Reutersپاکستان کا کہنا ہے کہ اس کے انڈیا کے پانچ لڑاکا طیارے اور ایک جنگی ڈرون مار گرایا ہے
منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہونے والی ڈرامائی کارروائی کے بعد انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’قابلِ اعتماد انٹیلیجنس‘ کی بنیاد پر میزائل اور فضائی حملے کیے ہیں جن کا ہدف ’شدت پسندوں کے ٹھکانے‘ تھے۔
حکام کے مطابق یہ حملے 25 منٹ تک جاری رہے، جو انڈین وقت کے مطابق رات 1:05 سے 1:30 بجے کے درمیان کیے گئے۔ ان دھماکوں کی گونج نے پورے خطے میں خوف کی لہر دوڑا دی اور دھماکوں کی شدت ایسی تھی کہ شہری نیند سے جاگ اُٹھے۔
پاکستان، انڈیا کشیدگی سے متعلق تازہ ترین تفصیلات بی بی سی اُردو لائیو پیج پر
پاکستان کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں چھ مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور ہلاک ہونے والے 31 افراد عام شہری تھے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے پانچ انڈین لڑاکا طیارے اور ایک ڈرون مار گرایا ہے جس کی انڈیا نے ابھی تصدیق نہیں کی ہے۔
پاکستان کے مطابق لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں جانب انڈیا کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں اور گولہ باری میں 31 افراد ہلاک اور 57 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی گولہ باری سے اُس کے زیرِ انتظام کشمیر میں 10 شہری مارے گئے۔
گذشتہ ماہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ایک حملہ ہوا تھا جس نے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو ایک خطرناک سطح تک پہنچا دیا ہے۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ اس حملے میں پاکستان میں موجود شدت پسندوں اور بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے ’واضح ثبوت‘ موجود ہیں تاہم پاکستان نے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ انڈیا نے تاحال اپنے دعوے کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
کیا یہ حملہ ایک نئے اور خطرناک مرحلے کا آغاز ہے؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا نے کسی حملے کے جواب میں پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کی ہو۔
سنہ 2016 میں اُڑی حملے میں 19 انڈین فوجی مارے گئے تو انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے اُس پار ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کی تھیں۔
اسی طرح سنہ 2019 میں پلوامہ حملے میں 40 انڈین نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے جس کے بعد انڈیا نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملے کیے، اور یہ 1971 کے بعد پہلی بار تھی کہ انڈیا نے پاکستان کے اندر کارروائی کی۔ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان فضائی جھڑپیں ہوئی تھیں۔
مگر ماہرین کہتے ہیں کہ انڈیا کی حالیہ کارروائی اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہے۔ انڈیا نے بیک وقت پاکستان میں موجود تین بڑے شدت پسند گروہوں کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، اگرچہ پاکستان اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔
پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟مسعود اظہر: ہائی جیکرز کے مطالبے پر انڈین جیل سے رہائی اور پھر عالمی دہشتگردوں کی فہرست تکانڈیا، پاکستان 2001 میں جنگ کے دہانے سے کیسے واپس آئے؟مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟
انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نو شدت پسند اہداف پر حملے کیے جن میں لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے مراکز شامل ہیں۔
انڈیا کے ایک ترجمان کے مطابق سیالکوٹ میں دو تربیتی کیمپ، جو سرحد سے صرف 6 سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے، انھیں بھی نشانہ بنایا گیا۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیادہ اندر گھس کر کیا جانے والا حملہ بہاولپور میں جیشِ محمد کے ہیڈکوارٹر پر کیا گیا جو پاکستانی سرزمین کے اندر 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
مزید دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں لشکرِ طیبہ کے ایک کیمپ کو بھی نشانہ بنا جو لائن آف کنٹرول سے 30 کلومیٹر دور ہے اور اس کا تعلق حالیہ حملوں سے تھا۔
ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ صرف چھ مقامات پر حملے کیے گئے ہیں اور وہ یہ الزام مسترد کرتا ہے کہ وہاں شدت پسندوں کے کوئی کیمپ موجود تھے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور ہلاک ہونے والوں کو بچوں اور خواتین سمیت عام شہری شامل ہیں۔
Anadolu via Getty Images’اگر پاکستان نے کوئی ردعمل نہ دیا تو یہ انڈیا کو کھلی اجازت دینے کے مترادف ہو گا کہ وہ جب چاہے پاکستان کے خلاف کارروائی اور حملہ کرے‘
