’آئی این ایس ارنالہ‘ انڈیا کا نیا، جدید ترین اور مقامی طور پر تیارہ کردہ جنگی جہاز ہے۔ آبدوزوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا یہ جنگی جہاز انڈین بحریہ کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بی بی سی ہندی کو اس جہاز تک خصوصی رسائی دی گئی ہے تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہمیں اس جنگی بحری جہاز کے کچھ حصوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بی بی سی کی ٹیم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ مقامی ساختہ جنگی جہاز میری ٹائم سکیورٹی کے حوالے سے کیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ انڈیا کی بین الاقوامی تجارت کا تقریباً 95 فیصد حصہ سمندری راستوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انڈیا کی معیشت کس حد تک سمندری راستوں پر منحصر ہے۔
ان راستوں میں بحیرہ عرب، خلیج بنگال اور بحر ہند کے سمندری علاقے شامل ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان سمندری علاقوں کے ذریعے ہونے والی تجارت پر کنٹرول کے لیے عالمی طاقتوں میں مقابلہ بھی تیز تر ہو رہا ہے۔
اور اگر سکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انڈیا کی ساحلی پٹی 11 ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ اس پورے علاقے میں 200 سے زیادہ بندرگاہیں اور بہت سے ساحلی شہر واقع ہیں۔
نیز بحر ہند کے علاقے میں چین اور پاکستان جیسے ممالک کے بڑھتے ہوئے بحری اثر و رسوخ نے بھی انڈیا کے لیے بحری حکمت عملی کو مزید اہم بنا دیا ہے۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈیا ناصرف اپنی آبدوزوں کی تعداد بلکہ بحریہ کی صلاحیت میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ اسی سٹریٹجک ضرورت کے تحت انڈین بحریہ نے حال ہی میں ریاست آندھرا پردیش میں منعقدہ ایک تقریب میں ’آئی این ایس ارنالہ‘ کو اپنے بحری بیڑے میں شامل کیا ہے۔
آئی این ایس ارنالہ کی خصوصیات کیا ہیں؟BBCبی بی سی کی ٹیم کو حال ہی میں اس جنگی جہاز تک رسائی فراہم کی گئی ہے
انڈین نیوی کے مطابق ’آئی این ایس ارنالہ‘ انڈیا کا سب سے جدید اینٹی سب میرین جنگی جہاز ہے جو کہ کئی لحاظ سے خاص ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ سمندر میں کم گہرائی والے علاقوں یعنی ساحل کے قریب بھی دشمن کی آبدوزوں کو تلاش کر کے انھیں نشانہ بنا سکتا ہے۔
انڈین بحریہ کو آئی این ایس ارنالہ جیسے جنگی جہاز کی کتنی ضرورت ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں مزید 15 ارنالہ جنگی جہاز انڈین بحریہ کا حصہ بنائے جائیں گے۔
وزارت دفاع کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق 16 جہازوں کے اس منصوبے کی کل لاگت 12 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔
یہ جنگی جہاز مقامی طور پر ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے تحت کولکتہ میں ’گارڈن ریچ شپ بلڈرز اینڈ انجینئرز لمیٹڈ‘ اور کوچی میں کوچین شپ یارڈ میں بنائے جا رہے ہیں۔
وہ ایک معمول کا دن تھا جب بی بی سی کی ٹیم آئی این ایس ارنالہ پر پہنچی۔ جہاز پر نیوی کے افسران اور اہلکار تعینات تھے جبکہ مختلف اشیا اس جنگی جہاز پر لائی جا رہی تھیں۔ اس ہلچل اور شور کے درمیان ہم آئی این ایس ارنالہ کے اندر چلے گئے۔
جنگی جہاز میں مختلف قسم کے سینسرز، ہتھیار، انجن اور مواصلات کے ذرائع وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کے اندر گھومنے پھرنے کے لیے کچھ زیادہ جگہ نہیں ہوتی۔ آئی این ایس ارنالہ میں بھی یہی کچھ تھا۔
ارنالہ ایک چھ منزلہ جہاز ہے جس میں نیوی افسران سیڑھیوں کی مدد سے اوپر نیچے آتے جاتے دکھائی دیے۔
