اتوار یعنی چھٹی کا دن تھا، اٹھے تو دو چار صحافی دوستوں کا فون تھا۔ یاد دہانی کروا رہے تھے کہ آج گنڈاپور سرکار لاہور کی یاترہ پر ہیں۔ ملاقات کی جائے، سوال و جواب کی نشست رکھی جائے، پوچھا جائے کہ اب موصوف کس مشن پر ہیں۔
ہفتے بھر کے بعد نصیب ہونے والا چند گھنٹوں کا آرام قربان کیا۔ جی ٹی روڈ سے لاہور پدھارے گنڈاپور سرکار کے درشن کرنے چل نکلے۔ ایک روز پہلے پارٹی کے کچھ نیم ذمہ داران کے توسط سے علم ہوا کہ گنڈاپور صبح گیارہ بجے پریس کانفرنس کریں گے۔
یہاں لاہور میں جوہر ٹاؤن اور شوکت خانم ہسپتال کے قرب و جوار میں ابدالین نامی ایک گیٹڈ سوسائٹی ہے۔ دو چار گلیاں گھومنے کے بعد ٹی وی چینلز کی گاڑیاں نظر آئیں، وہیں ایک بڑے سے گھر کے لان میں انتظام تھا۔
مون سون کا موسم ہے، رات گئے بارش ہوئی تو صبح شدید حبس تھا۔ چار پانچ بڑی بڑی سرخ پوشش اور گولڈن پائیوں والی شاہانہ کرسیاں گنڈاپور سرکار اور ہمنواؤں کی راہ تک رہی تھیں۔
ان کرسیوں کے اطراف گھنٹے بھر سے صحافی کیمرے وغیرہ لگائے اکتائے ہوئے تھے، حبس زدہ موسم میں ان کی اکتاہٹ پسینے سے شرابور ہو رہی تھی۔ پنکھے تھے تو ضرور لیکن بندے زیادہ ہونے کی وجہ سے ناکافی ثابت ہو رہے تھے۔
یہ کس کا گھر تھا؟ میزبان کون ہے؟ مہمان کون کون ہیں؟ کسی کو ککھ علم نہ تھا۔
صحافیوں کے علاوہ چند غیر لاہوری مہمان کرسیوں کے پیچھے پوزیشن سنبھالے ضرور موجود تھے۔ اچانک وہ آئے، طوفانی سپیڈ سے کرسیوں کی جانب لپکے، زلفیں لہرا کر سیدھی کیں، ہاتھ پھیرا اور پھر سامنے پڑا مائیک اچک لیا۔ ان کے ہمراہ سلمان اکرم راجہ، ملک احمد بھچر اور لطیف کھوسہ بھی موجود تھے۔
پی ٹی آئی کی تازہ تحریک کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اب وہ مقتدرہ کو 90 دن کی ڈیڈ لائن دے رہے ہیں، اس بیچ اگر خان کو رہا نہ کیا گیا تو پھر وہ سوچیں گے کہ انہوں نے مزید سیاست کرنی ہے یا نہیں۔
حضرت مولانا کو للکارا، الیکشن لڑنے کا چیلنج دیا۔ مقتدرہ پر کھل کر برسے، فارم س47 سرکار کے لتے لیے۔ پارٹی اور خان کے لیے اپنی قربانیوں اور خدمات کی تفصیل ڈسکس کی۔ ناقدین بالخصوص یوٹیوبرز پر آگ برسائی۔ پارٹی میں تقسیم کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ کہا 26 نومبر کے احتجاج میں وہ وہاں باقی رہ جانے والے آخری شخص تھے۔
اس پر ہمارے صحافی دوست انس گوندل کے ساتھ ان کی تکرار دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ موصوف نے جیسے ہی یہ دعویٰ کیا تو پاس بیٹھے ایک اور صحافی ہمارے کان میں گویا ہوئے، فرمانے لگے کہ ’ہم بھی وہیں موجود تھے۔‘
بہرحال پریس کانفرنس میں سوال و جواب کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ یہاں بیٹھے تمام صحافی (اکثریت وہ جو تحریک انصاف کی بیٹ کور کرتے ہیں) سوالات سے لدے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی باری کا بے صبری سے انتظار ہے۔
