افغانستان کا پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام، پاکستانی فوج کے ترجمان کی تردید نہ تصدیق: ’نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ہو گی‘

بی بی سی اردو  |  Oct 10, 2025

افغانستان کی وزراتِ دفاع کی جانب سے پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی اور کابل سمیت دو مقامات پر فضائی حملوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر افغان وزاتِ دفاع کے سرکاری اکاؤنٹ سے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ایک بار پھر پاکستان نے افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور کابل اور ڈیورنڈ لائن کے قریب پکتیکا کے علاقے میں ایک بازار پر بمباری کی ہے۔‘

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعرات اور جمعہ کی شب پاکستان اور افغانستان میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مختلف مقامات کو فضائی اور ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔

اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا تاہم جمعہ کی سہ پہر پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے اس بارے میں سوالات کیے گئے توانھوں نے اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ’پاکستانی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

افغان وزراتِ دفاع نے پاکستان کے مبینہ حملے کو ایک ’پُرتشدد‘ اور ’قابلِ مذمت عمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی تاریخ میں ایسے اقدام کی مثال نہیں ملتی۔ ’ہم افغانستان کی فضائی حدود کی اس خلاف ورزی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اپنی خودمختاری کا دفاع ہمارا حق ہے۔‘

طالبان کی وزراتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے بعد اگر صورتِحال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو اس کے نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر عائد ہو گی۔

ادھر انڈیا کے دورے پر موجود افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کابل اور دیگر علاقوں میں متعدد دھماکوں (جنھیں مبینہ طور پر پاکستان کے حملے قرار دیا جا رہا ہے) پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے پاس یہ اطلاع ہے کہ کابل میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن رات بھر کی تلاش کے بعد کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی اور ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ وہ آواز کس چیز کی تھی آیا وہاں معدنیات میں کام کرنے والوں نے کوئی دھماکہ کیا یا کوئی اور بات ہے۔‘

افغانستان کے وزیر خارجہ نے کہا ’تاہم دور دراز سرحدی علاقوں میں کچھ حملے ہوئے ہیں جن کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اور اسےپاکستان حکومت کی غلطی سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل طاقت کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے۔‘

انھوں نے کہا ’ہم نے تفاہم اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ہماری جغرافیائی حیثیت ہمیں ایک اہم تجارتی راہداری بننے کا موقع دیتی ہے۔ اس ےس فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم جیسے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ویسے ہی ہم پاکستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن یہ دونوں طرف سے ہو سکتا ہے، ایک طرف سے یہ ممکن نہیں ہے۔‘

امیر خان متقی نے نے کہا ’اس لیے آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے اور افغانوں کے حوصلے کو نہیں آزمانا چاہیے۔ اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرات کرتا ہے تو اسے ایک بار انگریز، سوویت یونین (یو ایس ایس آر) امریکہ اور نیٹو سے پوچھنا چاہیے۔ وہ آپ کو سمجھائیں گے کہ افغانستان کے ساتھ ایسے کھیل کھیلنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔‘

https://twitter.com/MoDAfghanistan2/status/1976596821813457260

جمعہ کی سہ پہر پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے دو مرتبہ پوچھا گیا کہ آیا پاکستانی فورسز نے سرحد پار افغانستان میں فضائی کارروائیاں کی ہیں یا نہیں۔

پہلی مرتبہ اس سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس کی تصدیق یا تردید کیے بغیر کہا کہ ’یہ جو آپ نے سٹرائیک کی بات کی اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اور افغان (طالبان حکومت کے) ترجمان کے بیان کو نوٹ کیا گیا ہے۔‘

جب دوسری بار اُن سے یہی سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستانی فورسز نے گذشتہ شب کابل میں چار مقامات پر فضائی کارروائیاں کی ہیں اور اس میں ٹی ٹی پی کے رہنما نور ولی محسود کو نشانہ بنایا گیا ہے؟

اس پر ترجمان پاکستانی فوج نے کہا کہ ’میں آپ کو یہ واضح کر چکا ہوں کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔ پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہییں، وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

خیال رہے جمعرات اور جمعہ کی شب دونوں ملکوں میں صحافیوں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے ایسے غیرمصدقہ دعوے کیے گئے کہ پاکستان کی جانب سے مفتی نور ولی محسود کو کابل میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

طالبان کی نئی حکمت عملی، دوحہ معاہدہ یا سیاسی چپقلش: خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت کیسے آئی؟پاکستان اور چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش یا ’سکیورٹی گارنٹی‘: طالبان وزیر خارجہ کا پہلا دورہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟کیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟’کابل میں انڈیا کی دلچسپی سے پاک افغان تعلقات متاثر نہیں‘

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ شب تصدیق کی تھی کہ کابل شہر میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کسی جانی نقصان کے بارے میں اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔

ایکس پر اپنے بیان میں انھوں نے عوام سے کہا تھا کہ وہ پریشان نہ ہو۔

انھی افواہوں کے بیچ سوشل میڈیا پر مفتی نور ولی محسود کا ایک آڈیو بیان بھی منظرِ عام پر آیا جس میں وہ خود پر حملے کی تردید کرتے سنائی دیتے ہیں، تاہم بی بی سی اس آڈیو کی آزادنہ تصدیق نہیں کر پایا ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک تجویز یہ ہے کہ اگلے ایک دو روز میں ایک وفد کابل بھیجا جائے اور افغان حکمرانوں کو بتایا جائے کہ یہ اب ناقابلِ بداشت ہو گیا ہے۔‘

