Getty Images
فلسطین لبریشن اتھارٹی کے رہنما یاسر عرفات ہمیشہ انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ’میری بڑی بہن‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ انھوں نے اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں دہلی میں منعقدہ ایک سربراہی اجلاس سے بطور ’(فلسطینی) ریاست کے رہنما‘ خطاب بھی کیا۔
عصری تاریخ کے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اندرا گاندھی اور یاسر عرفات کے درمیان ناقابل یقین باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ تھا۔ اور یہ رشتہ صرف ان دونوں شخصیات کی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا عکس انڈین اور فلسطینی اقوام میں بھی ملتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ گاندھی سے لے کر جواہر لعل نہرو اور اُن کی بیٹی اندرا تک، سبھی انڈین رہنماؤں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کی بھرپور حمایت کی اور فلسطینی سرزمین میں عزت کے ساتھ جینے کے اُن کے اُس حق کو تسلیم کیا، جو اُن سے چھین لیا گیا تھا۔
سنہ 1947 کے بعد سے ہر سال سینکڑوں فلسطینی طلبا میڈیکل اور انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپس (وظیفہ) پر انڈیا آتے رہے ہیں اور انڈیا نے بھی اپنے مالی حالات کی پرواہ کیے بغیر طویل عرصے تک سالانہ بنیادوں پر فلسطین میں امداد اور دیگر سامان بھیجا تاکہ فلسطینیوں کی مدد ہو سکے۔
یہ رجحان 1980 کی دہائی تک بڑے پیمانے پر جاری رہا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
سنہ 1947 کے بعد سے انڈیا نے ایک ریاست کے طور پر نوآبادیاتی تسلط کے خلاف مؤقف اختیار کیے رکھا اور اس موقف کی سب سے بڑی مثال فلسطین کے ساتھ انڈیا کی مسلسل یکجہتی تھی۔ دہلی نے نہ صرف فلسطینیوں کی حالت زار کو تسلیم کیا ہے بلکہ ہمیشہ اُن کے حق کی بھرپور حمایت کی۔
سنہ 1947 میں جب انڈیا کو آزادی ملے ابھی صرف تین ماہ ہی ہوئے تھے تو اِس نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر سخت اعتراض کیا تھا اور اسرائیل کو اقوام متحدہ کا رُکن ملک بنانے کی بھی مخالفت کی تھی۔
دہلی کے اس موقف کی بنیاد شاید اس حقیقت میں پیوست تھی کہ فلسطین اور انڈیا دونوں نے نوآبادیاتی مخالف جدوجہد کی مشترکہ تاریخ دیکھی تھی۔
سنہ 1974 میں، انڈیا دنیا کی پہلی ایسی غیر عرب ریاست بنا جس نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کے واحد جائز نمائندہ کے طور پر تسلیم کیا اور اگلے سال ہی پی ایل او کا دفتر دہلی میں کھولا گیا۔
یہاں تک کہ انڈیا نے 18 نومبر 1988 کو فلسطین کو ایک ’ریاست‘ کے طور پر تسلیم کیااور چند سال بعد مغربی کنارے کے علاقے رام اللہ میں انڈین سفارتخانہ بھی کھول دیا۔
فلسطین کے دوست سے اسرائیل کے دوست تکGetty Imagesوزیر اعظم اندرا گاندھی فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے ساتھ دہلی میں (29 مارچ 1980)
مگر اب ایک یکسر مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔
دو سال سے زائد عرصے سے جب غزہ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی انسانی تباہی کا سامنا کر رہا ہے تو ریاستی سطح پر انڈیا کی خاموشی اور اسرائیل کی مذمت کرنے میں ناکامی نے اندرون اور بیرون ملک بہت سے مبصرین کو دنگ کر دیا ہے۔
انڈیا نے اقوام متحدہ میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی چار بڑی قراردادوں پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اوراس دوران انڈین وزیر اعظم نے متعدد مرتبہ اپنے اسرائیلی ہم منصب سے فون پر بات کر کے اپنی سپورٹ کا یقین دلایا۔
جنوبی ایشیا میں اپنے آپ کو ایک سرکردہ کھلاڑی کے طور پر دیکھنے کی خواہش کے باوجود، غزہ کے معاملے پر انڈیاکا حالیہ موقف اُس کے دوسرے ہم عصر ممالک سے واضح طور پر مختلف تھا۔
مؤرخ زویا حسن کے مطابق ’انڈیا کی خاموشی نہ صرف ایک سنگین اخلاقی ناکامی ہے، بلکہ اس کی اپنی ریاستی میراث کے ساتھ تاریخی غداری بھی ہے۔‘
زویا حسن کا خیال ہے کہ فلسطین کی حمایت، جو کبھی انڈیا کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون تھا، اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔
انڈیا کی معروف مصنفہ اروندھتی رائے نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں تبصرہ کیا ہے کہ نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ انڈیا کے عام لوگ بھی آج فلسطین کے لیے اپنی حمایت کھو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک کے کسی حصے میں اسرائیل کے خلاف شاید ہی ایک لفظ بھی بلند ہو۔
لیکن ریاستی اور سماجی سطح پر یہ ڈرامائی تبدیلی کیسے رونما ہوئی؟
انڈیا جو کبھی بیرونی دنیا میں فلسطینیوں کا سب سے بڑا دوست تھا، اس نے اسرائیل سے ہاتھ کیوں ملایا؟
اس رپورٹ میں ان تمام پیچیدہ سوالات کے مختصر جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
Getty Imagesانڈیا میں پہلی بی جے پی کی پہلی حکومت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور یاسر عرفاتاسرائیل کو تسلیم کرنے کا پس منظر
انڈیا کی فلسطین پالیسی میں یہ تبدیلی 1990 کی دہائی کے اوائل سے شروع ہوئی، جب انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
سابق اعلیٰ انڈین سفارتکار اور امریکہ میں تعینات رہنے والے سابق سفیر رونن سین شروع ہی سے اس عمل میں شامل تھے۔
بی بی سی بنگلہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں رونن سین کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے انڈیا کی جانب سے اس اقدام کا آغاز 1985 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم شیمون پیریز اور راجیو گاندھی کے درمیان ملاقات سے ہوا تھا۔
رونن سن کے مطابق ’شیمون پیریز کی تکثیریت، سیکولرازم اور جمہوریت کے لیے اُن کی وابستگی نے واقعی راجیو گاندھی کو متاثر کیا تھا۔‘
’شیمون پیریز انھیں یہ باور کرانے میں بھی کامیاب رہے کہ جس طرح پورے جنوبی ایشیا میں انڈیا ’جمہوریت کا واحد جزیرہ‘ ہے، بالکل اُسی طرح اسرائیل مغربی ایشیا میں ہے۔‘
دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ انڈیااور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔
اس کے بعد وزیر اعظم راجیو گاندھی نے رونن سین کو ہدایت کی کہ وہ اگلے چار سالوں کے اندر اس مقصد (اسرائیل کو سفارتی شناخت دینے) کے حصول کے لیے ’روڈ میپ‘ تیار کریں اور اس پر کام کا آغاز کریں۔
اِن اقدامات میں ڈیوس کپ ٹینس میچوں میں اسرائیلی قومی پرچم کی نمائش، انڈیاسرزمین پر منعقد ہونے والے بین الاقوامی تجارتی میلوں میں اسرائیلی پویلین کا قیام، اس کے بعد بمبئی میں اسرائیلی قونصل خانے کو اپ گریڈ کرنا اور اس کے کام کے دائرہ کار کو بڑھانا شامل ہیں۔
تاہم، 1989 کے انتخابات میں راجیو گاندھی کی شکست کے بعد انڈیا میں اقتدار میں آنے والی وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی قیادت والی دو قلیل مدتی حکومتوں میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں کام کو آگے بڑھانے میں کوئی خاص جوش نہیں دکھایا۔
راجیو گاندھی کے قتل کے چند ماہ بعد اسرائیل کو بالآخر کانگریس کے اگلے وزیر اعظم، پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں انڈیا سے سفارتی شناخت مل گئی۔
عرفات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلانGetty Imagesامریکہ میںانڈیا کے سابق سفیر رونن سین جو وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں
انڈیا کی طرف سے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے سے عین قبل، پی ایل او کے غیر متنازع رہنما یاسر عرفات کو انڈیا کے دورے کی دعوت دی گئی۔
کانگریس کے رہنما منی شنکر اُس وقت لوک سبھا میں پارٹی کے رکن پارلیمنٹ تھے اور اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی انھوں نے فارن سروس میں ملازمت چھوڑ کر فعال سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انھوں نے حال ہی میں ایک یادداشت میں لکھا ہے کہ یاسر عرفات کے دورے کے دوران انھیں فلسطینی رہنما سے نجی طور پر ملاقات کا موقع ملا۔
