جعلی ڈگری کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی غیر قانونی قرار

بی بی سی اردو  |  Dec 18, 2025

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے اسی عدالت کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں کام کرنے سے روک دیا ہے۔

جمعرات کو عدالت نے یہ فیصلہ طارق جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری کے مبینہ طور پر جعلی ہونے کے معاملے کے تناظر میں سنایا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ان کے پاس جج بننے کی مطلوبہ اہلیت نہیں ہے کیونکہ بطور جج تعیناتی کے وقت جسٹس طارق جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری درست نہیں تھی اور اسی لیے بطورِ جج اُن کی تعیناتی غیر قانونی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب طارق جہانگیری عہدہ رکھنے کے اہل نہیں ہیں اور وزرات قانون انھیں ڈی نوٹیفائی کرے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری آج ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ ان کی جانب سے اُن کے وکلا اکرم شیخ ایڈوکیٹ اور بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔

AFP via Getty Imagesجامعہ کراچی کے فیصلے کے خلاف جسٹس جہانگیری نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔سماعت کا احوال: ’کراچی یونیورسٹی نے ڈگری منسوخ کی تھی‘

اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دورانِ کسی بھی شخص کو موبائل فون کمرہ عدالت میں لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وکلا اور صحافیوں کے موبائل باہر ہی رکھوا لیے گئے تھے۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس جہانگیری کے وکیل اکرم شیخ کا رویہ سخت تھا اور اُن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے درخواست کو قابلِ سماعت قرار دینا ٹھیک نہیں ہے۔

وکیل میاں داؤد کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی تو رجسٹرار کراچی یونیورسٹی عمران صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ کراچی یونیورسٹی نے حتمی طور پر جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری منسوخ کر دی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اسلامیہ لا کالج کے مطابق طارق محمود جہانگیری ان کے سٹوڈنٹ ہی نہیں تھے۔ رجسٹرار کے بقول زمانہ طالب علمی میں طارق جہانگیری ’نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے‘ اور ان فیئر مینز کمیٹی نے اُن پر تین سال کی پابندی لگائی جس کے بعد وہ 1992 میں دوبارہ امتحان دینے کے اہل تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ طارق جہانگیری نے ڈگری حاصل کرنے کے لیے ’جعلی انرولمنٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ایل ایل بی کا امتحان دیا۔‘

جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل ٹین اے کے تحت شفاف ٹرائل ان کے موکل کا حق ہے جبکہ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا ’ہماری درخواست موجود ہے۔ یہ کارروائی سندھ ہائیکورٹ نے معطل کر رکھی ہے۔‘

وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جسٹس جہانگیری نے چیف جسٹس اور دیگر ٹرانسفر ججز کے خلاف مقدمہ کیا اور ’آپ اس کیس میں ریسپانڈنٹ ہیں۔ آپ ڈیو پراسیس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس یہ کیس سننے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔‘

وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کے خلاف گذشتہ ڈیڑھ سال سے ’پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اُن کی ڈگری جعلی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کراچی یونیورسٹی نے یہاں تسلیم کیا کہ ان کی ڈگری کے پراسیس میں بے ضابطگی تھی۔ ڈگری جاری کی گئی جیسے بعد میں منسوخ کیا گیا۔‘

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا ’یہ فیک ڈگری کا نہیں بلکہ بے ضابطگی پر ڈگری کینسل کرنے کا کیس ہے اور یہ ابھی طے ہونا ہے کراچی یونیورسٹی 40 سال بعد سچ کہہ رہی ہے یا نہیں۔‘

دو گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر اور ججز کمرہِ عدالت سے چلے گئے اور کچھ دیر کے بعد سیکریٹری نے آ کر کیس کا فیصلہ سنایا۔

سیکریٹری اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ کچھ دیر بعد جاری کیا جائے گا۔

عدالت نے میاں داؤد کی درخواست میں بیان کیے گئے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی وکالت کی ڈگری کو جعلی قرار دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بننے کے اہل نہیں تھے عدالت نے متعلقہ حکام کو طارق محمود جہانگیری کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دیا ہے۔

جب ضیا دور میں ایک جج کی تعلیمی سند پر سوال اٹھایا گیا تھا

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب کسی جج کی تعلیمی سند پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق جج صفدر شاہ کی انٹرمیڈیٹ کی ڈگری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ میں جسٹس صفدر شاہ بھی شامل تھے۔ تاہم وہ ان اقلیتی ججز میں سے ایک تھے جنھوں نے سابق وزیر اعظم کو قتل کے اس مقدمے میں بری کر دیا تھا۔

جسٹس صفدر شاہ کی انٹرمیڈیٹ کی ڈگری کو لے کر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے انڈیا سے جو انٹر کا امتحان پاس کر کے جو ڈگری حاصل کی ہے وہ جعلی ہے۔

ڈگری پر سوالات اٹھائے جانے کے بعد جسٹس صفدر شاہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو نئے جج بابر ستار اور طارق جہانگیری کون ہیں؟اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط: عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد: ’تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا‘

جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کا فیصلہ منصفانہ عدالتی ٹرائل کے منافی ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے نہ صرف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ بطور جج ان کی سٹینڈنگ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

جسٹس جہانگیری کا درخواست میں کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جس کے تحت وہ کسی جج کو جوڈیشل ورک سے روک سکیں۔

درخواست گذار کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج کو جوڈیشل ورک سے روکنے کا طریقہ ائین کے ارٹیکل 209 میں دیا گیا ہے اور یہ اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی استعمال کرسکتی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں بطور جج جوڈیشل ورک کرنے کی اجازت دی جائے۔