دشمن کی آبدوزوں کا پتہ لگانے کے لیے یہ جنگی جہاز 'ایس این آر سسٹم' سے لیس ہے۔ 'ایس این آر'ساؤنڈ، نیویگیشن اور رینج کا مخفف ہے۔ یہ ایک خاص تکنیک ہے۔ اس کے ذریعے آواز کی لہروں کی مدد سے پانی کے اندر موجود آبدوزوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ دشمن کی آبدوز پر یہ معلوم کرنے کے بعد ہی حملہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کہاں موجود ہے۔
BBCآئی این ایس ارنالہ پر نصب دیسی ساختہ لانچر
اس آبدوز شکن جنگی جہاز کی مہلک صلاحیتوں کو سمجھنے کے لیے، ہم نے جہاز پر تعینات کمانڈر انکیت گروور سے بات کی، جو آئی این ایس ارنالہ کے کیپٹن یا کمانڈنگ آفیسر ہیں۔
انھوں نے کہا ’اس جہاز پر کئی قسم کے اینٹی سب میرین ہتھیار نصب ہیں، جن میں مقامی ساختہ دیسی لانچرز بھی شامل ہیں۔ یہ لانچر راکٹوں کی مدد سے آبدوز پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
’اب تین محاذوں سے خطرہ ہے‘: چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کا ابھرتا ہوا اتحاد اور جنرل انیل چوہان کی تشویشپاکستان کو چین سے انڈیا کی لائیو معلومات مل رہی تھیں، ہمیں وقت پر اہم سامان نہیں ملا: انڈین نائب آرمی چیف کا دعویٰ1971 میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے دو جاسوس کراچی بندرگاہ تک کیسے پہنچےپاکستانی اور انڈین نیوی کا تقابلی جائزہ: پاکستانی بحریہ کی ’بڑھتی صلاحیتوں‘ پر انڈین نیول چیف کو تشویش کیوں ہے؟
’اس جہاز میں ٹارپیڈو ٹیوبز ہیں جن سے آبدوز پر ٹارپیڈو فائر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس 'اینٹی ٹارپیڈو ڈیکوئی سسٹم' بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دشمن کی کوئی آبدوز اس جنگی جہاز پر ٹارپیڈو فائر کرتی ہے تو یہ نظام اس سے بچنے میں ہماری مدد کرے گا۔‘
یہ جنگی جہاز 77 میٹر لمبا ہے جو کہ تقریباً 26 منزلہ عمارت کی اونچائی کے برابر ہے۔
انڈین بحریہ کے مطابق اس جہاز پر 30 ایم ایم سرفیس گن نصب ہے جو کہ پانی کی سطح اور فضا سے ہونے والے حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
BBCاس جہاز پر 30 ایم ایم سرفیس گن نصب ہے
اس جہاز میں سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ سمندری میں سرنگیں بچھا کر انھیں دشمن کی آبدوزوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آئی این ایس ارنالہ کی ایک اور خاصیت اس کا انجن ہے۔ انڈین بحریہ کے مطابق یہ ڈیزل انجن واٹر جیٹ ٹیکنالوجی سے چلنے والا بڑا انجن ہے۔
بی بی سی کی ٹیم نے اس جنگی جہاز کے انجن روم کا قریب سے جائزہ لیا۔ یہاں ہم ملائم سنگھ سے ملے، جو ارنالہ کے انجن روم میں تعینات ہیں۔
اُن کے مطابق ’اس انجن کے تین فائدے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس نوعیت کا بڑا انجن جنگی جہاز کو تیز رفتاری فراہم کرتا ہے۔ یہ انجن جنگی جہاز کی سمت آسانی سے تبدیل کرنے میں بھی مدد کرتا ہے اور تیسرا یہ کہ یہ شور کم کرتا ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ اگر قریب ہی دشمن کی کوئی آبدوز موجود ہو تو وہ اپنے خاموش انجن کی وجہ سے آئی این ایس ارنالہ کا آسانی سے پتہ نہیں لگا سکے گی۔ اس کے برعکس یہ جنگی جہاز دشمن کی آبدوز پر پہلے حملہ کر سکتا ہے۔‘
اس جنگی جہاز پر 100 سے زائد نیوی کے افسران اور سپاہی تعینات ہیں۔
بی بی سی نے یہ بھی دیکھا کہ اس جنگی جہاز پر ان اہلکاروں کی رہائش، کھانے اور تفریح کے لیے کیا سہولیات موجود ہیں۔
کموڈور رجنیش شرما انڈین بحریہ کے ایک سینیئر افسر ہیں۔ وہ بحریہ کے آندھرا پردیش سیکشن کے انچارج ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مستقبل میں ان 16 ارنالہ جہازوں میں سے آٹھ کو مغربی ساحل پر اور آٹھ کو مشرقی ساحل پر تعینات کیا جائے گا۔‘
’درحقیقت، یہ جہاز ہمیں پانی کے اندر بہتر نگرانی کرنے اور دشمن کی آبدوزوں کا پتہ لگانے کی زبردست صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جو ہمارے پاس پہلے موجود نہیں تھی۔‘
’ارنالہ‘ نام کے پیچھے کیا کہانی ہے؟
اس نام کی کہانی کے لیے ہمیں انڈیا کے معاشی دارالحکومت ممبئی کے ’وسائی‘ نامی علاقے تک جانا ہو گا۔ وسائی کے قریب ساحل پر ایک قلعہ واقع ہے جس کا نام ’ارنالہ‘ ہے۔
