Getty Images
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی ہنر مندوں کو امریکہ لانے والے ایچ ون بی ویزا کی فیس ایک لاکھ ڈالر کرنے کے اثرات انڈیا سمیت جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحت کے باوجود اب بھی اس معاملے پر ابہام برقرار ہے اور بہت سے افراد امریکہ میں اپنے مستقبل سے متعلق تحفظات کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایسے افراد میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے روہن مہتا (فرضی نام) بھی ہیں جنھوں نے اس فیصلے کے اطلاق یعنی 21 ستمبر سے پہلے فوری امریکہ پہنچنے کے لیے آٹھ ہزار ڈالرز خرچ کیے۔
جب امریکی صدر نے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تو اس وقت روہن ناگپور میں اپنے والد کی برسی کی تقریبات میں شرکت کے لیے موجود تھے لیکن اُنھِیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑا۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کو ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ہائی سکلڈ (ہنر مند) افراد کو امریکہ لانے کے لیے پروگرام ایچ ون بی کی ویزا فیس 1500 ڈالرز سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کر دی گئی ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس حکم نامے سے امریکہ میں ٹیکنالوجی کمپنیاں متاثر ہوں گی جن کی افرادی قوت کا انحصار چین اور انڈیا سے آنے والے ہنر مند افراد پر ہے۔
Anadolu via Getty Imagesصدر ٹرمپ کے ایچ ون بی ویزے سے متعلق حکم نامے پر ویزا ہولڈرز کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے
اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی افرادی قوت کا استحصال ہے لیکن ایلون مسک جیسے حامیوں کے مطابق اس پروگرام کے تحت دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ کو امریکہ لانا ممکن ہوتا ہے۔
امریکی صدر کے اس حکم نامے کے بعد بعض کمپنیوں نے بیرون ملک موجود ایچ ون بی ویزا ہولڈرز کو 21 ستمبر تک امریکہ واپس آنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ جو 21 ستمبر تک نہیں پہنچ سکتے، اُنھیں مزید ہدایات تک امریکہ کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
بعدازان وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی تھی کہ یہ فیس صرف ایک مرتبہ وصول کی جائے گی اور اس کا اطلاق موجودہ ویزا ہولڈرز پر نہیں ہو گا لیکن بہت سے لوگوں کے لیے اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
امریکہ ہر سال 85 ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرتا ہے جس سے سب سے زیادہ 70 فیصد انڈین باشندے استفادہ کرتے ہیں۔
بی بی سی نے اس معاملے پر انڈیا اور جنوبی ایشیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے ایچ ون بی ویزا ہولڈرز سے بات کی۔
ان میں سے بہت سے افراد کئی برسوں سے امریکہ میں کام کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ اُن کی کمپنیوں کی جانب سے اُنھیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
Getty Imagesامریکہ سالانہ 85 ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ اس پروگرام کا غلط استعمال ہو رہا ہے’نیویارک کی فلائٹ کے لیے آٹھ ہزار ڈالرز دیے‘
روہن مہتا سافٹ ویئر پروفیشنل ہیں اور امریکہ میں 11 برس سے اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔ وہ رواں ماہ کے آغاز پر اپنے اہلخانہ سے ملنے اور اپنے والد کی برسی پر انڈیا پہنچے تھے۔
لیکن 20 ستمبر کو اس حکم نامے کے بعد روہن کے بقول اُنھیں تشویش ہوئی کہ اگر وہ 21 ستمبر سے پہلے امریکہ نہ پہنچے تو اپنے گھر نہیں پہنچ سکیں گے۔
روہن کے بقول اُنھوں نے بہت سی فلائٹس آپشنز کے بعد ورجن اٹلاٹنک ایئر لائن کی فلائٹ حاصل کی جو ممبئی سے نیویارک کے لیے تھی اور اس کے لیے اُنھیں آٹھ ہزار ڈالرز خرچ کرنا پڑے۔
اُن کے بقول اگر فلائٹ میں زرا سی بھی تاخیر ہو جاتی تو وہ مقررہ ڈیڈ لائن پر امریکہ نہ پہنچ پاتے۔
روہن مہتا نے گزشتہ چند دنوں کو ’تکلیف دہ‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ ان کی اہلیہ اور بیٹی اس سفر پر ان کے ساتھ انڈیا نہیں آئے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے اپنے انتخاب پر افسوس ہے، میں نے اپنی جوانی کا سب سے بڑا حصہ اس ملک (امریکہ) کو دیا اور اب مجھے لگتا ہے کہ اس کو میری ضرورت نہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ میری بیٹی نے اپنی ساری زندگی امریکہ میں گزاری، مجھے نہیں معلوم کہ میں وہاں سے کیسے اپنی زندگی کو جڑ سے اُکھاڑ کر انڈیا میں دوبارہ زندگی شروع کروں گا۔
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوارن اس پروگرام سے سب سے زیادہ مستفید ایمازون ہوا تھا اور اس کے بعد ٹیک کمپنیاں ٹاٹا، مائیکروسافٹ، میٹا، ایپل اور گوگل تھے۔
امریکہ نے 1990 میں ایچ ون بی ویزا پروگرام شروع کیا تھا۔ اب تک اس پروگرام کے تحت سب سے زیادہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد امریکہ منتقل ہوئے ہیں اور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر چین ہے۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اپنی نئی امیگریشن پالیسی کے تحت اس پروگرام کی بھی جانچ کر رہی ہے اور ٹرمپ اکثر یہ کہتے ہیں کہ غیر ملکی افراد امریکیوں کی نوکریوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔
امریکہ میں ہنر مند غیر ملکی ملازمین کی سالانہ ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر: ایچ ون بی ویزا کیا ہے اور ٹرمپ کا فیصلہ کن ممالک کو زیادہ متاثر کرے گا؟امریکی ویزے پر پابندی: غیر ملکی طلبہ کن متبادل ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟’یہ میرے پاس ہو تو میں زیادہ محفوظ ہوں‘: امریکہ میں ملک بدری کے منڈلاتے خطرے کے بیچ تارکینِ وطن کو ’ریڈ کارڈ‘ کا سہاراغیرقانونی انڈین تارکین وطن کی امریکہ بدری: چھ ماہ کا خطرناک سفر، لاکھوں کا خرچہ اور امریکی فوجی طیارے میں ہتھکڑیوں میں واپسی’سمجھ نہیں آ رہا کہ امریکہ میں رہوں یا وطن واپس چلا جاؤں‘
ایچ ون بی ویزے پر امریکہ میں کام کرنے والے ایک پاکستانی شہری نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’میں مکمل طور پر الجھن میں ہوں اور مزید معلومات کا انتظار کر رہا ہوں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ وہ روزانہسرکاری اپ ڈیٹس اور قانونی مشورے حاصل کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کہ ان قوانین کو کیسے نافذ کیا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’غیر یقینی صورتحال نے مجھے بے یقینی میں ڈال دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ امریکہ میں طویل مدتی منصوبہ بندی کروں یا اچانک وطن واپسی کی تیاری کروں۔‘
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس الجھن کے بڑے پیمانے پر مضمرات ہیں۔
یورپ میں چھٹیاں منانے کے لیے آئے ہوئے ایک اور ویزا ہولڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے میں بہت ابہام ہے۔
اُن کے بقول ’مجھے نہیں معلوم کہ کمپنیاں اس فیصلے کے بعد اب کیا حکمت عملی اپنائیں گی اور اس کے ایچ ون بی ویزا ہولڈرز پر کیا اثرات پڑیں گے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال سے یہ حکم نامہ صرف نئے ایچ ون بی ویزا ہولڈرز کے لیے ہے۔ امیگریشن وکلا بھی اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں لیکن اس وقت وہ فوراً امریکہ واپس پہنچنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔‘
Getty Imagesامریکی صدر کا یہ موقف رہا ہے کہ ایچ ون بی ویزا پروگرام امریکیوں کے لیے روزگار کے مواقع کم کرتا ہےماہرین کیا کہتے ہیں؟
امریکہ میں امیگریشن وکلا، کمپنیاں اور مختلف تنظیمیں صدر ٹرمپ کے اس نئے حکم نامے کو سمجھنے اور اس کے اثرت کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔
ساؤتھ ایشین بار ایسوسی ایشن کی ہنگامی میٹنگ میں وکلا کا کہنا تھا کہ اس حکم نامے کے بغور مطالعے کے باوجود کوئی تفصیلی وضاحت موجود نہیں۔
وکلا کی جانب سے امریکہ میں رہنے والے ایچ ون بی ویزا ہولڈرز کو مشورہ دیا گیا ہے کہ ’ابھی کے لیے بین الاقوامی سفر سے گریز کریں کیونکہ سرحدی حکام کو آرڈر کی وسیع تر تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہو سکتا ہے۔‘
امریکی امیگریشن کونسل کے پالیسی ڈائریکٹر جارج لووری نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پالیسی بغیر کسی نوٹس، رہنمائی اور منصوبہ بندی کے نافذ کی گئی۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نہ صرف ویزا ہولڈرز اور ان کے خاندانوں میں الجھن دیکھ رہے ہیں بلکہ آجروں اور یونیورسٹیوں میں بھی تشویش دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کو واضح کرے، خاص طور پر جب زندگی اور کریئر خطرے میں ہوں۔‘
امریکہ میں مقیم بین الاقوامی انسانی حقوق کے وکیل گنجن سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حکم سخت اور غیر واضح تھا۔
اُن کے بقول اس نے ایچ ون بی ویزا حاصل کرنے کے خواہش مندوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اقدام یونیورسٹیز اور غیر منافع بخش تنظیموں میں کام کرنے والے ریسرچرز کو زیادہ متاثر کرے گا کیونکہ ان کی تنخواہیں آئی ٹی سیکٹر میں کام کرنے والوں سے کہیں کم ہوتی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی وضاحت
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوت کے مطابق یہ ویزا فیس سالانہ نہیں بلکہ صرف ایک مرتبہ وصول کی جائے گی۔
اُن کے بقول جن کے پاس ایچ ون بی ویزا ہے اور وہ اس وقت امریکہ میں نہیں ہیں، ان کی امریکہ واپسی پر کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
کیرولین لیوت کا کہنا تھا کہ ایچ ون بی ویزا ہولڈرز معمول کے مطابق امریکہ سے باہر جا یا واپس آ سکتے ہیں۔
اُن کے بقول حال ہی میں ایچ ون بی ویزا حاصل کرنے والے اور ویزے کی تجودید پر بھی کوئی اضافی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
غیرقانونی انڈین تارکین وطن کی امریکہ بدری: چھ ماہ کا خطرناک سفر، لاکھوں کا خرچہ اور امریکی فوجی طیارے میں ہتھکڑیوں میں واپسیامریکہ میں ہنر مند غیر ملکی ملازمین کی سالانہ ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر: ایچ ون بی ویزا کیا ہے اور ٹرمپ کا فیصلہ کن ممالک کو زیادہ متاثر کرے گا؟’یہ میرے پاس ہو تو میں زیادہ محفوظ ہوں‘: امریکہ میں ملک بدری کے منڈلاتے خطرے کے بیچ تارکینِ وطن کو ’ریڈ کارڈ‘ کا سہاراایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیںلگ بھگ پانچ کروڑ تارکین وطن کے بغیر امریکہ کیسا نظر آئے گا؟