یو ایس ورجن آئی لینڈز کے جزیرے سینٹ جان کے ایک شراب خانے میں ایک اچھا دن گزارنے کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سمندر کے کنارے پانی کے اوپر بنے لکڑی کے گھاٹ پر چل رہے تھے۔
انھیں سورج ڈھل جانے کے بعد ایک چھوٹی کشتی پر سوار ہوتے اور سمندر میں کُچھفاصلے پر کھڑی اپنی لگژری یاٹ (کشتی) کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
یہ سی سی ٹی وی فوٹیج جو اس سے پہلے کبھی منظرِ عام پر نہیں آئی اور اب بی بی سی کو ملی ہے، برطانوی خاتون سارم ہیسلوپ کی سنہ 2021 میں ریکارڈ کی گئی آخری جھلک دکھاتی ہے۔
تقریباً چھ گھنٹے بعد ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاعدی گئی اور خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ سمندر میں کہیں کھو گئی ہیں۔
ان کے بوائے فرینڈ رائن بین کا مؤقف ہے کہ غالباً وہ یا تو پانی میں گر گئیں یا تیراکی کے دوران ڈوب گئیں اور یہ تب ہوا کہ جب وہ سو رہے تھے۔ پولیس نے کبھی اُنھیں باقاعدہ طور پر پوچھ گچھ یا تفتیش کے لیے طلب ہی نہیں کیا۔
بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کے باوجود سارم کی لاش کبھی نہیں مل سکی اور ان کی گمشدگی آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
سچ جاننے کی کوشش میں، میں نے ایک ماہ یو ایس ورجن آئی لینڈز میں اس کیس کی تفتیش میں گزارا، جہاں میں نے ان پولیس اہلکاروں، کوسٹ گارڈز اور ممکنہ گواہوں سے بات کی جنھوں نے یہ تحقیقات کی تھیں۔
ساؤتھیمپٹن سے تعلق رکھنے والی سارم کے دوستوں کے مطابق اُنھیں دنیا گھومنے کا شوق تھا اور سنہ 2019 میں اُنھوں نے برطانیہ چھوڑا تاکہ وہ ایک چھوٹی کشتی پر اٹلانٹک عبور کر سکیں۔
ان کی ایک دوستزان نے بتایا 'وہ ہمیشہ کسی نئے چیلنج کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سارم کے لیے بالکل عام سی بات تھی کہ وہ کچھ پاگل پن جیسا کام کر رہی ہو۔'
دوست کیٹ اور کیٹ کے بوائے فرینڈ کے ساتھ سارم کیریبین کی طرف روانہ ہوئیں اور سینٹ لوشیا، گواڈیلوپ، ڈومینیکا اور مارٹینیک کا سفر کیا۔
سات ماہ بعد سارم کی ملاقات 49 سالہ امریکی شپ کیپٹن رائن بین سے ہوئی جو اپنی پانچ لاکھ پاؤنڈ مالیت کی لگژری کشتی کو امیر سیاحوں کو کرائے پر دیتے تھے۔
اس دوران دونوں کی قربتیں بڑھیں اور تین ماہ بعد تعلق مزید گہرا ہو گیا اور سارم نے بوائے فرینڈ کی لگژری کشتی پر ہی بطور شیف کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ 7 مارچ 2021 کو 41 سالہ سارم نے بطور شیف اپنا کام مکمل کیا اور اُسی رات وہ اپنا پاسپورٹ، فون اور پیسے چھوڑ کر لاپتا ہو گئیں۔
اگرچہ سارم کے دوست اور خاندان کے افراد اُن کی تلاش کے عمل کو زندہ رکھنے میں کوشاں ہیں۔ لیکن ان کی والدہ برینڈا کہتی ہیں کہ وہ یہ حقیقت تسلیم کر چکی ہیں کہ ان کی بیٹی اب زندہ نہیں۔
لیکن یہ امید کہ ایک دن سچ سامنے آئے گا، انھیں آگے بڑھنے کی ہمت دیتی ہے۔
