اجمیر کا میو کالج: انڈیا کے مہاراجاؤں کا سکول جو اب نئے اشرافیہ کو تعلیم دے رہا ہے

اردو نیوز  |  Sep 21, 2025

انڈیا کے میو کالج کے دروازے سے اندر قدم رکھنا 150 سال پیچھے ماضی میں سفر کرنے جیسا ہے۔ تاہم، وہ سکول جو کبھی صرف شہزادوں اور مہاراجاؤں کے بچوں کے لیے مخصوص تھا، اب ایک نئے اشرافیہ کو تعلیم دے رہا ہے۔

اس کی تاریخ شان و شوکت سے بھری ہوئی ہے۔

اس کالج کا پہلا طالب علم الور کے مہاراجہ کا بیٹا 1875 میں انتہائی شان و شوکت کے ساتھ پالکی میں سوار اور 300 خادموں کے ہمراہ کالج آیا۔

راجستھان کے شہر اجمیر میں واقع اس کالج کے پرنسپل سورَو سنہا کہتے ہیں کہ ’ہم ماضی کی ایک خاص روایت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن صرف اس حد تک، جہاں یہ ہماری ثقافت کو فروغ دے، اور ہمارے طلبہ کو یہ یاد دلائے کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔‘

’ایٹن آف دی ایسٹ‘ کے نام سے مشہور میو کالج کو انگلینڈ کے اشرافیہ کے بورڈنگ سکولز کے طرز پر بنایا گیا تھا۔ اسے برطانوی وائسرائے، ارل آف میو نے اس مقصد کے تحت قائم کیا کہ انڈین شاہی خاندانوں اور لندن کے درمیان تعلقات کو فروغ دیا جائے۔

آج اس سکول میں 9 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 850 طلبہ زیر تعلیم ہیں، جن میں صرف چند ہی شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

اب ان کی جگہ وزرا، کاروباری شخصیات، سفارت کاروں اور سینیئر فوجی افسران کے بچے لے چکے ہیں۔

فیس تقریباً 11,500 ڈالر سالانہ ہے جو انڈیا جیسے ملک میں، جہاں سالانہ فی کس آمدنی تقریباً 2,300 ڈالر ہے، ایک خطیر رقم ہے۔

یہ میو کالج کو انڈیا کے چند انتہائی ایلیٹ بورڈنگ سکولوں میں شامل کرتا ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ دیگر تعلیمی اداروں سے بالکل مختلف ہے، جہاں دو میں سے ایک سکول میں کمپیوٹرز بھی نہیں ہیں۔ بہت سے خاندانوں کے لیے، یہ خرچ جائز ہے۔

جو دھپور سے تعلق رکھنے والے ایونٹس کمپنی کے مالک اور میو کے سابق طالب علم، ابھیشیک سنگھ ٹاک کہتے ہیں کہ ’میرے لیے بالکل واضح تھا کہ میں اپنے دونوں بیٹوں کو یہاں بھیجوں، کیونکہ یہ سکول آپ کو ہر چیز کے لیے تیار کرتا ہے۔‘

سکول کی مرکزی عمارت کے سامنے کھڑے ہوکر، جو تاج محل کی یاد دلاتے ہوئے سنگِ مرمر سے بنی ہے، انہوں نے کہا کہ ’میں آج جو کچھ بھی ہوں، سب کچھ یہیں سے شروع ہوا۔‘

فوجی نظم و ضبطان کے بیٹے، نربھَے (10 سال) اور ویرین (17 سال)، سال کے نو مہینے اسی پُرتعیش ماحول میں رہتے ہیں۔

نربھَے کا خواب ہے آکسفورڈ یونیورسٹی جانا؛ جبکہ ویرین دہلی یونیورسٹی یا فرانس کی سائنس پو یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہے، تاکہ ایک سفارت کار بن سکے۔

اگرچہ وہی سخت فوجی نظم و ضبط آج بھی قائم ہے، جس کی وجہ سے میو نے اپنی ساکھ بنائی، لیکن حالیہ برسوں میں طلبہ کی فلاح و بہبود اور خوداعتمادی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔

76 ہیکٹر پر پھیلا یہ کیمپس، قدیم درختوں اور سرسبز لانز سے بھرا ہوا ہے، جو راجستھان کے ریگستان میں ایک حیرت انگیز منظر پیش کرتا ہے۔

لیکن طلبہ کے لیے صبح سویرے اٹھنے سے رات 9:30 بجے بتیاں بند ہونے تک آرام کا وقت کم ہی ہوتا ہے۔

گیارہ سالہ آریَن، جو ممبئی سے آیا ہے، نے جب ہنستے ہوئے کہا کہ ’ہم اتنے مصروف رہتے ہیں کہ مجھے اپنے خاندان کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔‘ تو ان کے ساتھی طلبہ نے قہقہہ لگایا۔

جونیئر اسکول کے سربراہ راجیش سونی نے تسلیم کیا کہ ابتدائی مہینے مشکل ہو سکتے ہیں۔

اسی لیے میو نے ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی ہیں، اور خواتین اساتذہ و معاون عملے کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ترجیح یہ ہے کہ یہاں خوشی کا ماحول قائم ہو، تاکہ بچے آزادی سے سیکھ سکیں اور اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ ہر چیز اس لیے کی جاتی ہے کہ ان کی ذہنی تجسس کو بیدار کیا جا سکے۔‘

والدین کا کہنا ہے کہ نتائج خود بولتے ہیں۔

نصاب انگریزی میں پڑھایا جاتا ہے، اور اس میں سائنس، غیر ملکی زبانیں، ادب، بین الاقوامی تعلقات، فنون اور موسیقی شامل ہیں۔

دوپہر کے وقت کھیلوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ میو تقریباً 20 کھیل پیش کرتا ہے، جیسے پولو، گالف، تیراکی، نشانہ بازی، اور ٹینس۔ فٹبال نے حالیہ برسوں میں کرکٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More