’بہت سی قیاس آرائیاں گردش کر رہی تھیں کہ نرسمہا راؤ اسرائیل کو مکمل سفارتی سطح پر تسلیم کرنے والے ہیں۔ میں نے عرفات سے کہا، صرف آپ ہی انڈیا کو تباہی کے اس راستے پر جانے سے روک سکتے ہیں‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’عرفات نے میری بات توجہ سے سُنی، لیکن کوئی تبصرہ نہیں کیا۔‘
’اگلے دن میں نے بے بسی سے دیکھا جب وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا اور یاسر عرفات، جو ان کے پاس بیٹھے تھے، نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا‘
درحقیقت اس وقت دنیا میں بہت کم لوگ جانتے تھے کہ ناروے کی ثالثی میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادتوں کے درمیان خفیہ مذاکرات جاری تھے اور مشہور ’اوسلو معاہدہ‘ حتمی شکل اختیار کرنے سے کچھ ہی دوری پر تھا۔
سنہ 1993 کے اوسلو معاہدے نے عرفات کی قیادت میں پی ایل او کے لیے تیونس میں جلاوطنی سے غزہ اور مغربی کنارے واپس آنے کی راہ ہموار کی۔
تاہم، اسرائیل نے معاہدے میں جو دیگر وعدے کیے تھے ان میں سے بہت سے بعد میں پورے نہیں کیے گئے۔
منی شنکر کا خیال ہے کہ یاسر عرفات نے سوچا ہو گا کہ اگر انڈیا اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کر لیتا ہے تو شاید یہ فلسطین کے لیے فائدہ مند ہو گا کہ وہ ’دو ریاستی حل‘ حاصل کر لے جس کا 1967 میں اقوام متحدہ نے وعدہ کیا تھا۔
لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا بلکہ اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت نے فلسطینیوں کو انڈیا سے مزید دور کر دیا ہے۔
مودی کے دور حکومت میں معاملات سنگین ہو گئےGetty Imagesانڈین کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی دہلی میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کے ساتھ
دہلی میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر اور مؤرخ زویا حسن کا کہنا ہے کہ فلسطین کے لیے انڈیا کی حمایت 1992 کے بعد کم ہونا شروع ہوئی، لیکن 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس نے سنگین رخ اختیار کیا۔
’انڈیا میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے قومی مفادات، دفاعی تعاون اور اقتصادی حقیقت پسندی کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دیا ہے۔‘
زویا حسن کہتی ہیں کہ ’یہ قربت اور بھی بڑھ گئی، خاص طور پر 1999 میں کارگل جنگ کے بعد، جب انڈیا نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اسرائیل سے دفاعی ساز و سامان درآمد کرنا شروع کیا۔ اب انڈیا آہستہ آہستہ اسرائیل کا سب سے بڑا دفاعی خریدار بن گیا ہے۔‘
اور اس عمل کو سب سے بڑا دھچکا انڈیا اور فلسطین کے درمیان دیرینہ اعتماد کے رشتوں کو لگا ہے۔
زویا حسن کے الفاظ میں ’مودی کی بی جے پی حکومت کے دوران، انڈیا اور اسرائیل کے درمیان اس سٹریٹجک شراکت داری نے ایک مختلف جہت اختیار کرنا شروع کی۔ انڈیا نے بھی ’سخت گیر قوم پرستی‘ اور ’سکیورٹی فرسٹ کے نظریے‘ کے اسرائیلی برانڈ کو تیزی سے اپنانا شروع کیا۔‘
’وہ آہستہ آہستہ اس اخلاقی اور انسانی موقف سے دور ہو رہے ہیں جس پر انڈیا پچھلی کئی دہائیوں سے یقین رکھتا ہے۔‘
وہ ’اخلاقی وضاحت‘ سے ’ابہام‘ کی طرف اس تبدیلی کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انڈیا کے اخلاقی کمپاس کا رُخ بالکل بدل گیا ہے۔
زویا حسن کے مطابق ’اس کے نتیجے میں، خاص طور پر گذشتہ دو برسوں میں جب غزہ پر تباہ کن حملے ہوئے اور55000 سے زیادہ مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے، انڈیا نے اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔‘
زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ رائے عامہ یا ملک کی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے انڈیا سے اپنی فلسطین نواز خارجہ پالیسی پر واپس آنے کا کوئی پرزور مطالبہ نہیں ہے۔
زویا حسن کے الفاظ میں ’جیسے جیسے انڈین سیاست دائیں بازو کی طرف منتقل ہوئی ہے، عام لوگوں کا اسرائیل کی طرف نقطہ نظر بھی اسی کے مطابق تیار ہوا ہے۔‘
Getty Imagesتاریخ دان اور پروفیسر زویا حسن (فائل فوٹو)
لگ بھگ دو سال قبل پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کے دوران انڈین شائقین نے میدان میں اسرائیل کی حمایت میں نعرے لگائے، پوسٹرز اور بینرز لے آئے۔