برینڈا کہتی ہیں کہ 'ہم اب تک صحیح طریقے سے اُس کے چلے جانے کا غم نہیں منا سکے۔ ہم سب اس بات کے حق دار ہیں کہ جان سکیں کہ سارم کے ساتھ کیا ہوا اور اسے گھر لا سکیں۔ یہ بہت ناانصافی ہے۔'
میرے لیے ایک اہم شہادت وہ سی سی ٹی وی فوٹیج تھی جس میں سارم کی آخری ریکارڈ شدہ جھلک تھی جو پولیس نے کبھی عام نہیں کی تھی۔
لہٰذا جب جزائر کے چیف آف پولیس سٹیون فلپ نے یہ مجھے تھمائی تو میں حیران رہ گیا۔
نام، مذہب اور حلیہ تبدیل: گھریلو ناچاقی کے بعد لاپتہ ہونے والی خاتون، جنھیں پانچ سال بعد ڈھونڈ لیا گیاساس، سسر سمیت چار افراد کو زہر دینے والی ایرن پیٹرسن کو عمر قید: جب ڈاکٹر نے چند منٹ میں ہی اس ’سنگدل قاتلہ‘ کو پہچان لیا ’تم مشہور ہو جاؤ گے‘: بِکنی کِلر چارلس سوبھراج کی گرفتاری کی کہانی انھیں گرفتار کرنے والے افسر کی زبانی’اُس نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور میری ٹائٹس تک پہنچ گیا:‘ خواتین وکلا کے ساتھ جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعات
سٹیون فلپ نے اعتراف کیا کہ 'ہم ایک بند گلی میں پھنس گئے ہیں جہاں آگے کا کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا۔ اگر کوئی اس ویڈیو کو دیکھ کر کچھ نوٹ کرے اور کچھ کہے تو ہمیں سارم کا سراغ لگانے میں کُچھ مدد مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم یہ دکھا رہے ہیں۔'
سارم کی والدہ پہلے اس فوٹیج کے ایک چھوٹے حصے کو دیکھ چکی تھیں، مگر ان کے دوستوں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ امید کرتے تھے کہ اس رات سارم اور اُن کے بوائے فرینڈ کے درمیان جو ہوا، اس ویڈیو کو دیکھ کر کچھ سراغ ملے گا۔
لیکن جب میں نے کچن کی میز کے گرد بیٹھے ان دوستوں کو فوٹیج دکھائی تو انھوں نے مانا کہ سوائے اس بات کی تصدیق کے کہ وہ ایک چھوٹی کشتی پر سوار ہوئیں، اس فوٹیج سے کوئی خاص بات سامنے نہیں آئی جس کی مدد سے کسی اور جانب دیکھا جا سکے یا کوئی ایسی نشانی یا سراغ مل جائے جس سے یہ گُتھی سُلجھ سکے۔
تاہم، میں نے سی سی ٹی وی کے ٹائم سٹیمپ میں ایک تضاد نوٹ کیا۔
امریکی کوسٹ گارڈ کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق، بین نے کہا تھا کہ یہ دونوں مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے کشتی پر واپس آئے۔
لیکن ٹائم سٹیمپدکھاتا ہے کہ وہ رات پونے نو بجے ایک سپیڈ بوٹ کے ذریعے روانہ ہوئے۔
یہ راستہ میں نے خود بھی طے کیا ہے اور جانتا ہوں کہ ایک چھوٹی کشتی پر یہ سفر پانچ سے دس منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ زیادہ سے زیادہ رات نو بجے واپس پہنچ گئے ہوں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ ایک گھنٹہ ایسا ہے جس کا حساب بین نے کبھی نہیں دیا۔
ورجن آئی لینڈز کے پولیس کمشنر ماریو بروکس کہتے ہیں کہ 'ٹائم لائن مشکوک ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں رائن سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔'
لیکن بین کے وکیل ڈیوڈ کیٹی نے ہمیں بتایا کہ ٹائم لائن کی یہ تعبیر 'غیر ذمہ دارانہ' ہے۔
