جب سنیل گواسکر نے میٹھے پان کے وعدے پر پاکستانی کرکٹر کو تحفے میں جوتے دیے

بی بی سی اردو  |  Sep 27, 2025

Getty Images

انڈین کپتان سوریا کمار یادو گذشتہ دنوں اپنے اس بیان کے باعث کافی زیر بحث رہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچوں کو ’رائیولری‘ کہنا درست نہیں کیونکہ اگر دو ٹیمیں 15 سے 20 میچ کھیلیں اور اس دوران ان کا ریکارڈ تقریباً برابر رہے تو اسے حریفانہ مقابلہ کہا جا سکتا ہے لیکن اگر ایک ٹیم مسلسل جیت رہی ہو تو یہ رائیولری نہیں رہتی۔

یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں رواں برس مئی میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد پہلی بار آمنے سامنے ہیں۔

رواں ایشیا کپ کے دوران ایسا بہت کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، چاہے وہ کھلاڑیوں کی جانب سے کیے گئے اشارے یا جشن منانے کے انداز ہوں یا بظاہر سیاسی نوعیت کے بیانات۔

اگرچہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کھیلے گئے میچ ہمیشہ سے ہی زیر بحث رہے ہیں اور انھیں دنیائے کرکٹ کے بڑے مقابلوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر سابق کھلاڑیوں کے مطابق جو گرما گرمی کا ماحول اب دیکھنے میں آ رہا ہے، ایسا کبھی نہیں تھا۔

ہم نے اس حوالے سے چند سابق پاکستانی کھلاڑیوں سے بات کی تاکہ ماضی کے حالات کو جانا جا سکے اور اس بات کا جائزہ بھی لیا جا سکے کہ کیا اب واقعی انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ اپنا ’چارم‘ کھوتے جا رہے ہیں؟

مگر اس سے قبل اعداد و شمار پر نظر ڈال لیتے ہیں۔

اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک روزہ میچوں کا آغاز کرکٹ کے دوسرے ورلڈ کپ کے زمانے سے ہوا۔ سنہ 1978 سے لے کر سنہ 1985 کے درمیان سات سال کے عرصے میں اس شعبے میں انڈیا کو پاکستان پر معمولی برتری حاصل تھی اور اس دورانیے میں ہونے والے 15 ایک روزہ میچوں میں سے آٹھ انڈیا جبکہ سات پاکستان کے نام رہے۔ اِسی دور میں انڈیا عالمی چیمپیئن بھی بنا۔

اس کے بعد کے چھ برسوں میں یعنی سنہ 1985 سے سنہ 1991 تک، پاکستان کا پلڑہ کافی بھاری رہا کیونکہ اس دورانیے میں کھیلے گئے 21 ایک روزہ میچوں میں سے انڈیا صرف تین جیت پایا جبکہ 18 پاکستان کے نام رہے۔

ان کامیابیوں کے بعد 1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو انڈیا سے شکست ہوئی مگر اگلے آٹھ برس میں دونوں ٹیموں میں ’برابری‘ کا کوئی سوال نہ تھا کیونکہ اس دورانیے میں ہونے والے 46 میچوں میں سے 27 میچ پاکستان کے نام رہے۔

سنہ 2004 کے بعد سے جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ بحال ہوئی، تب دونوں کے درمیان برابری کی سطح پر میچز ہونے لگے۔ 2004 سے 2013 تک پاکستان اور انڈیا میں ہوئے 40 میچوں میں دونوں ٹیموں نے 20، 20 میچ جیتے۔

مگر اس کے بعد صورتحال کچھ بدلی۔ مارچ 2009 میں پاکستان میں سری لنکن ٹیم پر حملے اور اس سے اگلے ہی سال انگلینڈ میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل بظاہر پاکستان کی ٹیم کو دہائیوں پیچھے لے گیا۔ اس کے بعد ہوئے 11 ون ڈے میچوں میں پاکستان صرف دو میں کامیاب رہا جس میں چیمپیئنز ٹرافی 2017 کا فائنل بھی شامل ہے۔

اگر گذشتہ پانچ سال کی بات کی جائے تو اس دورانیے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سات ٹی ٹوئنٹی میچز ہوئے جن میں سے پانچ انڈیا نے جیتے جبکہ صرف دو پاکستان کے نام رہے، اسی طرح اسی دورانیے میں چار ایک روزہ میچوں میں سے تین انڈیا کے نام رہے جبکہ ایک میچ بے نتیجہ رہا۔

Getty Imagesسوریا کمار یادو کے بیان میں کتنا وزن ہے؟

سابق ٹیسٹ کپتان آصف اقبال کہتے ہیں کہ سوریا کمار یادیو کے بیان کی بنیاد انڈین ٹیم کا پاکستان کے خلاف حالیہ ریکارڈ ہے جو واضح طور پر انڈیا کے حق میں ہے۔

