BBCمریدکے کے رہائشی: دائیں سے بائیں (حسن، عاطف، محمد بلال حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے)
’میں اپنی چھت پر لیٹا ہوا تھا۔ جب دو میزائل آئے اور ہمارے اُوپر سے گزرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک میزائل زمین سے ٹکرایا اور اس کے بعد ایک منٹ کے لیے پورے علاقے میں لائٹ چلی گئی۔ پھر بجلی بحال ہوئی تو دوسرا میزائل بھی گر گیا۔ بہت شور تھا اس کا، میزائل گرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان کا رنگ سُرخ ہو گیا۔‘
’اس کے بعد ایسے ہی تقریباً چار حملے ہوئے۔ میزائل مسجدمرکز طیبہ پر آ کر گرے۔ لوگ باہر نکلے اور مسجد کی طرف بھاگے کہ دیکھیں کیا ہو۔ بعد میںپتا چلا کہ انڈیا نے حملہ کر دیا ہے۔‘
انڈیا، پاکستان کشیدگی کی تازہ ترین تفصیلات بی بی سی اُردو کے لائیو پیج پر
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر مریدکے سے متصل گاؤں ننگل ساھداںکے رہائشی عاطف انڈیا کی جانب سے پاکستان پر کیے گیے حملے کے عینی شاہدین میں سے ایک ہیں۔
انڈین فوج کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب انڈیا نے پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں ’آپریشن سندور‘ کے تحت متعدد مقامات پر ’دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر‘ حملے کیے ہیں۔ تاہم پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اِن حملوں میں عام شہریوں اور مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں بچوں اور خواتین سمیت آٹھ عام شہری ہلاک اور 35 زخمی ہوئے ہیں جبکہ دو افراد لاپتہ ہیں۔
پاکستانی فوج اور حکومت کے مطابق جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے متعدد انڈین طیاروں کو نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے مریدکے میں قائم ’مرکز طیبہ‘ پاکستانی حکومت کے کنٹرول میں ہے، جہاں سکول، کالج اور مدرسے موجود ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق انڈیا نے پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں چھ مقامات پر مجموعی طور پر 24 حملے کیے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں صوبہ پنجاب کے شہروں احمدپور شرقیہ، مریدکے، سیالکوٹ اور شکرگڑھ جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کوٹلی اور مظفرآباد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
بی بی سی نےپاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پنجاب کے علاقے مریدکے میں حملے کے عینی شاہدین سے بات کی ہے۔
عاطف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میزائل مرکز طیبہ کی مین مسجد پر آ کر گرے۔ اندر کوئی لوگ نہیں تھے سوائے ایک بزرگ آدمی کے۔‘
BBCمریدکے میں انڈین حملے کا نشانہ بننے والی عمارت ’مرکز طیبہ‘
تو کیا اس حملے کے وقت یہاں کوئی موجود نہیں تھا؟
بی بی سی کے سوال کے جواب میں عاطف نے بتایا کہ ’جب ایک ہفتے پہلے پتا چلا تھا کہ اس جگہ حملہ ہو سکتا ہے تو لوگ یہاں سے اپنے گھروں کو چلے گئے اور یہ جگہ خالی ہو گئی تھی۔‘
’پہلے تو عام لوگ یہاں اندر جاتے تھے، کھانا بھی ملتا تھا تاہم یہاں اب تو کوئی نہیں جا سکتا۔ یہاں لوگوں کی رہائش بھی تھی اندر لیکن جب سے مسئلہ بنا تو لوگوں نے خالی کر دیا۔‘
دوسری جانب حسن نامی عینی شاہد نےبی بی سی کو بتایا کہ اس جگہ مدرسہ بھی تھا اور ہسپتال بھی اور سکول بھی۔
’عشا کے وقت مسجدوں میں اعلان ہوا تھا کہ کل سے تمام سکول کھل جائیں گے، سب نے سکول آنا ہےمگر پھر رات12 بج کر 35 منٹ پر دھماکہ ہوا۔‘
انھوں نے واقعےکے حوالے سے بتایا کہ ’ہم چھت پر سوئے ہوئے تھے۔ کل چار میزائل آئے۔پہلا میزائل تو بہت زوردار آواز سے آئے۔ تین مرکز میں گرے ایک اس کے ساتھ گرا ہے۔ اس سے پہلے کوئی آواز نہیں تھی۔ میزائل شوں کر کے چھت پر سے گزرا۔‘
بی بی سی کے سوال پر انھوں نے بتایا کہ یہ جگہ مریدکے سے دو، تین کلومیٹر دور ہے، دھماکے کے بعد بہت افرا تفری ہو گئی تھی، لوگ گھروں سے باہر آ گئے تھے۔ پھر کچھ لوگوں نے گھروں کو خالی کر کے مرید کے کی طرف چلے گئے۔
