Getty Imagesماہرین کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے دوسری مدت کے لیے صدارت سنبھالتے ہی غزہ کے مستقبل کا ایک حیران کن حل تجویز کیا
جب دوحہ میں حماس کے مذاکراتی وفد پر اسرائیل نے حملہ کیا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ تنازع میں شدت آ چکی ہے جس کے بعد امن کی امید اور کم ہو جائے گی۔
نو ستمبر کو ہونے والے اس حملے میں ایک امریکی اتحادی ملک کی خودمختاری ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ غزہ کی جنگ کو خطے میں بڑھانے کا خطرہ بھی پیدا ہوا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ سفارت کاری مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لیکن پھر یہی لمحہ ایک معاہدے کی جانب راستہ ہموار کر گیا اور حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا اعلان بھی کیا۔
لیکن یہ معاہدہ کروانے کی خواہش اور کوشش ان سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی کی لیکن دو سال تک ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہوا۔
اگرچہ حالیہ اعلان دیرپا اور مستقل امن کی جانب پہلا قدم ہے اور بہت سی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں لیکن اگر یہ معاہدہ قائم رہتا ہے تو یہ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کی سب سے اہم کامیابی ہو گی جو دو سال تک بائیڈن اور ان کی سفارتی ٹیم کی گرفت سے دور رہی۔
تو آخر ٹرمپ نے وہ کام کیسے کر لیا جو ان سے پہلے ایک دوسرے امریکی صدر نہ کر پائے؟ بظاہر ٹرمپ کا انوکھا طریقہ اور اسرائیل سمیت عرب دنیا سے ان کے اہم تعلقات اس کی وجہ بنے۔
تاہم دیگر سفارتی کامیابیوں کی طرح یہاں کچھ ایسے عوامل بھی تھے جو ٹرمپ کے ہاتھ میں نہ تھے۔ اور نہ ہی ان سے قبل بائیڈن کے کنٹرول میں تھے۔
قریبی تعلق جو بائیڈن قائم نہ کر سکےReuters
عوامی سطح پر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو ہمیشہ مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل سے بہتر کوئی دوست نہیں۔‘ نتن یاہو ٹرمپ کو ’وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے سب سے عظیم اتحادی‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ گرم جوشی الفاظ کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی نظر آتی ہے۔
اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا اور اس امریکی پالیسی کو ترک کیا جس کے تحت غرب اردن میں اسرائیلی یہودی آبادکاری کو غیر قانونی سمجھا جاتا تھا، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا۔
جون میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ٹرمپ نے امریکی بمبار طیاروں کو بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا حکم دیا۔ شاید اسی وجہ سے ٹرمپ کو یہ موقع ملا کہ وہ پردے کے پچھے اسرائیل پر دباؤ ڈال سکیں۔
خبروں کے مطابق ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکاف نے سنہ 2024 میں نتن یاہو کو چند یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں جزوی جنگ بندی پر مجبور کر دیا تھا۔ جب اسرائیل نے جولائی میں شام پر حملہ کیا جس کے دوران ایک مسیحی چرچ بھی تباہ ہوا تو ٹرمپ نے پھر نتن یاہو پر دباؤ ڈالا اور انھیں حکمت عملی بدلنے پر مجبور کر دیا۔
کارنیگی انڈومینٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایرون ڈیوڈ ملر کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم پر جو دباو ڈالا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ’ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ ایک امریکی صدر نے کسی اسرائیلی وزیر اعظم کو کہا ہو کہ آپ کو ماننا پڑے گا ورنہ۔‘
دوسری جانب سابق امریکی صدر جو بائیڈن کا نتن یاہو حکومت سے تعلق بہت اچھا نہیں تھا۔ ان کی انتظامیہ کی حکمت عملی یہ رہی تھی کہ عوامی سطح پر اسرائیل کو گلے لگا کر رکھنا ہو گا تاکہ نجی طور پر جنگ کے بارے میں اسے قائل کیا جا سکے۔
اس کے پیچھے بائیڈن کی نصف صدی کی اسرائیل کی حمایت بھی تھی جبکہ غزہ جنگ پر ان کی ڈیموکریٹ پارٹی اندر سے تقسیم بھی تھی۔ بائیڈن جو بھی قدم اٹھاتے انھیں خطرہ ہوتا کہ ان کے حامی ان سے دور ہو جائیں گے جبکہ دوسری جانب ٹرمپ کی ٹھوس رپبلکن حمایت کی وجہ سے ان کو ایسا خطرہ نہیں ہے۔
