بڑی بڑی ٹیک کمپنیاں مصنوعی ذہانت کی خدمات کروڑوں انڈین شہریوں کو مفت کیوں فراہم کر رہی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Nov 09, 2025

رواں ہفتے سے کروڑوں انڈین شہریوں کو مصنوعی ذہانت کے پلیٹفارم چیٹ جی پی ٹی کے نئے اور کم قیمت ’گو‘ نامی اے آئی چیٹ بوٹ تک ایک سال کے لیے مفت رسائی حاصل ہوگی۔

چیٹ جی پی ٹی کے مالکان کی جانب سے یہ پیشکش حالیہ ہفتوں میں گوگل اور پرپلیکسی اے آئی کے اسی نوعیت کے اعلانات کے بعد سامنے آیا ہے۔

دونوں کمپنیوں نے انڈین موبائل نیٹ ورکس کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ صارفین کو اپنی اے آئی سروسز تک ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے مفت رسائی دے۔

پرپلیکسی نے ملک کی دوسری بڑی موبائل نیٹ ورک کمپنی ’ایئرٹیل‘ کے ساتھ شراکت کی ہے، جب کہ گوگل نے انڈیا کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی 'ریلائنس جیو' کے ساتھ اشتراک کیا ہے، تاکہ ماہانہ ڈیٹا پیکجز کے ساتھ مفت یا رعایتی اے آئی ٹولز فراہم کیے جا سکیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی یہ پیشکشیں محض سخاوت نہیں بلکہ سوچے سمجھے سرمایہ کاری کے منصوبے ہیں۔ یہ لوگ انڈیا کے ڈیجیٹل مستقبل پر ایک طویل المدتی داؤ لگا رہے ہیں۔

کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے تجزیہ کار ترن پاٹھک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کمپنیوں کا ’منصوبہ یہ ہے کہ پہلے انڈین صارفین کو جنریٹیو اے آئی کا عادی بنایا جائے تاکہ پھر بعد میں ان سے اس کی قیمت وصول کی جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں بڑے پیمانے پر صارفین اور نوجوان آبادی موجود ہے۔ دیگر بڑی منڈیاں جیسے چین بھی صارفین کی تعداد میں انڈیا کا مقابلہ کر سکتی ہیں، مگر وہاں کا سخت ریگولیٹری ماحول غیر ملکی کمپنیوں کے لیے رکاوٹ ہے۔‘

اس کے برعکس انڈیا کا ڈیجیٹل بازار کھلا اور مسابقتی ہے، جس سے عالمی ٹیک کمپنیاں لاکھوں نئے صارفین کو اپنی اے آئی ماڈلز کی تربیت کے لیے شامل کرنے کا موقع حاصل کر رہی ہیں۔

بی بی سی نے اوپن اے آئی، پرپلیکسی اور گوگل سے اس بارے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کمپنیوں نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

انڈیا میں 90 کروڑ سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین ہیں اور یہاں کا ڈیٹا دنیا میں سب سے سستا سمجھا جاتا ہے۔ آن لائن آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور بیشتر انٹرنیٹ صارفین کی عمر 24 سال سے کم ہے، جو اپنی روزمرہ زندگی، کام اور سماجی تعلقات کے لیے موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔

ان اے آئی ٹولز کو ڈیٹا پیکجز کے ساتھ پیش کرنا ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے ایک بڑا تجارتی موقع ہے، کیونکہ انڈیا میں ڈیٹا کا استعمال دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے۔ جتنے زیادہ انڈین ان پلیٹ فارمز کا استعمال کریں گے، کمپنیوں کو اتنا ہی زیادہ براہِ راست ڈیٹا حاصل ہوگا۔

ڈیپ سیک اور چیٹ جی پی ٹی کے درمیان موازنہ: دوڑ میں کون آگے؟کیا چیٹ جی پی ٹی کا نیا براؤزر ’گوگل کروم‘ کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے؟ہوم ورک کے لیے چیٹ جی پی ٹی کی مدد لینے والے نوجوان کی خودکشی پر ’اوپن اے آئی‘ کے خلاف مقدمہ کیوں دائر ہوا؟ریاضی کے مشکل سوال بھی حل کرنے والی مصنوعی ذہانت جسے ’اپنے دماغ کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیے‘

مسٹر پاٹھک کا کہنا ہے: ’انڈیا ایک غیر معمولی طور پر متنوع ملک ہے۔ یہاں سے جنم لینے والے اے آئی کے استعمال دنیا کے باقی حصوں کے لیے قیمتی مثالیں ثابت ہوں گی۔‘

’جتنا زیادہ منفرد اور براہِ راست ڈیٹا انھیں ملے گا، ان کے ماڈلز، خاص طور پر جنریٹیو اے آئی سسٹمز، اتنے ہی بہتر ہوں گے۔‘

اگرچہ یہ صورتِ حال اے آئی کمپنیوں کے لیے فائدہ مند ہے لیکن صارفین کے نقطۂ نظر سے ان پیشکش سے کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں، خاص طور پر ڈیٹا کی رازداری کے حوالے سے۔