دہلی سے تعلق رکھنے والے مؤرخ سریناتھ راگھون نے بی بی سی کو بتایا: ’اس بار سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ انڈیا نے اپنے اہداف کا دائرہ پچھلے حملوں سے بہت وسیع کر دیا ہے۔ ماضی میں بالاکوٹ جیسے حملے صرف لائن آف کنٹرول کے پار، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تک محدود ہوتے تھے جو ایک فوجی نوعیت کی سرحد ہے۔‘
’مگر اس بار انڈیا نے بین الاقوامی سرحد کے پار جا کر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کارروائی کی ہے، خاص طور پر بہاولپور اور مریدکے میں لشکرِ طیبہ سے وابستہ مراکز، ہیڈکوارٹرز اور شدت پسند انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے اثاثے بھی نشانہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا کا ردعمل اس بار جغرافیائی لحاظ سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور یہ ایک بڑا پیغام دے رہا ہے کہ اب کئی گروہ انڈیا کے نشانے پر ہیں۔‘
انڈیا اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ایک تسلیم شدہ سرحد ہے جو گجرات سے لے کر جموں تک پھیلی ہوئی ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریا نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ حملہ دراصل ایک ’بالاکوٹ پلس‘ طرز کا ردعمل ہے جس کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ انڈیا دہشتگردی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں ان شدت پسند مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کا عالمی سطح پر بھی ذکر ہو چکا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک واضح پیغام بھی دیا گیا ہے کہ انڈیا کشیدگی نہیں چاہتا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یہ حملے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ درست نشانے پر، واضح اور نمایاں تھے۔ اسی لیے پاکستان کے لیے انھیں جھٹلانا مشکل ہو گا۔‘
انڈین ذرائع کے مطابق ان حملوں کا مقصد ’دہشتگردی روکنے کی صلاحیت‘ کا اظہار تھا۔
پروفیسر راگھون کا کہنا ہے: ’انڈین حکومت کو لگتا ہے کہ 2019 میں جو مؤثر پیغام دیا گیا تھا وہ وقت کے ساتھ کمزور پڑ گیا ہے اور اب اسے دہرانے کی ضرورت ہے۔‘
’یہ اسرائیل کے اس نظریے سے مشابہت رکھتا ہے کہ کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے وقتاً فوقتاً طاقت کا مظاہرہ ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ صرف جوابی حملوں سے دہشتگردی رک جائے گی تو اس سے پاکستان کو جوابی کارروائی کا مکمل جواز ملتا ہے اور کشیدگی تیزی سے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔‘
کیا یہ صورتحال مکمل جنگ کی طرف جا سکتی ہے؟AFP via Getty Images’انڈین حملہ اسرائیل کے اس نظریے سے مشابہت رکھتا ہے کہ کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے وقتاً فوقتاً طاقت کا مظاہرہ ضروری ہے‘
زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی ناگزیر ہے اور جلد یا بدیر سفارتکاری کی ضرورت پڑے گی۔
انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریا کا کہنا ہے: ’پاکستان کا ردعمل ضرور آئے گا۔ اصل چیلنج یہ ہو گا کہ اس کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کیسے سنبھالا جائے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بحران سے بچانے والی سفارتکاری اہم کردار ادا کرے گی۔‘
’پاکستان کو ضبط اور تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا جائے گا، لیکن پاکستان کے جوابی حملے کے بعد اصل کامیابی اس وقت کی سفارتی کوششوں میں ہو گی تاکہ دونوں ممالک کسی بڑے فوجی تصادم کی طرف نہ بڑھیں۔‘
لاہور میں مقیم سیاسی اور عسکری تجزیہ کار اعجاز حسین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مریدکے اور بہاولپور جیسے مقامات پر سرجیکل اسٹرائیکس ’موجودہ حالات کے پیش نظر متوقع تھیں۔‘
ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کا امکان بہت زیادہ ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’پاکستانی فوج کے بیانات اور اس کے ’حساب چکانے‘ کے عزم کو دیکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پار جوابی حملے ممکنہ طور پر اگلے چند دنوں میں کیے جا سکتے ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر حسین کو خدشہ ہے کہ دونوں جانب سے ایسے محدود حملے ’ایک محدود روایتی جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘
امریکہ کی یونیورسٹی ایٹ البانی کے پروفیسر کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے حملوں کی وسعت اور پاکستان میں کئی ٹھکانوں پر واضحجانی و مالی نقصان کو دیکھتے ہوئے پاکستان کا ردعمل ’انتہائی متوقع‘ ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اگر پاکستان کوئی ردعمل نہ دے تو یہ انڈیا کو کھلی اجازت دینے کے مترادف ہو گا کہ وہ جب چاہے کارروائی اور حملہ کرے اور یہ پاکستانی فوج کے ’ادلے کا بدلہ‘ اصول کے خلاف بھی ہو گا۔‘
