیکٹری قائم کرتی ہے تاکہ وہاں کے محصولات سے بچا جا سکے، تو یہ امریکہ کے ساتھ زیادتی ہوگی۔‘