سرد مہری کا شکار تعلقاتAFP

افغانستان میں سنہ 2021 میں افغان طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری دیکھی جا رہی ہے۔ اور ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان اور سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کی گئی ہیں۔

پاکستان کو یہ گلہ رہا ہے کہ کالعدمتحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور یہ سرحد پار پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔

پاکستان کے سکیورٹی حکام ملک میں ہونے والے بیشتر حملوں کا ذمہ دار تحریکِ طالبان پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے افغان طالبان سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم افغان طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور افغانستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے گذشتہ برس دسمبر میں ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں‘ میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن کی تصدیق کی تھی۔

افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ’فضائی حدود‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

پاکستانیدفتر خارجہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن پاکستان کی طرف سے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کیا گیا۔‘

افغان طالبان حکومت نے اس ’فضائی کارروائی‘ پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور اور خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس کا جواب دے گا۔

اس سے قبل اپریل 2022 میں بھی افغان طالبان نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ کنڑ اور خوست میں پاکستان اِیئر فورس کی کارروائی میں 20 بچے مارے گئے تھے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ان حملوں کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

اس الزام کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دہشتگرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغانستان کی طالبان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔

خوست میں مقامی ذرائع نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ 16 اپریل سنہ 2022 کی صبح سپیرا ضلع کے چار دیہات میں ہونے والے حملوں میں متعدد خاندانوں کے کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے تاہم ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ بعد ازاں یونیسیف نے ان حملوں میں 20 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

خواجہ آصف کا اپنے خطاب میں مزید کہنا تھا کہ وہ تین سال قبل افغانستان گئے تھے تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر بھی ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ’ہم نے ان (افغان حکام) سے برملا کہا کہ آپ کے ملک سے ہمارے ملک کے کم از کم دو صوبوں میں دہشتگردی ہو رہی ہے۔‘

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انھوں نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں موجود چھ، سات ہزار افراد کو کنٹرول کریں اور ان کی پناہ گاہوں کو بند کریں۔

’انھوں (افغان حکام) نے کہا کہ آپ ہمیں 10 ارب روپے دے دیں تو ہم ان کو اپنے مغربی صوبوں میں لے جا کر بسا دیں گے۔ ہم انھیں یہاں سے منتقل کر دیں گے اور آپ کی سرحد کے نزدیک ان کی پناہ گاہیں ختم ہو جائیں گی۔‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ افغان حکام اس بات کی ضمانت دینے کے تیار نہیں تھے کہ یہ افراد واپس نہیں آئیں گے اور اس لیے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔

مفتی نور ولی محسود کون ہیں؟

پاکستان اور افغانستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ شب ہونے والے حملوں میں تحریکِ طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود کی ہلاکت کے دعوے سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں ان کی قیادت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی ملک کے اندر کارروائیوں کی تعداد بڑھی ہے اور یہ شدت پسند تنظیم بظاہر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے بڑا اور مشکل چیلینج بن گئی ہے۔

نور ولی محسود کو فروری 2018 میں خالد سجنا کی ہلاکت کے بعد حلقہ محسود کے شدت پسندوں کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ مفتی نور ولی سابق امیر بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی رہے ہیں اور ماضی میں تحریک کی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ہیں۔

پھر اسی سال (جون سنہ 2018 میں) مفتی نور ولی محسود کو امریکی ڈرون حملے میں اُس وقت ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

نور ولی محسود جنوبی وزیرستان کے علاقے تیارزہ میں پیدا ہوئے اور وہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں۔

طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جب پاکستانی افواج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو مفتی نور ولی محسود نے اس محاذ میں پاکستانی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔

سنہ 2014 میں امریکی ڈرون نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سروکئی میں نور ولی محسود کے ایک ٹھکانے کو بھی نشانہ بنایا تھا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے اور آٹھ طالبان مارے گئے تھے۔

نو منتخب امیر مفتی نور ولی محسود نے690 صفحات پر مبنی ’انقلاب محسود، ساؤتھ وزیرستان - فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘ نامی ایک تفصیلی کتاب بھی لکھی تھی۔

اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر کارساز، کراچی اور راولپنڈی میں حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس سے قبل طالبان اس سے انکار کرتے رہے تھے۔

مفتی نور ولی محسود کے بقول اس کا مقصد یہ تھا کہ شدت پسند ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکیں اور انھیں مستقبل میں نہ دہرائیں۔ ایک اور وجہ ان کے بقول تجزیہ نگاروں، محققین اور مورخین کی ’تصحیح‘ کی جا سکے۔

کتاب میں مفتی نور ولی نے اعتراف کیا تھا کہ طالبان گروہ اور تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحریک ہی کی چھتری تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں ملوث رہیں۔

کتاب میں اپنی ذرائع آمدن کے بارے میں تحریک نے بتایا کہ سال 2007 میں جنوبی وزیرستان میں اہلکاروں کے علاوہ مختلف قسم کے اسلحے اور گاڑیوں سے لیس ایک فوجی قافلے کے اغوا کے واقعے کے بعد حکومت سے ایک معاہدے کے تحت یہ سب کچھ مبینہ طور پر چھ کروڑ روپے کے بدلے واپس لوٹایا گیا۔

پاکستان اور چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش یا ’سکیورٹی گارنٹی‘: طالبان وزیر خارجہ کا پہلا دورہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟دولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟طالبان کی نئی حکمت عملی، دوحہ معاہدہ یا سیاسی چپقلش: خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت کیسے آئی؟کیا طالبان حکومت کی انڈیا سے بڑھتی قربت ’افغانستان میں پاکستان کو شکست‘ دینے کی کوشش ہے؟’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More