تاہم یہ عین ممکن ہے کہ بائیڈن کی صدارت کے دوران اسرائیل امن قائم کرنے اور جنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔
ٹرمپ کی صدارت کے آٹھ ماہ کے بعد، جب ایران کو سبق سکھایا جا چکا ہے اور حزب اللہ اور غزہ دونوں ہی تباہ ہو چکے ہیں، اسرائیل کے بڑے مقاصد حاصل ہو چکے ہیں۔
حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا اہم معاہدہ تو ہو گیا، لیکن کیا جنگ بھی ختم ہو گی؟غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟غزہ میں نقل مکانی ’جس کی حالیہ دہائیوں میں مثال نہیں ملتی‘ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہےمشرق وسطیٰ اور کاروبار
دوحہ میں ہونے والے اسرائیلی حملے، جس میں ایک قطری شہری کی ہلاکت ہوئی، نے ٹرمپ کو مجبور کیا کہ وہ نتن یاہو کو ایک دھمکی دیں۔ جنگ ختم کرنی ہو گی۔
ٹرمپ نے بظاہر اسرائیل کو غزہ میں کھلا ہاتھ دے رکھا تھا۔ انھوں نے امریکی عسکری طاقت اسرائیل کو ایران کے خلاف فراہم کی۔ لیکن قطر پر حملہ ایک الگ معاملہ تھا جس کے بعد وہ عرب پوزیشن کی جانب جھکے کہ جنگ کو ختم کیسے کیا جائے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے متعدد حکام نے بی بی سی کے پارٹنر ادارے ’سی بی ایس‘ کو بتایا ہے کہ یہی وہ لمحہ تھا جس نے ٹرمپ کو دباؤ بڑھانے پر مجبور کیا کہ امن معاہدہ کروایا جائے۔
ٹرمپ کے مشرق وسطی کی ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ان کے کاروباری معاملات بھی چلتے رہتے ہیں۔ انھوں نے اس صدارتی دور کا آغاز ہی سعودی عرب کے دورے سے کیا۔ اس سال وہ دوحہ اور ابو ظہبی بھی گئے۔
ابراہام معاہدہ جس نے اسرائیل اور متعدد مسلمان ممالک کے درمیان تعلقات کو بحال کیا تھا، بشمول متحدہ عرب امارات، ان کی پہلی صدارتی مدت کا اہم سفارتی کارنامہ تھا۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کے ایڈ حسین کہتے ہیں کہ ’اس سال ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں جو وقت گزارا اس کے بعد ان کی سوچ تبدیل ہوئی۔ اس دورے کے دوران ٹرمپ اسرائیل نہیں گئے بلکہ انھوں نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر کا دورہ کیا جہاں انھیں جنگ کو ختم کرنے کا مطالبہ سننے کو ملا۔‘
دوحہ پر اسرائیلی حملے کے ایک ماہ سے کم عرصہ میں ٹرمپ اس وقت نتن یاہو کے ساتھ ہی بیٹھے تھے جب اسرائیلی وزیر اعظم نے قطر کو فون کیا اور معافی مانگی۔ اسی دن نتن یاہو نے ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر دستخط کیے جس کی حمایت خطے کے مسلمان ممالک بھی کر رہے تھے۔
اگر ٹرمپ کے نتن یاہو سے تعلق نے انھیں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا موقع دیا تو مسلم سربراہان مملکت کے ساتھ ان کی ذاتی تاریخ کی وجہ سے وہ ان کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے اور انھیں آمادہ کرنے میں کہ حماس کو اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے راضی کریں۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے جان آلٹرمین کہتے ہیں کہ ’ایک بات واضح طور پر ہوئی کہ ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ بلواسطہ طور پر حماس پر دباو ڈالنے کا بھی راستہ نکالا۔‘
’اس سے بہت فرق پڑا۔ اپنے وقت کے حساب سے یہ کام کرنے اور فریقین کی خواہشات کے سامنے ہار نہ ماننا ایک ایسا مسئلہ تھا جو ماضی کے صدور کو درپیش رہا۔ لیکن ٹرمپ نے یہ کامیابی سے کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’شاید ٹرمپ کی اسرائیل میں نتن یاہو سے بھی زیادہ مقبولیت ایک اور وجہ تھی جس سے ان کو فائدہ ہوا۔‘
اسرائیل نے 1200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے سمیت غزہ سے انخلا کی حامی بھی بھری ہے۔ حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا جن میں وہ بھی شامل ہیں جو اب زندہ نہیں۔ یوں اب اس جنگ کا خاتمہ تصور کیا جا سکتا ہے جس میں 67 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یورپی ممالک کا اثر و رسوخ جس نے ’ڈیڈ لاک‘ ختم کیا
عالمی سطح پر غزہ میں اسرائیلی کارروائی کی مذمت نے بھی صدر ٹرمپ کی سوچ پر اثر ڈالا۔ فلسطینیوں کے لیے تباہی اور انسانی بحران کے لحاظ سے زمینی صورتحال بہت ہی بے مثال اور تباہ کن ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران نتن یاہو حکومت عالمی سطح پر مسلسل تنہائی کا شکار ہو رہی تھی۔ اسرائیل نے غزہ میں خوراک پہنچانے کا کنٹرول بھی خود سنبھال لیا تھا جس کے بعد غزہ میں منصوبہ بندی کے تحت حملے کیے گئے۔
