BBCروٹ اپنی بیٹی تامارا کے ساتھ جسے پیدائشی طور پر زکا سنڈروم ہے
جب روٹ فریرس کو ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی نوزائیدہ بیٹی تامارا زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گی تو وہ رونے لگیں۔
تامارا کا سر غیر معمولی طور پر چھوٹا تھا جو ان کی والدہ کے حاملہ ہونے کے دوران زکا وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے تھا۔
اب نو سال کی تامارا معدے سے منسلک ٹیوب کے ذریعے کھانا کھاتی ہیں۔ ان کے ہاتھ تیزی سے سخت ہونے کے ساتھ ساتھ سکڑ رہے ہیں اور انھیں اپنا سر تھامنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
روٹ کہتی ہیں کہ ’مجھے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ وہ نہ چلے گی، نہ بولے گی اور نہ ہی مسکرائے گی۔ پھر بھی میں ہر ڈاکٹر سے پوچھتی تھی، میری بچی چلنے لگی گی ہے ناں؟‘
روٹ کی بیٹی ان تقریباً دو ہزار بچوں میں سے ایک ہیں جو برازیل میں 2015اور 2016کے درمیان مچھروں سے پیدا ہونے والے وائرس کا شکار ہونے والی خواتین کے ہاں پیدا ہوئے۔
اس وقت ملک اولمپکس کی میزبانی کی تیاری کر رہا تھا اور اس وائرس نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ وائرس برازیل کے ساتھ ساتھ درجنوں دیگر ممالک میں بھی پھیل گیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت اور برازیل کے حکام کی جانب سے صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا تھا جس کا انتباہ مئی 2017تک برقرار رہا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ وبا خود بخود کیوں ختم ہو گئی اور گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس میں دوبارہ اضافہ کیوں نہیں ہوا۔
زکا عوام کی نظروں سے غائب ہو گیا اور اس کے دیرپا نتائج سے نمٹنے والے خاندانوں کو بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پیدائشی زکا سنڈروم جو حمل کے دوران انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے پیدائشی نقائص کا سلسلہ ہے، میں مبتلا261 بچوں کی موت ہو چکی جبکہ سینکڑوں کی صحت خراب ہوئی۔
تامارا ان ہی میں سے ایک ہیں۔ وہ شمال مشرقی برازیل کے ساحلی شہر میسیو میں رہتی ہیں، جہاں ملک میں پیدائشی زکا وائرس سنڈروم کے 75فیصد کیسز درج کیے گئے تھے۔
سائنس دانوں کے پاس ابھی تک اس بات کی حتمی وضاحت نہیں کہ یہ خطہ سب سے زیادہ متاثر کیوں ہوا۔
پیدائشی زکا سنڈروم میں دل کے مسائل، جوڑوں کے مسائل اور چبانے اور نگلنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ زیادہ تر معاملات میں بچے روایتی پیش رفت جیسے رینگنے، کھانے، چلنے، بولنے یا پیشاب کرنے کی تربیت سے نہیں گزرتے۔
اپنی بیٹی کی پرورش کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے روٹ نے دیگر متاثرہ ماؤں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ان کی آپس میں پہلی ملاقات سنہ 2016 میں صحت کے مقامی حکام کی طرف سے بنائے گئے ایک امدادی گروپ میں ہوئی تھی۔
لیکن ایک سال بعد ان خواتین نے محسوس کیا کہ انھیں مقامی حکام کی طرف سے کافی مدد نہیں مل رہی۔ لہٰذا انھوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مزید مدد مانگنے کے لیے پیلے رنگ کی شرٹس کے ساتھ ایک آزاد گروپ تشکیل دیا۔
ویکسین کی غیر موجودگی میں ایچ ایم پی وی وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن اور یہ کورونا وائرس سے کتنا مختلف ہے؟پاکستان میں ایم پوکس کے نئے مریض کی تصدیق: یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟جی بی ایس: پانی اور مرغی کے گوشت سے پھیلنے والا وائرس جو انسان کو مفلوج کر دیتا ہےکانگو سے متاثرہ نوجوان ڈاکٹر کی موت: یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے اور اس سے کیسے بچا جائے؟ قدم بہ قدم ساتھ
بہت سی ماؤں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ کم از کم اجرت یعنی 265ڈالر ماہانہ کی سرکاری امداد کے ساتھ رہ رہی تھیں۔
انھوں نے سرجری، ویل چیئرز، ادویات اور بچوں کے فارمولہ دودھ کے لیے ہیلتھ کیئر سسٹم کے خلاف قانونی لڑائیاں لڑیں۔
ان میں سے کئی کو ان کے شوہروں نے چھوڑ دیا تھا، جن میں سے کچھ نے دوسری شادی کر لی اور نئے خاندان تشکیل دیے۔