BBCمریدکے میں مرکز طیبہ پر انڈین حملے کے بعد پولیس، ریسکیو اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موقع پر پہنچ گئے
محمد بلال بھی عینی شاہدین میں سے ہیں اور وہ ننگل ساھداں کے رہائشی ہیں۔وہ اس وقت اپنے گاؤں کے مکان میں اکیلے تھے جب میزائل آئے۔
’میں رات کو کال سننے کے لیے چھت پر گیا تو اچانک دیکھا کہ میزائل آیا اور بلاسٹ ہوا۔ میں گھر سے فورا نکلا، ساتھ ہی یہاں کی مسجد تک آیا۔‘
’لگاتار تین میزائل انھوں نے چھوڑے جس کا دھماکہ میں نے سنا۔ اچھی خاصی دھمک تھی۔‘
مریدکے کے رہائشی محمد یونس شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا کی جانب سے داغے گئے چار میزائل ننگل ساھداں میں قائم ایجوکیشنل کمپلیکس پر گرے ہیں جہاں ایک مسجد بھی واقع تھی جو تباہ ہو گئی ہے۔
ننگل ساھداں کے رہائشی محمد یونس مزید کہتے ہیں کہ 'یہاں بچوں کے سکول اور کالج ہے، ہاسٹل اور میڈیکل کمپلیکس ہے۔ اس پر حملہ ہوا ہے، پہلے تین میزائل پے در پے آئے ہیں جبکہ چوتھا میزائل پانچ، سات منٹ کے وقفے سے آیا ہے۔
ان کے مطابق ’یہاں رہائشی علاقہ ہے جہاں فیمیلیز رہتی ہیں، انھوں نے مسجد کو بھی تباہ کر دیا ہے۔‘
محمد یونس کہتے ہیں کہ ’علاقے میں ابھی بھی خوف و ہراس ہے اور سارے لوگ یہاں سے محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ یہاں ابھی حکومتی مشینری موجود ہے، ریسکیو والے، فائر بریگیڈ اور پولیس والے یہاں موجود ہیں۔‘
’دھماکے نے میرے گھر کو ہلا کر رکھ دیا‘BBCپاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفر آباد میں واقع مسجد بلال کو بھی انڈین حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انڈیا کے میزائل حملے کے نشانہ بننے والی بلال مسجد سے متصل مکان کے رہائشی محمد وحید بھی اس واقعے کی عینی شاہدین میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں گہری نیند سو رہا تھا جب پہلے دھماکے نے میرے گھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں دوڑ کر باہر سڑک پر نکل آیا، جہاں پہلے ہی لوگ باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم پتہ چلاتے کہ کیا ہو رہا ہے اسی دوران تین اور میزائل داغے گئے، جس سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس اور افراتفری پھیل گئی۔‘
محمد وحید کے مطابق اس واقعے کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔
محمد وحید کا کہنا تھا کہ اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ انڈیا کی جانب سے مقامی مسجد کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ’یہ ایک عام محلے کی مسجد تھی، جہاں ہم دن میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتے تھے۔ ہم نے اس کے آس پاس کبھی کوئی مشکوک سرگرمی نہیں دیکھی۔‘
Getty Imagesاس حملے میں مسجد بلال کا گنبد اور دیواریں گری ہیں
مظفر آباد کے رہائشی عبدالباسط اعوان نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’لوگ اپنے معمول کے مطابق سو چکے تھے۔ ہمارے علاقے میں لوگ دس، ساڑھے دس بجے تک سو جاتے ہیں۔ اچانک ایسی آواز آئی جیسے کوئی گیس سلینڈر پھٹا ہے۔ اس کے بعد لگ بھگ ایک منٹ کا وقفہ ہوا اور پھر چھ سے سات دھماکوں کی زوردار آوازیں آئیں، جو میزائل تھے۔ پہلے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا معاملہ چل رہا ہے۔‘
BBC
مظفر آباد سے تعلق رکھنے والے شہری سفیر اعوان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا گھر متاثرہ مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ اُن کے مطابق رات ساڑھے بارہ، ایک بجے کے لگ بھگ حملہ شروع ہوا اور جب انھوں نے باہر نکل کر دیکھا تو مسجد پر گولہ باری ہو رہی تھی۔
’ایک شیل کے لگنے کی وجہ سے میری بیٹی زخمی بھی ہوئی ہے۔ اس علاقے میں میرے خاندان کے بہت سے گھر رہتے ہیں اور ہم یہاں نسلوں سے آباد ہیں۔ جو مسجد متاثر ہوئی وہ ہمارے علاقے کی جامع مسجد تھی۔‘
انھوں نے اپنے مکان کی دیوار دکھاتے ہوئے کہا کہ حملے کے باعث ان کے گھروں کو جزوی نقصان بھی پہنچا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس علاقے میں دہائیوں سے اور نسل در نسل آباد ہیں اور یہ کہ یہاں کوئی دہشت گرد نہیں تھے اور نہ ہی ہیں۔