ثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jun 05, 2025

’ثنا کو میڈیکل کی فیلڈ پسند تھی، وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ میں تو اسے منع کر رہا تھا کہ سی ایس ایس کے لیے کوئی اکیڈمی جوائن کر لو مگر اسے میڈیکل کا شوق تھا۔‘

سید یوسف حسن چترال میں اپنے گاؤں سے بی بی سی سے بات کر رہے تھے جہاں ان کی 17 سالہ بیٹی ثنا یوسف کی تعزیت کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا ہے۔

خیال رہے پیر کے روز پولیس نے فیصل آباد سے ایک 22 سالہ نوجوان کو ثنا یوسف کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس نوجوان نے 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا اعتراف کیا ہے اور اس سے ثنا کا موبائل فون اور مبینہ آلہِ قتل بھی برآمد ہوا ہے۔

یاد رہے کہ ثنا یوسف کو اسلام آباد میں ان کے گھر کے اندر قتل کیا گیا تھا جہاں وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ مگر ثنا کے والد نے ابھی تک اس لڑکے کی تصویر نہیں دیکھی جس پر ان کی بیٹی کے قتل کا الزام ہے۔

سید یوسف حسن کہتے ہیں ’مجھے نہیں معلوم وہ کیسا نظر آتا ہے۔ ابھی تک میں نے اس لڑکے کی تصویر بھی نہیں دیکھی جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ یہاں گاؤں میں انٹرنیٹ نہیں ہے اور فون کے سگنل بھی بمشکل ملتے ہیں۔‘

ثنا یوسف کے والد، سید یوسف حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ان کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ’بہت بہادر‘ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے افراد چترال میں جمع ہوئے ہیں جہاں ثنا کو دفن کر دیا گیا ہے۔

گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 17 برس کی ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کے ملزم کی شناخت پریڈ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس کے ملزم کو بدھ کی صبح ڈیوٹی مجسٹریٹ احمد شہزاد کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی جانب سے ملزم کی شناخت پریڈ کی استدعا کی گئی جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

ثنا یوسف کے قتل کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے منگل کو آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے ثنا یوسف کی جانب سے خود کو بار بار مسترد کیے جانے پر اسے قتل کیا۔

’یہ کیس رپیٹیٹو ریجکشن کا تھا۔ ملزم نے ثنا یوسف کو اس لیے قتل کیا کہ وہ بار بار ثنا سے رابطہ کر رہا تھا اور وہ اس کو منع کر رہی تھی۔ وہ گذشتہ کئی دنوں سے ثنا یوسف سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور دو جون کو بھی اس نے ثنا یوسف کے گھر آ کر سات آٹھ گھنٹے انتظار کیا اور جب ثنا نے اس دن بھی اس سے ملنے سے انکار کیا تو اس نے پلاننگ کی اور اس واردات کو انجام دیا۔‘

ان کے مطابق دو جون کو ملزم نے شام پانچ بجے ثنا یوسف کے گھر میں گھس کر انھیں دو گولیاں ماریں۔

’دوست نے مجھے بتایا کہ کوئی ایمرجنسی ہوئی ہے‘

سید یوسف حسن کے گاؤں میں تعزیت کرنے کے لیے آنے والوں کا رش لگا ہے اور ہم سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک دو بار فون بند کروایا کیوںکہ انھیں تعزیت کے لیے بلایا جا رہا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں اس دن تقریباً گھر کے نزدیک ہی تھا۔ ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب اسے کال آئی اور اس نے مجھے بتایا کہ ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں ڈائریکٹ کال نہیں کی گئی۔ وہ جس دوست کے پاس بیٹھے تھے اس دوست کی بہن (جو ان کی رشتہ دار بھی ہیں) ان کے گھر میں نچلی منزل پر رہائش پذیر ہیں اور انھوں نے ہی اپنے بھائی کو کال کی تھی۔

’اس دوست نے مجھے بتایا کہ کوئی ایمرجنسی ہوئی ہے، مجھے کلئیر نہیں بتایا گیا۔ بس اتنا کہا کہ گھر کی طرف جانا ہے۔‘