کمشنر بروکس نے کہا کہ بین اس کیس میں واحد شخص ہیں جن پر پولیس کی نظر ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'ایسی کوئی شہادت نہیں ملی جس سے یہ اشارہ ملے کہ اس رات سارمکا رائن کے علاوہ کسی اور سے رابطہ ہوا ہو۔'
BBCبین کے وکیل ڈیوڈ کیٹی
اگرچہ بین نے اس کیس پر کبھی عوامی سطح پر بات نہیں کی لیکن ان کے وکیل ڈیوڈ کیٹی نے پہلی بار ان کی جانب سے انٹرویو دینے پر رضامندی ظاہر کی۔
جب پوچھا گیا کہ سارم کے لاپتہ ہونے کی رات کیا ہوا؟ تو ڈیوڈ کیٹی نے کہاکہ بین کا ماننا ہے کہ شاید سارم کا سر لگ گیا اور وہ پانی میں گر گئیں یا وہ تیراکی کرتے ہوئے الجھن کا شکار ہو گئیں، راستہ بھول گئیں اور ڈوب گئیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس رات کی ٹائم لائن میں موجود تضاد دراصل صرف ایک ممکنہ غلط اندازہ ہے جو بین نے دباؤ میں اپنی لاپتہ گرل فرینڈ کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے لگایا۔
بین کے مطابق انھیں رات دو بجےپتہ چلا کہ سارم غائب ہیں۔ تاہم، اس کے بعد انھوں نے کیا کیا اس پر میں نے کشتی کے دیگر کپتانوں اور ماہرین سے بات کی، انھوں نے مختلف سوال اٹھائے۔
فرینکس بے میں اس وقت دو اور کشتیاں لنگر انداز تھیں۔ میں نے دونوں کے کپتانوں سے رابطہ کیا جنھوں نے تصدیق کی کہ بین نے نہ تو اس رات اور نہ ہی اگلی صبح ان سے کوئی مدد مانگی یا کسی اور مسئلے یا حادثے کی اطلاع دی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ کپتانوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ کسی لاپتہ شخص کا نام پکاریں، 'مے ڈے' کی کال کریں، فوری طور پر کوسٹ گارڈ کو اطلاع دیں اور قریبی کشتیوں کو آگاہ کریں۔
کیٹی نے تسلیم کیا کہ بین نے وہ سب کچھ نہیں کیا 'جو آپ کہیں گے کہ ایک کپتان کو لازماً کرنا چاہیے تھا۔'
لیکن انھوں نے کہا کہ 'ہم یہاں اس لیے نہیں ہیں کہ آپ کہہ سکیں کہ رائن نے کشتیوں کے پروٹوکول پر عمل نہیں کیا۔ ہم یہاں اس لیے ہیں کیونکہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے لاپتہ ہونے میں ان کا ہاتھ ہے۔ جس کی کوئی شہادت نہیں ہے۔'
’ایک ایک منٹ اہمیت رکھتا ہے‘
میں نے پولیس کی ٹائم لائن اور امریکی کوسٹ گارڈ کی رپورٹس حاصل کیں جو سارم کے لاپتہ ہونے کے بعد کے گھنٹوں کو بیان کرتی ہیں۔
بین نے کہا کہ وہ اُس وقت جاگے جب انھوں نے اینکر الارم بجتے سنا۔ یہ الارم اُس وقت بجتا ہے جب کشتی اپنی جگہ سے ہٹنے لگے اور انھیں احساس ہوا کہ سارم اب کشتی پر موجود نہیں ہیں۔
بین کے بقول وہ پونے تین بجے اپنی چھوٹی کشتی پر ساحل پہنچے اور پولیس کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
تاہم، اس کے بعد سے ان کا بیان پولیس کے بیان سے مختلف ہے۔
ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ پولیس نے بین کو یہ تاثر دیا کہ وہ خود کوسٹ گارڈ کو اطلاع دیں گے۔ تاہم پولیس کے بیانات میں لکھا ہے کہ افسران نے بین کو ہدایت دی تھی کہ وہ خود کوسٹ گارڈ کو کال کریں۔ بین نے ابتدائی اطلاع کے نو گھنٹے بعد رات پونے بارہ بجے کوسٹ گارڈز کو مطلع کیا۔