انڈین بحریہ کے مطابق یہ قلعہ مراٹھا سلطنت کے دور میں سنہ 1737 میں دشمن کے حملوں کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ درحقیقت انڈین بحریہ کے پاس ماضی میں بھی ’ارنالہ‘ نامی جنگی جہاز موجود تھا لیکن کئی سال پہلے اس جہاز کو سروس سے باہر کر دیا گیا تھا یعنی ڈی کمیشن کر دیا گیا تھا۔
چین اور پاکستان کی بحری صلاحیت کتنی ہے؟
گذشتہ سال امریکی وزارت دفاع نے ایک رپورٹ میں چینی بحریہ کو دنیا کی سب سے بڑی بحریہ قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق چین کے پاس 370 سے زیادہ جنگی جہاز اور آبدوزیں ہیں۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی بحریہ کی طاقت بڑھانے میں بھی ماضی قریب میں چین کا بڑا کردار رہا ہے۔
سنہ 2015 میں پاکستان نے چین سے آٹھ آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جن کی کُل لاگت تین ارب ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
دسمبر 2024 میں انڈین بحریہ کے سربراہ ایڈمرل دنیش ترپاٹھی نے بھی پاکستان نیوی کی بڑھتی صلاحیتوں پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔
انڈیا میں دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں آئی این ایس ارنالہ جیسے جنگی جہاز انڈیا کے لیے بہت اہم کردار ادا کریں گے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بی بی سی نے کیپٹن (ریٹائرڈ) سربجیت ایس پرمار سے بات کی ہے جو انڈین بحریہ میں سابق پائلٹ اور آبدوز شکن حکمت عملی کے ماہر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’1971 کی جنگ میں پاکستان کی غازی آبدوز وشاکھاپٹنم کی بندرگاہ کے بالکل باہر پائی گئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے تنازعات میں بھی بندرگاہوں اور بحری جہازوں کو دشمن کی آبدوزوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق آبدوزوں کے خلاف جنگ سب سے پیچیدہ جنگوں میں سے ایک ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کے ساحل کے قریب دشمن کی آبدوز کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ بحری بیڑے کو آگے بڑھنے سے پہلے اس خطرے سے نمٹنا پڑے گا۔ اس سے بحری بیڑے کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ اس سے بحری بیڑے کے لیے دشمن پر حملہ کرنے کے لیے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ بندرگاہوں اور کارگو جہازوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہو گی۔‘
کیپٹن (ریٹائرڈ) سربجیت کہتے ہیں ’لیکن جب آپ کے پاس ایک جدید اینٹی سب میرین جنگی جہاز ہے، جیسا کہ ارنالہ۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دشمن سے ایسے مسائل کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔‘
بقول اُن کے ’اس سے بحری بیڑے، خاص طور پر بڑے بحری جہاز اپنے مشنز پر کسی رکاوٹ کے بغیر روانہ ہو سکیں گے۔ ارنالہ کی موجودگی سے بندرگاہیں بھی فعال رہیں گی۔ انڈین بحریہ نے ایسے 16 جہازوں کا آرڈر دیا ہے اور یہ بحریہ کی جانب سے ایک ہی وقت میں دیے گئے سب سے بڑے آرڈرز میں سے ایک ہے۔ بحریہ کو ایسے جہازوں کی تیاری جاری رکھنی چاہیے اور سمندروں میں اِن کی موجودگی کو ہر وقت یقینی بنایا جانا چاہیے۔‘
پاکستانی اور انڈین نیوی کا تقابلی جائزہ: پاکستانی بحریہ کی ’بڑھتی صلاحیتوں‘ پر انڈین نیول چیف کو تشویش کیوں ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک’اب تین محاذوں سے خطرہ ہے‘: چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کا ابھرتا ہوا اتحاد اور جنرل انیل چوہان کی تشویش1971 میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے دو جاسوس کراچی بندرگاہ تک کیسے پہنچےپاکستان کو چین سے انڈیا کی لائیو معلومات مل رہی تھیں، ہمیں وقت پر اہم سامان نہیں ملا: انڈین نائب آرمی چیف کا دعویٰ