دہلی سے تعلق رکھنے والے ٹیکنالوجی تجزیہ کار پرسانتو کے رائے کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر صارفین سہولت یا مفت سہولت کے بدلے اپنا ڈیٹا دینے پر ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں، اور یہ رجحان جاری رہے گا۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنا ہوگی۔

’جب لوگ اپنا ڈیٹا اتنی آسانی سے دے رہے ہیں تو حکام کو ریگولیشن بڑھانا ہوگا تاکہ اس کے اثرات کو سمجھا اور سنبھالا جا سکے۔‘

Getty Imagesماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مستقبل کے پیش نظر بڑی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے

فی الحال انڈیا میں مصنوعی ذہانت سے متعلق کوئی مخصوص قانون موجود نہیں۔ 2023 کا ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ (ڈی پی ڈی پی) موجود ہے جو ڈیجیٹل میڈیا اور پرائیویسی سے متعلق ہے، مگر اسے ابھی نافذ نہیں کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ قانون ذاتی ڈیٹا کے حوالے سے عمومی تحفظ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے نفاذ کے قواعد ابھی تک طے نہیں ہوئے اور یہ اے آئی سسٹمز یا الگورتھم کی جواب دہی کے حوالے سے کوئی واضح ہدایت نہیں دیتا۔

ارنِسٹ اینڈ ینگ کے ٹیکنالوجی کنسلٹنگ لیڈر مہیش مکھیجا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب یہ قانون نافذ ہوگا تو ’یہ ممکنہ طور پر ڈیجیٹل پرائیویسی کے لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ترین قوانین میں شمار ہوگا۔‘

فی الحال، انڈیا کا نسبتاً لچکدار ریگولیٹری ماحول اوپن اے آئی اور گوگل جیسی کمپنیوں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اے آئی ٹولز کو ٹیلی کام پیکجز کے ساتھ مفت فراہم کر سکیں۔ یہ کام ان کمپنیوں کے لیے دیگر ممالک میں مشکل ہے۔

مثلاً یورپی یونین کے اے آئی قوانین شفافیت اور ڈیٹا کے نظم و نسق کے سخت معیار طے کرتے ہیں، جب کہ جنوبی کوریا کے نئے ضوابط اس سے بھی آگے بڑھ کر اے آئی سے تیار شدہ مواد پر واضح لیبل لگانے اور کمپنیوں کو اپنے سسٹمز کے استعمال کی ذمہ داری قبول کرنے کا پابند بناتے ہیں۔

ایسے خطوں میں اس نوعیت کی پیشکش صارف کی رضامندی اور ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے سخت تقاضے پیدا کرتیں، جس سے ان کا بڑے پیمانے پر نفاذ مشکل ہو جاتا۔

مسٹر رائے کا کہنا ہے کہ انڈیا کو صارفین میں شعور بیدار کرنے اور واضح قوانین بنانے کی ضرورت ہے، لیکن اسے ایسے طریقے سے بنائیں اور نافذ کریں کہ اختراع متاثر نہ ہو۔

انھوں نے کہا: ’فی الحال ہمیں نرم نوعیت کی ریگولیشن کی ضرورت ہے، مگر جیسے جیسے ممکنہ نقصانات واضح ہوں گے، قوانین کو مزید مؤثر بنانا پڑے گا۔‘

اس وقت تک عالمی اے آئی کمپنیاں امید کر رہی ہیں کہ ان مفت سہولتوں کے ذریعے وہ انڈیا میں اسی طرح لاکھوں نئے صارفین کو شامل کر سکیں گی، جیسے پہلے سستے انٹرنیٹ ڈیٹا پیکجز کے ذریعے کیا گیا تھا۔

اگرچہ توقع نہیں کہ اے آئی ایک مہنگی سبسکرپشن سروس بنے گی، بلکہ زیادہ امکان ہے کہ یہ کم قیمت، افادیت پر مبنی ماڈل کے طور پر اپنائی جائے، لیکن انڈیا کی وسیع آبادی اس میں بڑی گنجائش فراہم کرتی ہے۔

پاٹھک کے مطابق کہ’فرض کریں اگر صرف پانچ فیصد مفت صارفین سبسکرائبر بن جائیں، تب بھی یہ ایک بہت بڑی تعداد ہوگی۔‘

ریاضی کے مشکل سوال بھی حل کرنے والی مصنوعی ذہانت جسے ’اپنے دماغ کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیے‘’خدا سے بات‘ کے لیے اے آئی کا استعمال: ’اپنے عمل پر توجہ دو اور نتیجے کی فکر چھوڑ دو‘سوشل میڈیا پر نظر آنے والی جعلی اے آئی ویڈیوز کی شناخت کیسے کریں؟’خوفناک منظرنامے میں جاری کنٹرول کی جنگ‘: کیا مصنوعی ذہانت ’پوشیدہ ہتھیاروں‘ سے انسانوں کو ختم کر دے گی؟کیا یہ ایک حقیقی ماڈل لگتی ہیں؟ فیشن میگزین ’ووگ‘ میں اے آئی ماڈل کی تصویر شائع ہونے پر اتنا ہنگامہ کیوں مچا ہوا ہے؟انڈیا میں مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی تصویر جس کے بعد دلت نوجوان کو ’برہمنوں کی پوجا‘ پر مجبور کیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More