دہلی میں اسرائیلی سفیر نے فوری طور پر اس کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
پیو ریسرچ کے ایک حالیہ سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کم از کم 34 فیصد انڈین غزہ پر اسرائیل کے حملے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 29 فیصد انڈین اسرائیل کے حملوں پر معترض ہیں۔
سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ انڈیا میں اسرائیل کے حامیوں کی تعداد درحقیقت بہت سے مغربی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
Getty Imagesاسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اپنے دورہ انڈیا (2018) کے دوران تاج محل کے سامنے اپنی اہلیہ سارہ کے ساتھ ’انڈین اب فلسطینیوں سے محبت نہیں کرتے‘
اروندھتی رائے نے حال ہی میں نیویارک میں ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ چند سال قبل انڈیاکے عام لوگوں میں فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے جو حمایت اور محبت تھی، وہ اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
مہدی حسن سے گفتگو میں انھوں نے کچھ دن پہلے کا ایک ذاتی تجربہ بھی شیئر کیا۔
اروندھتی رائے نے کہا کہ ’میں بیروت گئی اور فلسطینیوں سے بات کی اور ہم مسئلہ فلسطین پر انڈیا کے بدلے ہوئے موقف کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‘
’اُن میں سے بہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ کے ملک میں حکومت بدل گئی ہے، ان کی پوزیشن بدل گئی ہے، لیکن ملک کے عام لوگوں کو پھر بھی ہم سے محبت کرنی چاہیے۔‘
اروندھتی رائے درحقیقت یہ مانتی ہیں کہ اگرچہ انڈیا کبھی فلسطین کا دوست ملک تھا لیکن اب وہ ان کا دوست نہیں رہا ہے۔ انھوں نے وہ وقار بھی کھو دیا ہے جو انڈیا کو کبھی مظلوم لوگوں کے ساتھی کے طور پر حاصل تھا۔
انھوں نے مہدی حسن کو مثال بھی دی اور کہا کہ غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملے کے بعد انڈیا میں عملی طور پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔
’اور اگر لوگوں کا ایک چھوٹا سا ہجوم بھی اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اکٹھا ہو جائے تو پولیس یا انتظامیہ کو آ کر اسے ہٹانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، سڑک پر موجود عام لوگ آئیں گے اور پہلے اسے منتشر کریں گے۔‘
Getty Imagesتل ابیب میں ایک بلند و بالا عمارت پر نتن یاہو اور مودی کی تصویروں والا ایک پوسٹر، جس میں عبرانی میں لکھا گیا ہے ’نتن یاہو اب ایک اور قطار میں‘
اروندھتی رائے کو یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ بی جے پی کی ہندوتوا قوم پرستی اور اسرائیل کی صیہونیت کے درمیان نظریاتی مماثلت نے ان دونوں طاقتوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا ہے۔
انڈیا جو تقریباً اسی فیصد ہندوؤں کا ملک ہے، آزادی کے بعد کے کم از کم پہلے پچاس برسوں تک فلسطین، جو تقریباً سو فیصد مسلم اکثریتی ہے، کی حمایت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت انڈین ریاست کی پالیسی میں میں سیکولرازم، اخلاقیات یا انسانیت غالب نظر آتی تھی۔
لیکن انڈیا میں بہت سے مبصرین، جیسے اروندھتی رائے، اب اس بات پر متفق ہیں کہ مذہبی تقسیم فلسطینیوں اور انڈینزکے درمیان دوری پیدا کرنے کا ایک بڑا عنصر ہے، انڈین عوام کا ایک بڑا حصہ فلسطین کو اسرائیلی نظروں سے دیکھنا شروع کر رہا ہے۔
اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟فلسطین پر اقوام متحدہ کی قرارداد پر اسرائیل برہم، انڈیا کا کیا موقف تھا؟کارگل کی جنگ سے آپریشن سندور تک: انڈیا اور اسرائیل کا تعلق جو ابتدائی مخالفت کے بعد نظریاتی اور سٹریٹجک اتحاد میں بدل گیاجب اسرائیل کے وزیر خارجہ موشے دایان بھیس بدل کر انڈیا کے خفیہ دورے پر آئےمودی کی اسرائیل سے اظہار یکجہتی پر بحث: ’منی پور کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کی ضرورت ہے‘اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