’رائیولری والے بیان کا کرکٹ سے زیادہ دونوں طرف کے سپورٹرز اور کرکٹ سے محبت سے تعلق ہے۔ رائیولری کو تو میڈیا نے بنایا، اس کا ٹیم کی پرفارمنس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘

سابق کرکٹر عظیم حفیظ کی الگ ہی منطق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ رائیولری والی بات تو لگ رہا ہے جیسے چڑانے کے لیے کہی گئی ہو، کون بڑا تھا کون نہیں ، ہم نے سب دیکھا۔ وہ تو اب جا کر یہ ہم سے کرکٹ میں کچھ بہتر ہوئے ہیں، آئی پی ایل اور پیسہ آنے کے بعد، ورنہ نہ پوچھیں 1983 کے دورے پر ان کے یہاں کے گراؤنڈ اور انتظامات کیا تھے۔ ہم تو اپنے گراؤنڈز کو ذہن میں رکھ کر گئے تھے، وہاں جا کر بڑی مایوسی ہوئی تھی۔‘

سابق ٹیسٹ کرکٹر اور پروفیشنل کوچ فیصل اقبال کہتے ہیں کہ کسی کے کہنے سے یہ رائیولری ختم نہیں ہو سکتی۔ ’کیون پیٹرسین اور رکی پونٹنگ جب اسے بڑی رائیولری کہہ چکے ہیں تو سوریا کمار کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔‘

شاہین آفریدی کا پہلے سے زیادہ ’خطرناک ورژن‘ اور بنگلہ دیش کے خلاف ’معجزاتی‘ جیتابھیشیک شرما: جارح مزاج انڈین اوپنر جنھوں نے بچپن میں ہونے والی پیشن گوئی کو حقیقت میں بدل دیاحارث کا 0-6 کا اشارہ، فرحان کا جشن اور ابھیشیک سے تلخ کلامی: پاکستان انڈیا میچ کے دوران سامنے آنے والے پانچ تنازعاتوقار یونس ہسرنگا کی طرح جشن کیوں نہیں منا سکتے؟پاکستان اور انڈیا کرکٹ کا ’چارم‘

میری طرح کرکٹ دیکھنے والے جن شائقین نے 80 اور 90 کی دہائی میں ہونے والے کرکٹ میچز دیکھے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ حالیہ کرکٹ میں وہ بات نہیں رہی، جو اِس نسل کو کرکٹ سے جوڑ کر رکھتی تھی۔

کرکٹ کے موجودہ ماحول کو دیکھتے ہوئے اگر اب شائقین کرکٹ کو یہ بتایا جائے کہ دنیا کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین، سنیل گواسکر، صرف ’میٹھے پان کے بدلے‘ انڈین بیٹنگ لائن کے چھکے چھڑانے والے پاکستانی بولر توصیف احمد کو جوتے تحفے میں دیں گے، تو کیا وہ یقین کریں گے؟

سابق ٹیسٹ سپنر توصیف احمد کو سنیل گواسکر کے جوتے لانے کا واقعہ آج تک یاد ہے۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’مجھے خاص کمپنی کے سپائیکس (جوتے) چاہییں تھے مگر کلکتہ میں میرا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ میں نے سنیل بھائی کو یہ بات بتا دی۔ اگلے دن پریکٹیس کے دوران میں نے دیکھا کہ سنیل گواسکر پویلین کی دوسری طرف سے میرے لیے جوتے کا ڈبہ لے کر چلے آ رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میں کافی شرمندہ ہوا مگر جب میں نے ڈرتے ڈرتے جوتوں کی قیمت پوچھنا چاہی تو انھوں نے جواب دیا کہ جب میں پاکستان دورے پر آؤں گا تو تمہاری ذمہ داری ہو گی وہاں ہر روز مجھے دو میٹھے پان پہنچانے ہوں گے۔‘

Getty Imagesانڈین کپتان سوریا کمار یادو کا کہنا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچوں کو ’رائیولری‘ کہنا درست نہیں

توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’وہ اکثر مجھے لائینل رچی کہہ کر بھی چھیڑتے تھے جن سے میری کافی مشابہت تھی۔ جاوید بھائی سے ان کی بہت دوستی تھی اور ہم نے بڑا اچھا ٹائم گزارا مگر جو کچھ آج کل ہو رہا ہے، ایسا تو ہم نے اُس دور میں سوچا بھی نہیں تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کھلاڑیوں کے درمیان میدان میں جو بھی ہوتا تھا، وہ گراؤنڈ میں ہی رہ جاتا تھا۔ شاہد آفریدی اور گوتم گھمبیر کے درمیان جھگڑے کے بعد سے یہ سب بڑھ گیا، اب تو گراؤنڈ میں نیا کھلاڑی بھی بول رہا ہوتا ہے، بظاہر سب ہی اکھڑ گئے ہیں۔‘

