"میں اپنے گلوبل صمود فلوٹیلا کے 150 ساتھیوں کے ساتھ اردن پہنچ چکا ہوں۔ ہمیں 5 سے 6 دن اسرائیل کی بدنام زمانہ جیل میں رکھا گیا۔ وہاں ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنی گئیں، پاؤں میں زنجیریں باندھی گئیں، آنکھوں پر پٹیاں بندھائیں گئیں، کتّے چھوڑے گئے اور ہمیں بندوق کی نوک پر رکھا گیا. ہم پر شدید تشدد ہوا۔ اپنے مطالبات کے لیے ہم نے قید میں تین روزہ بھوک ہڑتال کی کیونکہ کھانا، پانی، ادویات اور دیگر ضروریات تک رسائی نہیں دی گئی۔ اب ہمیں رہا کر دیا گیا ہے لیکن فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم اس ناکہ بندی کو توڑیں گے، بار بار غزہ جائیں گے، غزہ کی حفاظت کریں گے اور نسل کشی کے مرتکبوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ میں جلد پاکستان واپس آ کر فلوٹیلا کے سفر اور اسرائیلی قید کی تمام روداد سناؤں گا۔"
یہ کہنا ہے مشتاق احمد خان، جماعتِ اسلامی پاکستان کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر کا جو گلوبل صمود فلوٹیلا کا حصہ تھے۔ فلوٹیلا، ایک بین الاقوامی امدادی کشتی کا قافلہ جو اسپین سے روانہ ہو کر غزّہ کے محصور باشندوں تک انساندوستانہ مدد پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسرائیلی بحریہ نے فلوٹیلا کو منزل تک پہنچنے سے قبل روکا، عملے اور رضاکاروں کو گرفتار کیا گیا اور مختلف مقامات پر حراست میں رکھا گیا۔ مشتاق اور تقریباً 150 دیگر کارکن ابتدا میں اسرائیلی قید میں تھے؛ وہیں مختلف تشدد اور پابندیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر تین دن بھوک ہڑتال پر رہے۔ چند روز بعد انہیں رہا کر کے اردن منتقل کیا گیا، جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ ویڈیو پیغام جاری کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اردن کی سرزمین پر 150 ہمنواساتھ پہنچنے کا اعلان ایک امید بھرا لمحہ تھا. جیل کے تاریک دنوں کے بعد روشنی کا پہلا نشان۔ چند روز اسرائیلی حراست میں گزارے گئے: بند ہاتھ، زنجیروں کی خراٹیں، آنکھوں پر پٹیاں، قاتل کتّوں کی دھاڑ، اور بندوقیں جو ہر سانس پر ٹکی رہیں, تشدد کی دقّتیں ایسی تھیں کہ انسانیت سوال کرتی رہی۔ مطالبات کی خاطر تین روزہ بھوک ہڑتال نے ان کے عزم کو صوتِ حال بنایا؛ خوراک، پانی اور دواؤں سے محرومی نے مظلومانہ تکالیف کو مزید گہرا کر دیا۔
آج جب رہائی کا دن آیا تو وعدہ مضبوط ہوا۔ یہ محاصرہ ٹوٹے گا۔ بارہا غزہ تک رسائی کا عزم برقرار رہے گا، فدیہ نہیں بلکہ انصاف طلب کیا جائے گا، جنہوں نے نسل کشی کا راستہ اختیار کیا انہیں رُو بہ رُو لایا جائے گا۔ جدوجہد کو روکنا ممکن نہیں, اڈیالہ سے لے کر اسرائیلی قیدخانوں تک آواز پہنچے گی۔ جلد وطنِ عزیز واپس آ کر وہ تفصیل سے بتائیں گے کہ فلوٹیلا کا سفر کیسا رہا، قید میں کیا گزری اور کیسے عزم نے ہر مشکل کو چیر دیا۔