پاکستان میں کرنسی نوٹ نہ صرف کاروباری لین دین اور خرید و فروخت کا ذریعہ ہیں بلکہ بعض اوقات لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور روزمرہ عادات کا آئینہ بھی بن جاتے ہیں۔
اکثر لوگ نوٹوں پر شہری لکھائی کر دیتے ہیں۔ دکاندار گنتی کے دوران حساب کتاب کے لیے نوٹ پر نمبر لکھتے ہیں جبکہ کچھ منچلے تو نوٹوں پر اشعار، پیغامات یا حتیٰ کہ اپنے نام تک لکھ دیتے ہیں۔
آپ نے ایسے کئی نوٹ دیکھے ہوں گے جن پر کبھی کبھار شاعری، محبت کے پیغامات یا سیاسی نعرے لکھے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ رجحان عام ہے لیکن اس سے کرنسی نوٹوں کی خوبصورتی اور بعض اوقات ان کی قانونی حیثیت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
اسی خدشے کے پیش نظر گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایسے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کر دی ہے تاہم یہ خبر جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
فیک نیوز میں لکھا گیا تھا کہ ’سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ یکم جولائی 2025 سے پین سے لکھی گئی تحریر والے نوٹ قابل قبول نہیں ہوں گے۔‘
دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایسی تحریر نوٹوں کی خوبصورتی کو متاثر کرتی ہے اور عوام کو لکھائی کے لیے پنسل استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
زیر گردش جھوٹی خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 30 جون 2025 تک ایسے نوٹ سٹیٹ بینک میں جمع کرائے جا سکتے ہیں ورنہ وہ ناقابل استعمال ہو جائیں گے۔ تاہم سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس خبر کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی ترجمان نور احمد نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس خبر کی تردید کی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایسی کوئی ہدایات یا اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ ان کے بقول ’سوشل میڈیا یا دیگر میڈیا پلیٹ فارمز پر اگر ایسی کوئی خبر گردش کر رہی ہے تو وہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ ہماری جانب سے ہم نے کوئی نوٹیفکیشن یا اعلامیہ جاری نہیں کیا۔‘
انہوں نے 2014 میں سٹیٹ بینک کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2014 میں سٹیٹ بینک نے کرنسی نوٹوں پر سیاسی نعرے لکھنے کے خلاف ہدایات جاری کی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں پین سے لکھائی پر کوئی نئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
ستمبر 2014 میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کرنسی نوٹوں پر ’گو نواز گو‘ لکھیں تاکہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کیا جا سکے۔
سٹیٹ بینک اور کمرشل بینک خراب نوٹوں کو تبدیل کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عوام کو خبردار کیا تھا کہ ایسے نوٹ نہ تو بینک قبول کریں گے اور نہ ہی کاروباری برادری انہیں لین دین کے لیے استعمال کرے گی جبکہ سٹیٹ بینک نے واضح کیا تھا کہ کرنسی نوٹوں پر سیاسی نعرے یا تحریر لکھنا غیر قانونی ہے اور اس سے نوٹ کی قانونی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
حالیہ جھوٹی خبروں کے بعد ترجمان سٹیٹ بینک نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کرنسی نوٹوں کو قومی اثاثہ سمجھیں اور انہیں احتیاط سے استعمال کریں تاکہ ان کی ساکھ اور حالت برقرار رہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق کرنسی نوٹوں کو نقصان پہنچانے یا ان کی حالت خراب کرنے کے کچھ مخصوص طریقے ہیں جن سے وہ ناقابل قبول ہو سکتے ہیں۔ اگر کرنسی نوٹ کا بڑا حصہ جل جائے یا پھٹ جائے اور اس کی شناخت ممکن نہ ہو تو وہ ناقابل قبول ہوتے ہیں۔
اسی طرح وہ نوٹ جن پر بڑا داغ، سیاہی، یا دیگر نشانات لگائے جائیں جو اس کی شناخت یا قانونی حیثیت کو متاثر کریں استعمال کے قابل نہیں رہتے۔ اگر نوٹ کا آدھے سے زیادہ حصہ موجود نہ ہو تو وہ ناقابل قبول بن جاتا ہے۔
سٹیٹ بینک اور کمرشل بینک ایسی صورت میں خراب نوٹوں کو تبدیل کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ عوام خراب یا ناقص نوٹوں کو کسی بھی کمرشل بینک یا سٹیٹ بینک کے دفاتر میں جمع کروا کر نئے نوٹ حاصل کر سکتے ہیں۔