سنہ 1978 سے 1985 کے درمیان پاکستانی ٹیم نے دو بار انڈیا کا دورہ کیا جبکہ اسی دورانیے میں انڈیا کی ٹیم تین مرتبہ پاکستان آئی۔

1978 میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز پاکستان نے دو، صفر سے جیتی تھی جس کے بعد اختتام پر کپتان بشن سنگھ بیدی نے مشتاق محمد کو گلے لگا لیا۔ یہ دونوں کھلاڑی نورتھیمپتن شائر کاؤنٹی کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلتے تھے۔

بشن سنگھ بیدی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مشتاق محمد اکثر جذباتی ہو جایا کرتے ہیں۔

ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’چھ سال تک ہم دونوں نے انگلینڈ کے ایک ہی علاقے میں وقت گزارا تھا۔ ہمارے گھر بالکل آس پاس تھے۔ ہم دونوں کی فیملیز ایک دوسرے کے کافی قریب تھیں اور ہم بالکل بھائیوں جیسے تھے۔‘

’بحیثیت کھلاڑی بشن سنگھ بیدی جب پاکستان کے اپنے واحد دورے پر یہاں آئے تو وہ میری والدہ کو سلام کرنے گھر آئے جس پر میری والدہ نے انھیں اپنا بیٹا بنا لیا۔‘

حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے اظہر الدین 1989 کا دورہ پاکستان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ اس دورے کے لیے منتخب ہونے والے اظہر کو رنز بنانے میں دشواری ہو رہی تھی، جب ظہیر عباس نے انھیں کراچی کے سٹیڈیم میں اسی بات پر پریشان دیکھا۔

چونکہ دونوں کھلاڑی 1985 کی عالمی چیمپئین شپ آف کرکٹ میں ایک دوسرے کے خلاف کھیل چکے تھے، اس لیے اظہر نے اپنی پریشانی ظہیر عباس سے بیان کر دی۔ ظہیر عباس نے انھیں بیٹ کی ’گرپ‘ بدلنے کا مشورہ دیا جس کی بدولت اظہر الدین اُس سیریز میں ایک نئے رنگ میں نظر آئے۔

اِسی دورے میں لاہور کے ون ڈے میں انڈین کپتان کرشنما چاری شری کانت، وقار یونس کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے اور امپائر نے انگلی اٹھا دی مگر شری کانت ’بیٹ سے گیند لگنے‘ کا گلہ کرتے رہے۔

پاکستانی کپتان عمران خان نے امپائر کو ’اوور رول‘ کرتے ہوئے بیٹسمین کو واپس بلایا مگر قسمت کی خرابی تھی کہ اسی بولر کی اگلی ہی گیند پر وہ وکٹ کے پیچھے سلیم یوسف کا شکار بنے۔

پاکستانی فاسٹ بولر عظیم حفیظ کی بھی انڈیا کے حوالے سے چند اچھی یادیں ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب میں 1983 میں انڈیا گیا، تو جو بھی کھلاڑیوں کے درمیان غصہ گرمی تھی، وہ صرف گراؤنڈ تک محدود تھی، باہر بہت دوستانہ ماحول ہوتا تھا۔ اکثر دونوں ٹیمیں ایک ہی ہوٹل میں رہا کرتی تھیں اور شام میں تو سب ہی گھل مل جاتے تھے۔‘

’1985 میں عالمی چیمپیئن شپ آف کرکٹ کا فائنل وہ پہلا موقع تھا جب دونوں ٹیمیں فائنل میں آمنے سامنے تھیں مگر وہاں بھی کوئی لڑائی جھگڑے کی صورت نہیں تھی۔ یہاں تمام ٹیمیں ایک ہی ہوٹل میں مقیم تھیں اور جب میچ نہیں ہوتا تھا تو سب لابی میں جمع ہو جاتے تھے۔ یہ تو اب ماحول کو جان بوجھ کر خراب کیا جا رہا ہے۔‘

شاہین آفریدی کا پہلے سے زیادہ ’خطرناک ورژن‘ اور بنگلہ دیش کے خلاف ’معجزاتی‘ جیتابھیشیک شرما: جارح مزاج انڈین اوپنر جنھوں نے بچپن میں ہونے والی پیشن گوئی کو حقیقت میں بدل دیاحارث کا 0-6 کا اشارہ، فرحان کا جشن اور ابھیشیک سے تلخ کلامی: پاکستان انڈیا میچ کے دوران سامنے آنے والے پانچ تنازعاتپاکستان بنگلہ دیش کو ہرا کر ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ گیا، اتوار کو انڈیا سے مقابلہ ہوگاابرار احمد اور ہسرنگا کی ’سپورٹس مین سپرٹ‘ کا چرچا: ’یہ وہ چیز ہے جو انڈین کرکٹ ٹیم کبھی نہیں سیکھ سکتی‘’شاہین آفریدی سری لنکن بلے بازوں کو مایوس کر گئے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More