کئی یورپی ممالکنے فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کی سربراہی میں فیصلہ کیا کہ وہ واشنگٹن کی اسرائیل کی غیرمتزلزل حمایت میں اس کا مزید ساتھ نہیں دیں گے۔
امریکیوں اور یورپی اتحادیوں کے درمیان ایک تاریخی تقسیم اس وقت ہوئی جب سفارت کاری کے اہم معاملات اور اسرائیل-فلسطین تنازع کے مستقبل کی بات ہوئی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے فرانس کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب اس نے کہا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ اس کے بعد برطانیہ نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کی۔ دونوں ممالک کی جانب سے یہ اعلان اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس تنازع کے حل کے لیے ایک سفارتی راستہ بحال کرنا چاہتے تھے۔
آخرکار ٹرمپ کو غزہ کے مستقبل کے لیے یورپ-عرب اتحاد اور اسرائیلی قوم پرستوں کے درمیان ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ لہذا ٹرمپ نے خلیج میں اپنے دوستوں کا انتخاب کیا۔
فرانسیسی-سعودی امن منصوبے کے تحت عرب ممالک نے بھی حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت جاری کی اور اس گروپ سے غزہ پر اپنی حکمرانی ختم کرنے اور آزاد ریاست کے تحت اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ عربوں اور یورپیوں کی سفارتی جیت تھی۔ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ کئی معاملات میں فرانس-سعودی منصوبے پر مبنی ہے جس میں حتمی فلسطینی ’ریاست‘ کا حوالہ بھی شامل ہے، اس کے باوجود کہ یہ مبہم اور مشروط ہے۔
ٹرمپ نے ایک جانب ترکی، قطر اور مصر سے حماس پر دباؤ ڈالنے کا کہا ہے اور خود اُنھوں نے نتن یاہو پر بے مثال دباؤ ڈالا کہ وہ یہ جنگ ختم کریں۔
Reutersٹرمپ کے غیر روایتی انداز نے ڈیڈ لاک ختم کیا
ٹرمپ کے غیر روایتی انداز میں اب بھی اتنی صلاحیت ہے کہ سب دنگ رہ سکتے ہیں۔ یہ جارحانہ اور سخت زبان کے استعمال سے شروع ہو کر قدرے روایتی انداز میں ڈھل جاتا ہے۔
اپنے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ نےشمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو ’چھوٹا راکٹ مین‘ قرار دیا تھا جبکہ صدر مختلف مواقع پر اُن کی تضحیک سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان بیانات نے امریکہ کو شمالی کوریا کے ساتھ جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے عہد صدارت کا آغاز غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا اور وہاں ایک خوبصورت تفریحی ریزورٹ بنانے کی چشم کشا تجویز سے کیا۔ صدر کے اس بیان نے مسلم ممالک کے رہنماوں کو ناراض کیا جبکہ مشرق وسطیٰ کے سفارت کار بھی اس تجویز پر حیران رہ گئے۔
لیکن صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ کم و بیش وہی ہے جو سابق صدر بائیڈن غزہ کے حوالے سے پیش کرنے والے تھے۔ یہ وہی منصوبہ ہے جس کی امریکہ کے اتحادی ممالک بھی عرصہ دراز سے وکالت کر رہے تھے۔
ٹرمپ نے ایک روایتی نتیجے کے لیے ایک بہت غیر روایتی راستہ اختیار کیا۔ یہ سب کچھ بہت گڈ مڈ ہو گیا تھا۔ یہ وہ سفارت کاری نہیں تھی جو یونیورسٹیز میں پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن بہرحال اس کا نتیجہ موثر تھا۔
سنیچر کو نوبل کمیٹی اس سال کے امن انعام یافتہ کا اعلان کرے گی اور جب کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ٹرمپ وصول کنندہ ہوں گے۔ لیکن یہ امکان تقریباً اتنا کم نہیں لگتا جتنا اس نے چند ہفتے پہلے تھا۔
حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا اہم معاہدہ تو ہو گیا، لیکن کیا جنگ بھی ختم ہو گی؟غزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ: اب کیا ہو گا اور کن نکات پر ابہام باقی ہے؟غزہ میں نقل مکانی ’جس کی حالیہ دہائیوں میں مثال نہیں ملتی‘سات اکتوبر حملوں کے بعد ایک یہودی خاندان نے اسرائیل منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، لیکن دوسرا اسے چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا؟’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