یوسف حسن بتاتے ہیں کہ ’میں گاڑی سٹارٹ کرکے نکلا اور تھوڑا آگے پہنچا تو میری اہلیہ کی کال آئی اور انھوں نے بتایا کہ اس طرح کا معاملہ ہوا ہے۔ میری اہلیہ بھی مارکیٹ گئی ہوئی تھیں اور انھیں بھی نچلی منزل پر رہنے والی خاتون رشتہ دار کی کال آئی کہ کوئی ڈاکو آیا ہے اور اس طرح سے آپ کی بیٹی کو گولی مار کر چلا گیا ہے اور موبائل بھی ساتھ لے گیا ہے۔‘

ثنا کے والد بتاتے ہیں کہ ’میں نے ان سے کہا کہ اسے ہسپتال لے کر آؤ میں ادھر انتظار کرتا ہوں لیکن وہاں پہنچنے پر ڈاکٹر نے تصدیق کر دی کہ ثنا کی وفات ہو چکی ہے۔‘

یوسف حسن کہتے ہیں کہ ’پھر ہسپتال والوں نے قانونی کارروائی کے لیے ہمیں پمز ہسپتال بھیجا اس وقت تقریباً پانچ بجے کا وقت ہو گا لیکن ہسپتال کی ساری کارروائی مکمل ہوتے تقریباً رات کے 12:30 بج گئے جس کے بعد ہمیں میت دی گئی۔‘

’پھر ہم نے جنازہ پڑھا اور چترال کی طرف آ گئے اور کل شام 7 بجے ہم چترال پہنچے ہیں۔‘

17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقلٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘ٹک ٹاک پر شادی کی مشکلات اور طلاق کا ذکر کرنے والی ثانیہ جنھیں ان ہی کے شوہر نے قتل کر دیانور مقدم کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘

یوسف حسن کہتے ہیں ’یہ لڑکا کیسے گھر میں داخل ہوا، شاید اس نے ریکی کی ہوگی، مجھے نہیں معلوم۔ میری چھوٹی بہن گھر کے اندر موجود تھیں اور یہ لڑکا سیدھا کمرے میں گیا اور میرے بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہےاور وہ یہ دیکھنے کے لیے کیا معاملہ ہوا ہے، بیٹی کے کمرے کی طرف گئی ہیں۔‘

’اسی وقت یہ لڑکا ثنا کے کمرے سے نکل کر باہر آیا اور میری بہن پر پستول تانی مگر اس سے فائر نہیں ہوا۔ اس نے فائر کرنے کی کوشش کی پھر وہ بھاگ کر نیچے چلا گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’میری بہن نے نیچے والوں کو آواز دی، گلی میں جا کر آواز دی کہ ڈاکو آیا ہے اور میرے پر پستول تان کر گیا ہے۔‘

یوسف حسن کہتے ہیں کہ اس وقت گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ’میری بہن گلی میں بھاگتی جا رہی تھی اس وقت تک اسے پتا نہیں چلا کہ وہ لڑکا میری بھتیجی کو گولی مار کر گیا ہے، وہ گلی سے کچھ بندوں کو اور نیچے والی بہن کو لے کر اندر گئی اور ثنا کو دیکھا تو لوگوں کو آواز دی اور اسے گاڑی میں ڈالا۔‘

یوسف حسن کے مطابق ’اتنی دیر میں ثنا کی ماں بھی پہنچ گئیں جنھیں بیٹی نے خود مارکیٹ بھیجا تھا کہ جاؤ سرف لے کر آؤ عید آ رہی ہے کچھ کپڑے دھونے ہیں۔‘

ثنا کے والد کہتے ہیں کہ ’قاتل نے اسی موقع سے فائدہ اٹھایا اور اندر آ کر ثنا کو مار کر چلا گیا۔‘

’وہ میری بیٹی نہیں میرا دلیر بیٹا تھی‘

ایک سوال کے جواب میں سید یوسف حسن کا کہنا تھا ’نہیں بالکل نہیں۔ نہ کوئی دشمنی نہ کوئی ایسی بات۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’گھوڑے کو بھی میدان میں لاتے ہیں تو تربیت دے کر لاتے ہیں۔ ہم نے بچی کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت دینے سے پہلے اچھی تربیت دی تھی۔‘

