’سفر کی یادگار‘: بیرون ملک پہنچنے پر پاسپورٹ پر مہر کیا اب ماضی کی بات بن جائے گی؟

بی بی سی اردو  |  Dec 24, 2025

Getty Images

کسی ملک کی سرحد پر پاسپورٹ افسر کو دستاویز دینا اور اس پر مہر لگوانا، جو آپ کی آمد کا ثبوت ہوتا ہے، اب شاید ماضی کا حصہ بننے جا رہا ہے کیونکہ اکتوبر 2025 میں یورپی یونین نے انٹری، ایگزٹ سسٹم (ای ای ایس) متعارف کروایا ہے، جو ایک نیا ڈیجیٹل بارڈر مینجمینٹ کا طریقہ کار ہے۔

یہ نظام یورپ سے باہر والے ممالک کے شہریوں کے داخلے اور واپسی کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان کے بائیومیٹرک ڈیٹا کو بھی محفوظ کرتا ہے۔ اپریل 2026 تک اس کے مکمل نفاذ کے بعد پاسپورٹ پر مہر لگانے کا عمل ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ ڈیجیٹل سکریننگ لے گی۔

حکام کے مطابق یہ طریقہ زیادہ مؤثر اور محفوظ ہو گا اور یورپ کی سرحدوں پر سفر کے انداز میں بڑی تبدیلی لائے گا۔

یہ تبدیلی ایک بڑے عالمی رجحان کا حصہ ہے۔ آسٹریلیا، جاپان اور کینیڈا پہلے ہی سرحدوں پر بائیومیٹرک ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں جبکہ امریکہ نے بھی ایسے نظام کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔

جیسے جیسے ڈیجیٹل پروسیسنگ عام ہوتی جا رہی ہے، پاسپورٹ پر مہر لگوانے کی پرانی روایت، جو کئی دہائیوں سے سفر کی یادگار سمجھی جاتی رہی ہے، ختم ہو سکتی ہے۔

Getty Images

ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹرک بکس بائی، جو کتاب ’لائسنس ٹو ٹریول: اے کلچرل ہسٹری آف دی پاسپورٹ‘ کے مصنف ہیں، کا کہنا ہے کہ ’پاسپورٹ مہر کی تاریخ قرونِ وسطیٰ یا نشاۃ ثانیہ تک جاتی ہے، جب حکمران خطوط پر موم کی مہر لگاتے تھے۔ یہی اس روایت کی ابتدا ہے۔‘

اگرچہ پاسپورٹ اور مہر کی مختلف شکلیں صدیوں سے موجود رہی ہیں لیکن جدید پاسپورٹ پہلی عالمی جنگ کے بعد وجود میں آئے، جب لیگ آف نیشنز نے سرحدوں پر سختی کے ساتھ باقاعدہ معیار متعارف کروایا۔

پاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیںپاکستان میں ورک ویزا پر بیرون ملک جانے والے کچھ مسافروں کو ’آف لوڈ‘ کیوں کیا گیا؟’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

سنہ 1950 کی دہائی میں جب فضائی سفر عام لوگوں کے لیے زیادہ قابلِ رسائی ہوا تو پاسپورٹ پر مہر لگوانا ایک نئی روایت بن گئی۔ یہ نہ صرف نقل و حرکت کی علامت سمجھا جانے لگا بلکہ سماجی حیثیت کا نشان بھی بن گیا کیونکہ دنیا ’سفر کے سنہری دور‘ میں داخل ہو رہی تھی۔

پروفیسر پیٹرک کا کہنا ہے کہ ’دوسری عالمی جنگ کے بعد جب بین الاقوامی سفر میں تیزی آئی تو مہر لگوانے کا عمل جذباتی اہمیت اختیار کر گیا، جو آج تک برقرار ہے۔‘

اب جب یہ روایت ختم ہونے کے قریب ہے تو مسافروں کے ردعمل مختلف ہیں۔

لندن کی رہائشی ہرسٹینا نابوسنی کہتی ہیں کہ ’میں پاسپورٹ پر مہر کو واقعی یاد رکھوں گی۔ میرے لیے یہ صرف داخلے کا ثبوت نہیں بلکہ یادوں کا نشان ہے۔‘

Getty Imagesآسٹریلیا، جاپان اور کینیڈا پہلے ہی سرحدوں پر بائیومیٹرک ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں جبکہ امریکہ نے بھی ایسے نظام کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے

نیویارک کی مصنفہ ایل بولادو کی رائے میں ’اگرچہ میں جانتی ہوں کہ نیا نظام زیادہ مؤثر ہے لیکن مہر لگوانا ہمیشہ خوشی کا احساس دلاتا تھا۔ یہ ثبوت ہوتا ہے کہ آپ نے ایک سرحد پار کی اور ایک خواب جیسی جگہ پر پہنچے۔‘

ایل بولادو کہتی ہیں کہ ’اگر یہ روایت ختم ہو گئی تو مجھے اس کی کمی محسوس ہو گی۔‘

دوسری جانب کچھ مسافر زیادہ عملی سوچ رکھتے ہیں۔

ٹوور کمپنی ’نیو پاتھس ایکسپیڈیشنز‘ کے سربراہ جارج سالاس گیوارا، جو سال کے تقریباً 250 سے 300 دن سفر میں گزارتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی ان کے لیے راحت ہے کیونکہ اس سے وقت بچے گا۔

اگرچہ کچھ مسافر پاسپورٹ پر مہر لگوانے کو یادگار سمجھتے ہیں اور اسے کھونے پر افسوس کرتے ہیں لیکن کئی لوگ اپنی سفری یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسرے طریقے اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں، جیسے کہ فریج میگنیٹ جمع کرنا یا دیگر سووینئرز خریدنا۔

پروفیسر پیٹرک کے مطابق ’یہ دراصل اینالاگ اور ڈیجیٹل نظام کے درمیان ابھرتا ہوا سوال ہے۔ ایک دستاویز جو آپ کے ساتھ رہی ہو، اس کا اپنا ایک خاص تاثر یا احساس ہوتا ہے مگر اب مکمل ڈیجیٹلائزیشن سے یہ سب ختم ہو جائے گا۔‘

عالمی درجہ بندی میں انڈیا کے پاسپورٹ کی مسلسل گرواٹ، وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان میں ورک ویزا پر بیرون ملک جانے والے کچھ مسافروں کو ’آف لوڈ‘ کیوں کیا گیا؟پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟پاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیںایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More