BBCجعلی ڈگری کا معاملہ کب منظر عام پر آیا؟

دس جولائی سنہ 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل میاں داود ایک درخواست دائر کرتے ہیں جس موقف اختیار کیا جاتا ہے انھیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری سے متعلق کچھ ایسی معلومات ملی ہیں جس سے انھیں شک ہے کہ مذکورہ جج کی قانون کی ڈگری جعلی ہے لہذا اس معاملے کی تحققیات کروائی جائیں۔

اس درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض لگایا جاتا ہے اور گیارہ جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق اس درخواست پر لگائے گئے اعتراضات کی سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیتے ہیں۔ تاہم اس درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اور جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھیجا۔

جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگری کو لے کر کچھ وکلا سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرتے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ اس پر سٹے ارڈر جاری کر دیتی ہے جس کے بعد اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی اس میں فریق بن جاتی ہے۔

ابھی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیا گیا حکم امتناع برقرار تھا کہ اس ہی دوران 22 ستمبر کوسندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک درخواست آتی ہے کہ جج صاحب کی ڈگری کو لے کر ہماری ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے اس لیے حکم امتناع میں نہ صرف انھیں فریق بنایا جائے بلکہ اس معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ میں پہلے یہ درخواست 30 ستمبر اور پھر اس سماعت کی تاریخ 25 ستمبر مقرر کر دی جاتی ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنی ساتھی جج جسٹس ثمن رفعتکے ساتھ اس درخواست کے سماعت کے لیے اسلام آباد سے کراچی گئے اور انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جج کے کے آغا کی سربراہی میں قائم دو رکنی آئینی بینچ کو اس درخواست میں فریق بننے کی استدعا کی۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ چونکہ اس معاملے کا تعلق ان کی ڈگری سے ہے، اس لیے انھیں سنا جائے۔ تاہم عدالت نے یہ کہہ کر جسٹس جہانگیری کی درخواست کو مسترد کردی کہ پہلے زیر سماعت درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اور اگر درخواست کو قابل سماعت ہوئی تو اس کے بعد ہی ان کا موقف سنا جائے گا۔ اس پر جسٹس جہانگیری اور کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

بعد ازاں عدالت نے زیر سماعت درخواست کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دیا۔

AFP via Getty Images

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کیے جانے کے بعد کراچی یونیورسٹی نے مذکورہ جج کی ڈگردی کے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کا ایل ایل بی کا انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ جج پر تین سال کے لیے کسی بھی لا کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے کسی بھی امتحان میں بیٹھنے پر پابندی ہوگی۔

کراچی یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ جسٹس جہانگیری کبھی بھی اسلامیہ لا کاج کے سٹوڈنٹ نہیں رہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری کون ہیں؟

جسٹس طارق محمود جہانگیری پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں 28 دسمبر 2020 میںاسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس وقت اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے قایم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد تھے۔

جسٹس جہانگیری کی پروفائل کے مطابق، انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے اسلامیہ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

مسلم لیگ نواز کے دور میں اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں جبکہ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہے ہیں۔

طارق محمود جہانگیری کو فوجداری معاملات میں مہارت حاصل ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس میں ان کی وکالت کرتے رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بننے کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری اس تین رکنی بینچ کی سربراہی بھی کرر ہے تھے جس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریانسے متعلق دائر درخواست کو ڈس مس کردیا تھا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو سنایا ہی نہیں گیا اور بعد ازاں اس درخواست کو دوبارہ ری لسٹ کردیا گیا۔

جسٹس جہانگیری اس وقت میڈیا میں خبروں کی زینت بنیں جب سنہ 2023 میں انھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ان مقدمات میں بھی بلینکٹ پروٹیکشن دیتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا جو اس وقت تک عمران خان کے خلاف درج بھی نہیں کیے گئے تھے۔

ان کے متعلق وکلا برداری میں تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ اعلی عدلیہ کے ان ججز میں شامل ہیں جو سپریم کورٹ کے سینئر جج منصور علی شاہ کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہیں۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججز میں بھی شامل ہیں جنھوں نے مارچ 2024 میں فوج کے خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو خطوط تحریر کیے تھے۔ ان ججز کی جانب سے لکھے گئے خطوط میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر نہ صرف عدالتی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے بلکہ ان کی آمدورفت کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی مداخلت کی جارہی ہے۔

خفیہ اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر عدالتی معاملات میں مداخلت اور لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس سے ججز کو اسلام آباد منتقل کرنے کے حکومتی فیصلے کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس کے بعد سے جسٹس جہانگیری کو کسی اہم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ اور بلوچستان سے ججوں کی منتقلی کیوں کی گئی اور اس سے کس کی سینیارٹی متاثر ہو گی؟جسٹس امین الدین: کیا آئینی بینچ کا سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے زیادہ بااثر ہو گا؟آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات: اندرونی معاملات میں مداخلت یا قرض معاہدے کی مجبوری؟شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم: اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج کون ہیں؟بینچ کی تشکیل کا تنازع اور سپریم کورٹ میں تقسیم: ’یہ اختلاف رائے نہیں، اختیارات کی جنگ ہے‘سپریم کورٹ کے ججز کے الاؤنس میں اضافہ: پاکستان میں ججوں کو تنخواہ کے علاوہ کیا مراعات ملتی ہیں؟قاضی فائز عیسیٰ: ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ جج جن کا دور سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More