ایسوسی ایشن کی بانی الیسینڈرا ہورا کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں مرد شاذ و نادر ہی آتے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے بہت سی خواتین سے سنا کہ ان کے شوہروں کو لگتا ہے کہ وہ بیوی کے کردار پر ماں بننے کو ترجیح دے رہی ہیں۔‘
خواتین نے اپنی زندگیوں کو منظم کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنا شروع کیے۔
پبلک ہاؤسنگ اتھارٹیز کو درخواست دینے کے بعد تقریباً 15 خواتین اس کمپلیکس میں منتقل ہونے میں کامیاب ہو گئیں جہاں وہ اب پانچ سال سے رہ رہی ہیں۔
الیسینڈرا کہتی ہیں کہ ’ہمارا مقصد یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب رہیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔‘
انھوں نے اپنے پوتے ایرک کی دیکھ بھال شروع کی، جو پیدائشی زکا سنڈروم کا شکار ہے۔ ان کے اپنے بیٹے کو ان کے پڑوس میں قتل کردیا گیا تھا۔
روٹ اپنی طلاق کے بعد زکا ماؤں کے ہاؤسنگ بلاک میں منتقل ہو گئیں۔
وہ اپنے پڑوسیوں این کیرولین ڈی سلوا روزا اور لینس فرانسا کے قریب ہو گئیں، جن کے بچے موزز اور اینزو بھی پیدائشی زکا سنڈروم میں مبتلا ہیں۔
تامارا کی طرح موزز بھی ٹیوب کے ذریعے کھاتے ہیں۔ وہ اب کھڑے نہیں رہ سکتے لیکن جب ان کی چھوٹی بہن ماریہ انھیں گلے لگاتی اور بوسہ دیتی ہیں تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے اس کا جواب دیتے ہیں۔
کئی سال تک کبھی ہسپتال اور کبھی گھر رہنے کے بعد موزز اب چلنے اور بولنے کے قابل ہیں۔
ایک دوسرے کے اتنے قریب رہنے کا مطلب ہے کہ مائیں اپنے بچوں کی پیچیدہ صحت کے حالات سے نمٹنے کے بارے میں تجاویز ایک دوسرے سے شیئر کرنے میں کامیاب رہی ہیں لیکن اس کے کچھ دوسرے فوائد بھی ہیں۔
روٹ نے رات کی کلاسیں لینا شروع کیں تو این کیرولین اور لینس نے تامارا کی دیکھ بھال کرنے کی پیشکش کی، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کر سکتی ہیں اور ہائی سکول کی ڈگری حاصل کر سکتی ہیں۔
جیسا کہ ڈاکٹروں نے پیشگوئی کی تھی، تامارا نہ تو چل سکتی ہیں اور نہ ہی بول سکتی ہیں۔ کچھ سال پہلے وہ کسی چیز پر بھی اپنی نظریں نہیں جما سکتی تھیں لیکن جسمانی تھراپی کی بدولت اب وہ خود کو آئینے میں پہچان سکتی ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتی ہیں ان کی آنکھیں اپنی ماں کا پیچھا کرتی ہیں۔
زیادہ معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی
بہتر مالی امداد کے لیے ماؤں کی ایک دہائی سے جاری لڑائی بھی رنگ لے آئی۔ دسمبر میں برازیل کی کانگریس نے 2015میں پیش کیے گئے ایک بل کی منظوری دی تھی جس کے تحت زکا سے متاثرہ خاندانوں کو 8800ڈالر معاوضہ اور 1325 ڈالر ماہانہ ادائیگی کی جائے گی جو موجودہ الاؤنس سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
تاہم صدر لوئیز اناسیو ڈی سلوا نے بل کو ویٹو کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مالی مضمرات واضح نہیں۔ اس کے بجائے ان کی انتظامیہ نے 10,500 ڈالر کی واحد ادائیگی کی تجویز پیش کی تھی۔
زکا کے کچھ ابتدائی کیسز کی تشخیص کرنے والی ڈاکٹر مارڈجین لیموس جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رقم کافی نہیں۔
انھوں نے دلیل دی کہ ریاستی حکام کئی سطحوں پر خاندانوں کو مایوس کر چکے ہیں، وائرس پر قابو پانے میں ناکام رہے اور متاثرہ بچوں کو برسوں سے کم معاوضہ دے رہے ہیں۔
الگواس ریاست کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں علاقے میں وائرس کی صورتحال میں بہتری آئی جس کی وجہ شہریوں کو ٹھہرے ہوئے پانی کو صاف کرنے اور صحت کی نگرانی کرنے والے اہلکاروں کو تربیت دینے کی کوششیں ہیں۔
انھوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ریاست نے زکا سنڈروم سے متاثرہ خاندانوں کی کس طرح مدد کی۔
لیکن اس کی اصل فاتح مائیں ہی بنیں۔
اس بل پر صدر کے ویٹو کو منسوخ کر دیا گیا تھا اور انھیں بتایا گیا تھا کہ انھیں 2015 کے بل میں منظور شدہ معاوضہ مکمل ملے گا۔
زکا کے کیسز میں پراسرار کمی
لیموس کا کہنا ہے کہ اگرچہ زکا وائرس کے کیسز کی تعداد اور اس سنڈروم میں مبتلا بچوں کی پیدائش میں تیزی سے کمی آئی لیکن وبا کے ایک بار پھر پھیلنے کا امکان موجود ہے کیونکہ اس کمی کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں۔
’ایسا لگتا ہے کہ نئے کیسز سامنے آنا خود بخود رک گئے ہیں۔ اس سے یہ نظریہ سامنے آتا ہے کہ کچھ قدرتی قوت مدافعت موجود ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ یہ کتنی دیر تک رہتا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔‘
وبا پھیلنے کے ایک عشرے بعد بھی تحقیق کی کمی نے بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
مثال کے طور اس وبا نے پر شمال مشرقی برازیل کو اتنی بری طرح کیوں متاثر کیا، خاص طور پر وہاں کی غریب خواتین کو؟
ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا تعلق زچگی کی غذائیت سے ہو سکتا ہے۔ ایک اور تجویز ہے کہ بیکٹیریا سے آلودہ پانی نے اعصاب کو نقصان پہنچانے والا زہر پیدا کیا جس سے بچوں کے دماغ پر وائرس کے اثرات بدتر ہو سکتے ہیں۔
ان دونوں منصوبوں کی سربراہی کرنے والی پیٹریسیا گارسیز اور نیورو سائنٹسٹ سٹیونز ریہن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس کا جواب ان اور دیگر عوامل کا امتزاج ہو سکتا ہے۔
کنگز کالج لندن میں پڑھانے والی ڈاکٹر گارسیز کہتی ہیں کہ ’ہم اب ان ماحولیاتی عوامل کے بارے میں قدرے زیادہ جانتے ہیں جو زیادہ پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں لیکن ہم مکمل طور پر یہ نہیں سمجھ سکے کہ انھوں نے کس طرح کردار ادا کیا۔‘
ڈاکٹر لیموس کہتی ہیں کہ تحقیق کی اس کمی کا تعلق اس حقیقت سے ہو سکتا ہے کہ متاثرہ افراد بنیادی طور پر غریب ہیں۔
غیر یقینی صورتحال کے باوجود معاوضے کی لڑائی جیتنے سے روٹ کو مستقبل کے لیے امید کا نیا احساس ملا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے بہت خوشی ہوئی، میں چیخنا چاہتی تھی۔‘
اب وہ تعلیم حاصل کر کے ایک اچھی تنخواہ والی نوکری حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
وہ تامارا کے لیے پرائیویٹ ہیلتھ انشورنس چاہتی ہیں اور ایک دن گاڑی خریدنے کا خواب دیکھتی ہیں تاکہ انھیں طبی معائنے کے لیے لے جایا جا سکے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ مائیں سوچتی تھیں کہ یہ دن نہیں آئے گا لیکن میں نے امید نہیں چھوڑی۔‘
زکا وائرس کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے ؟
برازیل کی شمالی ریاست باہیا میں سنہ 2015 میں طبی کارکنوں کو کچھ ایسے مریض ملے جن کے جسم پر سرخ نشانات تھے۔ پہلے یہ خدشہ ہوا کہ یہ ڈینگی کی کوئی نئی قسم ہے لیکن بعد میں تحقیق کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ افریقہ کا ایک غیر معروف وائرس زِکا ہے۔
ایک سال کے بعد یہ بیماری کئی دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی۔
زِکا نامی یہ وائرس ايڈيز جیپٹی مچھر (ايک مَچھَر جِس سے زرد بُخار ہو جاتا ہے) کے کاٹنے سے جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ اس مچھر کی وجہ سے ڈینگی بخار اور چکنگنیا (گرم ملکوں میں مچھر کے ذریعے پھیلنے والی ایک بیماری ) نامی بیماری بھی پھیلتی ہے۔
اس مرض کی تشخیص پہلی بار یوگینڈا میں سنہ 1947 میں ہوئی تھی لیکن اس کی علامتیں معمولی تھیں جیسے کہ جوڑوں کا درد جلد پر کھجلی یا بخار لیکن سنہ 2015 میں برازیل میں اس وائرس کے موجودہ پھیلاؤ کی علامتیں بہت شدید تھیں۔
اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک برازیل میں اس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے سر والے بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔ برازیل نے زکا وائرس کا پہلا کیس 2015 میں رپورٹ کیا تھا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق عام طور پر زکا وائرس مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے مگر بہت سے ممالک میں یہ وائرس جنسی تعلقات کے ذریعے بھی پھیلا۔
زِکا وائرس سے نمٹنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ جہاں مچھروں کی افزائش ہوتی ہو، اُس ٹھہرے ہوئے پانی کو ہٹایا جائے۔
انڈیا میں درجنوں بچوں کی ہلاکت کی وجہ بننے والا ’پراسرار بخار‘کیا بچے وائرس منتقل کر سکتے ہیں؟ سائنسدان ابھی تک کھوج میںپاکستان میں ایم پوکس کے نئے مریض کی تصدیق: یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ویکسین کی غیر موجودگی میں ایچ ایم پی وی وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن اور یہ کورونا وائرس سے کتنا مختلف ہے؟جی بی ایس: پانی اور مرغی کے گوشت سے پھیلنے والا وائرس جو انسان کو مفلوج کر دیتا ہےکانگو سے متاثرہ نوجوان ڈاکٹر کی موت: یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے اور اس سے کیسے بچا جائے؟