امریکی کوسٹ گارڈ کے کمانڈر جان لیگ کہتے ہیں کہ 'آخر کار جب کوئی شخص لاپتہ ہو، تو ذمہ داری ہمیشہ کپتان کی ہوتی ہے۔ اُس وقت ہر منٹ اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا نو گھنٹے انتظار کرنا اس امکان کو کم کر دیتا ہے کہ پانی میں موجود شخص کو زندہ ڈھونڈا یا نکالا جا سکے۔'
یو ایس کوسٹ گارڈ کی تلاش پولیس کو اطلاع دیے جانے کے 11 گھنٹے بعد شروع ہوئی۔
کمانڈر لیگ بتاتے ہیں کہ کسی کے اوور بورڈ یعنی کشتی سے گر کر لاش کے کبھی نہ ملنے کا واقعہ کم ہی سامنے آتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'جب سے میں یہاں ہوں تین سال کے دوران، ہمارے پاس ایسے معاملات آئے ہیں کہ جن میں لوگ کشتی سے پانی میں گر جاتے ہیں مگر کبھی لاش غائب نہیں ہوئی۔'
بین نے امریکی آئین کی چوتھی ترمیم کے تحت اپنے حقوق استعمال کیے جو ’غیر معقول حکومتی تلاشیوں اور ضبطی‘ کی ممانعت کرتی ہے تاکہ ایک فرانزک ٹیم کو ان کی کشتی کی تلاشی سے روکا جا سکے۔
تاہم اس معاملے میں جو تلاشی عمل میں آئی وہ کوسٹ گارڈ کا ابتدائی حفاظتی جائزہ تھا۔
کیٹی نے کہا کہ انھوں نے بین کو اپنے حقوق استعمال کرنے کی صلاح دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ 'وکیل ہونے کے ناطے ایک بات آپ سیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ جن کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، جنھوں نے کچھ غلط نہیں کیا، جو پوری طرح سے تعاون کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، وہی لوگ ایسے معاملات میں جیل پہنچ جاتے ہیں جن میں انھوں نے کچھ نہیں کیا ہوتا۔'
سارم کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دینے کے پانچ ہفتے بعد بین نے امریکی ورجن آئی لینڈز چھوڑ دیا۔ وہ کبھی واپس نہیں لوٹے۔ بعد میں انھوں نے یاٹ فروخت کرنے کی کوشش کی۔
’سب سے ڈرانے والی بات‘
رائن بین کی شخصیت کے بارے میں مزید جاننے کے لیے میں نے ان کی سابقہ اہلیہ کوڑی سٹیونسن کو ڈھونڈا۔
وہ سنہ 2008 میں شادی کر چکے تھے، پھر سنہ 2011 میں ایک شادی کی تقریب کے بعد انھوں نے اپنی اہلیہ پر حملہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'انھوں نے مجھے زمین پر گرا دیا، میرے بال پکڑے اور انھوں نے میرا سر فرش پر پٹخ دیا'، جس سے ان کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ 'انھوں نے میرا گلا گھونٹا سانس اس حد تک رکی کہ میں بے ہوش ہو گئی۔'
وہ کہتی ہیں کہ 'جب وہ اس طرح کہ عجیب غصے میں ہوتے تھے۔۔۔ ان کی آنکھیں مکمل طور پر سیاہ ہو جاتی تھیں۔' انھوں نے مزید بتایا کہ 'یہ شاید سب سے ڈرانے والی بات تھی۔ بس اُن کی اس کیفیت میں، میں تو یہی سوچتی تھی، 'آج میں نہیں بچ سکوں گی اور میری موت ہو جائے گی۔'
رائن بین کو گھریلو تشدد کے جرم میں 60 روز کی سزا سنائی جا چُکی تھی۔ ان دونوں کے درمیان سنہ 2014 میں طلاق ہو گئی۔