کلیری کے مطابق: ’انڈیا نے جن گروہوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اُن کے متعلق اس کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق انڈیا میں ہونے والی دہشتگردی سے تھا۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے۔۔۔ اگرچہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان اپنا ردعمل صرف انڈیا کی فوجی تنصیبات تک محدود رکھے گا۔‘
اگرچہ کشیدگی بڑھ رہی ہے تاہم کچھ ماہرین اب بھی امید رکھتے ہیں کہ حالات سنبھل سکتے ہیں۔
کلیری کہتے ہیں: ’امکان ہے کہ یہ بحران صرف ایک مرحلے کی جوابی کارروائیوں اور لائن آف کنٹرول پر کچھ دن کی شدید فائرنگ تک محدود رہے۔‘
تاہم وہ خبردار کرتے ہیں کہ کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ اب بھی بہت زیادہ ہے اور یہ بحران 2002 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سب سے خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔۔۔ صورتحال 2016 اور 2019 کے مقابلے میں کہیں زیادہ نازک ہے۔
کیا پاکستان کی جوابی کارروائی اب ناگزیر ہو چکی ہے؟AFP via Getty Images
پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ انڈیا کے حملے سے قبل کوئی جنگی جنون نظر نہیں آیا مگر اب حالات تیزی سے بدل سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار اور جینز ڈیفنس ویکلی کے سابق نامہ نگار عمر فاروق کہتے ہیں: ’ہمارا معاشرہ سیاسی طور پر بری طرح تقسیم ہو چکا ہے۔ ملک کے سب سے مقبول رہنما عمران خان جیل میں ہیں اور ان کی گرفتاری کے بعد عوام میں فوج کے خلاف سخت ردعمل پیدا ہوا۔‘
’آج کی پاکستانی عوام 2016 یا 2019 کی نسبت فوج کی حمایت میں کہیں کم پرجوش ہے۔ لیکن اگر پنجاب کے وسطی علاقوں میں عوامی رائے انڈیا مخالف جذبات کی طرف جھک گئی تو فوج پر کارروائی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے اور یہی تنازع فوج کو دوبارہ مقبول بنا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر اعجاز حسین بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’میرا ماننا ہے کہ انڈیا کے ساتھ موجودہ کشیدگی پاکستانی فوج کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ شہری مڈل کلاس کی حمایت دوبارہ حاصل کرے۔ خاص طور پر اُن طبقات کی جو حالیہ دنوں میں فوج پر سیاسی مداخلت کے الزامات لگا رہے تھے۔‘
’فوج کا دفاعی بیانیہ مرکزی اور سوشل میڈیا کے ذریعے فعال انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ کچھ ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان نے چھ یا سات انڈین طیارے مار گرائے۔‘
’اگرچہ ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق ضروری ہے لیکن ایسے دعوے عوام کے ان طبقوں میں فوج کی ساکھ مضبوط کرتے ہیں جو بیرونی خطرات کی صورت میں قومی دفاع کے بیانیے کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘
کیا انڈیا اور پاکستان ایک بڑی جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟NurPhoto via Getty Images
انڈیا ایک بار پھر کشیدگی اور برداشت کے درمیان نازک توازن پر چل رہا ہے۔
پہلگام میں حملے کے فوراً بعد انڈیا نے فوری ردعمل دیا: سرحدی راستہ بند کیا، پانی کی تقسیم کا معاہدہ معطل کر دیا، پاکستانی سفارتکاروں کو نکال دیا اور پاکستانی شہریوں کے ویزے بند کر دیے۔ دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا اور انڈیا نے پاکستانی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بھی بند کر دی، یہ اقدام پاکستان کی پہلے کی گئی پابندی کے جواب میں تھا۔ جواباً، پاکستان نے 1972 کا امن معاہدہ معطل کر دیا اور کئی جوابی اقدامات کیے۔
یہ ردعمل 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کے رویے سے مشابہ ہے۔ اس وقت نئی دہلی نے پاکستان کو پسندیدہ تجارتی ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا، بھاری ٹیکس عائد کیے اور کئی اہم تجارتی و سفری راستے بند کر دیے تھے۔
2019 میں کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی تھی جب انڈیا نے بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی جوابی فضائی کارروائی کی اور انڈین پائلٹ ابھینندن ورتھمان کو گرفتار کر لیا۔۔۔ اس سے کشیدگی مزید بڑھ گئی۔
تاہم بعد میں سفارتی کوششوں سے حالات کچھ بہتر ہوئے اور پاکستان نے خیرسگالی کے تحت پائلٹ کو رہا کر دیا۔
بساریہ نے گذشتہ ہفتے مجھے بتایا: ’انڈیا نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد روایتی سفارتکاری کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ پاکستان نے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے یہ تاثر دیا کہ اسے کامیابی ملی ہے۔‘
پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟انڈیا، پاکستان 2001 میں جنگ کے دہانے سے کیسے واپس آئے؟مسعود اظہر: ہائی جیکرز کے مطالبے پر انڈین جیل سے رہائی اور پھر عالمی دہشتگردوں کی فہرست تک’آپریشن سندور‘: انڈین صارفین پاکستان کے خلاف آپریشن کے نام کو معنی خیز کیوں قرار دے رہے ہیں؟پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر: ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات کیسے بہتر ہوئے؟