یوسف حسن کا کہنا تھا کہ ’وہ میری بیٹی نہیں میرا دلیر بیٹا تھی۔۔۔ وہ بہت دلیر تھی، وہ ایسی چیزوں، دھمکیوں کو کچھ نہیں سمجھتی تھی۔ اس نے ان دھمکیوں کوئی اہمیت ہی نہیں دی ہو گی اسی لیے میرے ساتھ شیئر نہیں کیا ہو گا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ثنا کو سوشل میڈیا پر زیادہ وقت نہیں ہوا۔ سال، کچھ مہینے ہوئے ہیں۔‘

ثنا کے والد اپنی بیٹی کے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انھیں اپنی بیٹی پر بہت اعتماد تھا۔ ’وہ سوشل میڈیا پر جو کر رہی تھی مجھے اس پر کانفیڈینس (اعتماد) تھا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کے بارے میں کچھ اور بتانا چاہیں گے کہ وہ کیسی تھیں یا زندگی میں کیا بننا چاہتی تھیں تو سید یوسف حسن جذباتی ہو گئے اور کہا ’میں اس وقت کیا کہہ سکتا ہوں؟‘

بعد میں انھوں نے بتایا کہ ثنا ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ وہ میڈیکل کے شعبے میں دلچسپی رکھتی تھی اور اس میں اچھی کارکردگی بھی دکھا رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں تو اسے منع کر رہا تھا کہ سی ایس ایس کے لیے کوئی اکیڈمی جوائن کر لو مگر اسے میڈیکل کا شوق تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میرے دو بچے ہیں۔ میرا بیٹا جو 15 سال کا ہے، گاؤں میں تھا۔ اور ثنا میری اکلوتی بیٹی تھی۔‘

اس سوال کے جواب میں کیا وہ پولیس کی اب تک کی تفتیش اور گرفتاری سے مطمئن ہیں، اور کیا وہ سمجھتے ہیں کہ گرفتار کیا گیا شخص وہی ہے جس نے ان کی بیٹی کو قتل کیا؟ یوسف حسن کا کہنا تھا کہ ’میں اسلام آباد پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے تقریباً 22 گھنٹے کے اندر اندر ملزم کو گرفتار کر لیا اور اس سے موبائل اور چیزیں برآمد کر لیں۔‘

’قاتل گرفتار ہو چکا ہے اور میں انتہائی مطمئن ہوں اور آئی جی اسلام آباد اور اسلام آباد پولیس کی پوری ٹیم کا شکرگزار ہوں۔‘

ثنا یوسف کون تھیں؟

ثنا یوسف کی عمر صرف 17 برس تھی۔ ان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال سے تھا لیکن ان کا خاندان کچھ عرصے سے اسلام آباد میں مقیم تھا۔

پیر کے روز ثنا یوسف کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ان کی سالگرہ کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی، جس میں انھیں اپنے دوستوں کے ساتھ سالگرہ مناتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان کی زیادہ تر ویڈیوز میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کے مختلف مقامات پر گھومتی اور کھانے سے لطف و اندوز ہوتی نظر آتی ہیں۔

ثنا یوسف کی ایک دوست نے بتایا کہ جس روز وہ قتل ہوئیں اس سے چند گھنٹے قبل انھوں نے اپنی سالگرہ کا دن منایا تھا۔

’اس نے اپنے کچھ انتہائی قریبی دوستوں کو دعوت دی تھی۔ جس میں، میں بھی شامل تھی مگر میں کسی وجہ سے نہیں جا سکی تھی، جس کا مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔‘

17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقلحضرت عیسیٰ کی تصویر سے مخاطب ہو کر انھیں بال کٹوانے کا مشورہ دینے پر ٹک ٹاکر کو قید کی سزاٹک ٹاک پر شادی کی مشکلات اور طلاق کا ذکر کرنے والی ثانیہ جنھیں ان ہی کے شوہر نے قتل کر دیاسور کا گوشت کھانے سے پہلے ’بسم اللہ‘ پڑھنے والی ٹک ٹاکر کو دو سال قید کی سزاٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More