کیٹی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بین کو اسی ایک مقدمے میں سزا ہوئی تھی مگر وہ مزید کہتے ہیں کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ان کا کبھی سرم کے ساتھ کوئی پرتشدد جھگڑا ہوا ہو۔
سارم کا کیس اب بھی لاپتہ فرد کے طور پر درج ہے، لیکن ان کے دوست اور خاندان کے لوگ چاہتے ہیں کہ اسے 'بغیر لاش کے قتل کی تفتیش' کے طور پر دوبارہ درج کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پولیس کو تحقیقات کو مزید آگے بڑھانے کا اختیار ملے گا۔
خاندان کی مدد کے لیے شامل کیے گئے سابق میٹروپولیٹن پولیس افسر ڈیوڈ جانسٹن کہتے ہیں کہ 'اگر سارم برطانیہ میں لاپتہ ہوتیں، تو اس کیس کو ابتدا ہی سے 'ایسے لاپتہ فرد کا کیس سمجھا جاتا جس میں جرم کے شامل ہونے کا امکان ہو۔'
ان کے مطابق شواہد کے کچھ پہلو 'کافی تھے کہ کیس کو اس مقام پر لے جایا جاتا جہاں بین کو فوراً گرفتار کیا جا سکتا تھا تاکہ ان سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔'
امریکی ورجن آئی لینڈز پولیس نے ہمیں بتایا کہ وہ اس کیس کو انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے اور تمام سراغوں کا پیچھا کرے گی۔
دوسری طرف، بین کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل پر کبھی کسی جرم کا الزام نہیں لگا اور نہ ہی عدالت نے ان کے خلاف کوئی وارنٹ جاری کیا۔ کیٹی نے کہا کہ انھوں نے پولیس اور امریکی اٹارنی جنرل کے دفتر کو بتایا ہے کہ اگر امریکی ورجن آئی لینڈز میں بین کی ضرورت پڑی یا عدالت کو ان کی ضرورت پڑی تو وہ رضاکارانہ طور پر واپس آئیں گے۔
اگرچہ پولیس کہتی ہے کہ کیس بند گلی میں پہنچ چکا ہے، سارم کے دوست اور خاندان والے کہتے ہیں کہ وہ یہ جاننے کی کوششیں جاری رکھیں گے کہ اصل میں سارم کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
ان کی والدہ برینڈا کہتی ہیں کہ 'وہ میری زندگی تھی، میری بیٹی میرا سب کُچھ تھی۔ یہ سوچ کر کہ میں اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکوں گی میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔'
نام، مذہب اور حلیہ تبدیل: گھریلو ناچاقی کے بعد لاپتہ ہونے والی خاتون، جنھیں پانچ سال بعد ڈھونڈ لیا گیا’تم مشہور ہو جاؤ گے‘: بِکنی کِلر چارلس سوبھراج کی گرفتاری کی کہانی انھیں گرفتار کرنے والے افسر کی زبانی’اُس نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور میری ٹائٹس تک پہنچ گیا:‘ خواتین وکلا کے ساتھ جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعاتساس، سسر سمیت چار افراد کو زہر دینے والی ایرن پیٹرسن کو عمر قید: جب ڈاکٹر نے چند منٹ میں ہی اس ’سنگدل قاتلہ‘ کو پہچان لیا ماں جس نے اپنے دونوں بچوں کی لاشوں کو سوٹ کیس میں بند کر کے چار برس گودام میں چھپائے رکھا والد کی اٹلی سے پاکستان واپسی اور گھر میں ’ڈکیتی‘: گوجرانوالہ میں دو بہنوں کے پُراسرار قتل پر والدین کی گرفتاری