علی امین گنڈاپور نے پریس کانفرنس کے علاوہ لاہور میں کوئی ملاقات نہ کی۔ فوٹو: اے ایف پی
وہ لاہور کس مشن پر آئے؟ ایک رات پہلے کس کے فارم ہاؤس پر قوالی اور سیاسی اکٹھ کا انعقاد ہوا؟ اگلے روز کی پریس کانفرنس کس کے ہاں ہو رہی ہے؟ یہ میزبان کون ہیں؟ کیا یہ سینیٹ کی ٹکٹ کے لیے گنڈاپور سرکار کی پسندیدہ ترین چوائس نہیں ہیں؟ کارکنان اور ورکرز کے دباؤ اور اعتراض کی پارٹی میں کیا حیثیت ہے؟ پنجاب کے دو روزہ دورے کے دوران پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائر عالیہ حمزہ کہاں ہیں؟ کیا انہیں آنے سے روکا گیا ہے؟ پنجاب کے 26 معطل ارکان کے ساتھ اظہار یکجہتی کا کیا بنا؟ ورکرز کے نام پر کسی کنونشن کا بھی پلان تھا وہ کہاں رہ گیا؟ پنجاب بھر کا ورکر سپورٹر نظر کیوں نہیں آ رہا؟ لاہور میں بیٹھ کر بھی وزیراعلیٰ کے پیچھے پشاور تھا، آخر کیوں؟
باری باری یہ تمام سوال کسی نہ کسی طرح بہرحال موصوف کے سامنے رکھے گئے۔ عالیہ حمزہ کا ذکر ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ یہ پنجاب کا معاملہ ہے اس پر سلمان اکرم راجہ بہتر بات کرسکتے ہیں۔
سینیٹ انتخابات، ٹکٹوں کا معاملہ، تحریک کی 90 روزہ مدت کا اعلان اور دیگر سیاسی و غیرسیاسی معاملات پر موصوف خوب گرجے برسے، بلند و بانگ دعوے کیے۔ لیکن کام کی دو چار باتوں کو اگنور کر گئے یا سلمان اکرم راجہ کی کورٹ میں گیند ڈال گئے۔
متعلقین اور منتظمین کی بہتیری کوشش کے باوجود وزیراعلٰی خیبر پختونخوا پریس کانفرنس کے علاوہ صحافیوں اور اہلیان لاہور سے ملاقات نہ کر سکے۔
علی امین گنڈاپور نے تحریک چلانے کے لیے 90 دن کی ڈیڈلائن دی۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی فیس بک
پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی ایک سینیئر صحافی نے تبصرہ کرتے ہوئے خاکسار سے پوچھا کہ ضیاالحق کے 90 دن کا وعدہ یاد ہے؟ نوے دن میں صاف شفاف انتخابات کروانے کا اعلان کیا اور یہ اعلان پھر پاکستان کو چھ سات برس بھگتنا پڑا۔ گنڈاپور کے نوے دن بھی اسی حساب سے گنو۔
پوچھا کہ پھر یہ سب کیا تھا؟ یہ بڑھکیں؟ یہ نعرے؟ یہ للکار؟ یہ لب و لہجہ؟ یہ رعب و دبدہ؟ یہ سب کیا تھا؟
وہ بولے؛ اسے گنڈا پوری نسخہ کہتے ہیں، جب سے یہ دریافت ہوا ان کی کرسی بھی محفوظ ہے اور نظام بھی۔ نظام ان کی کرسی کا ضامن ہے اور یہ نظام کے۔ اسے گنڈا پوری نسخہ کہتے ہیں۔
خواجہ آصف کا اس حوالے سے مکھن کے ٹرک والا بیان دوبارہ دیکھ لیجیے۔ قدیم حکما سفوف اور نسخہ جات کو خالص شہد یا مکھن کے ساتھ لینے کا ہی مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہ تو پھر گنڈا پوری نسخہ ہے۔