BBCسدھو موسے والا کو سنہ 2022 میں دن دیہاڑے قتل کیا گیا
یہ ایک ایسا قتل تھا جس نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا: پنجابی ہپ ہاپ سٹار سدھو موسے والا کو کرائے کے قاتلوں نے ان کی کار کی ونڈ سکرین سے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
کچھ ہی گھنٹے بعد گولڈی برار نامی پنجابی گینگسٹر نے فیس بک کا استعمال کرتے ہوئے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی۔
لیکن اس قتل کے تین برس بعد بھی کسی کو مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور گولڈی برار بھی ابھی تک فرار ہیں اور اس بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
اب بی بی سی آئی نے گولڈی برار سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سدھو موسے والا کو کیوں قتل کیا گیا۔
ان کا جواب انتہائی سرد اور محتاط تھا۔
گولڈی برار نے بی بی سی ورلڈ سروس کو تکبرانہ انداز میں بتایا کہ ’موسے والا نے کچھ ایسی غلطیاں کیں جنھیں معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
’ہمارے پاس اسے مارنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ اسے اپنے اعمال کے نتائج بھگتنا تھے۔ یا تو وہ رہتا یا پھر ہم۔ یہ سادہ سی بات ہے۔‘
مئی 2022 کی ایک گرم شام سدھو موسے والا اپنی کالے رنگ کی مہندرا تھر ایس یو وی پر انڈین ریاست پنجاب میں اپنے گاؤں کے قریب دھول بھری گلیوں میں جا رہے تھے کہ چند ہی منٹوں میں دو گاڑیاں ان کا پیچھا کرنے لگیں۔
بعد میں سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ان گاڑیوں کو تنگ موڑ پر سدھوموسے والا کی گاڑی کے قریب آتے دیکھا گیا۔ پھر سڑک کے ایک موڑ پر ان گاڑیوں میں سے ایک آگے بڑھی اور موسے والا کی ایس یو وی دیوار سے ٹکرائی۔
موسے والا پھنس چکے تھے اور چند ہی لمحوں بعد فائرنگ شروع ہو گئی۔
موبائل فوٹیج میں فائرنگ کے بعد کی منظر کشی ہوئی۔ موسے والا کی ایس یو وی گولیوں سے چھلنی تھی، ونڈ سکرین ٹوٹ گئی تھی جبکہ گاڑی کا بونٹ پنکچر ہو گیا۔
جائے وقوعہ پر موجود افراد نے کانپتی آوازوں میں اپنے صدمے اور تشویش کا اظہار کیا۔
’کوئی انھیں گاڑی سے باہر نکالے۔۔۔‘
’پانی لاؤ۔۔۔‘
’موسے والا کو گولی لگ گئی۔۔۔‘
لیکن بہت دیر ہو چکی تھی اور ہسپتال پہنچنے پر موسے والا کو مردہ قرار دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انھیں 24 گولیاں لگی تھیں۔
جدید دور کے پنجاب کے سب سے بڑے ثقافتی آئیکون اور 28 سالہ ریپر کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا تھا۔
اس وقت گاڑی میں موسے والا کے ساتھ ان کے ایک کزن اور ایک دوست بھی موجود تھے، جو اس حملے میں زخمی ہوئے لیکن زندہ بچ گئے۔
آخر کار چھ مسلح افراد کی شناخت ہوئی۔ انھوں نے اے کے 47 اور پستول اٹھا رکھے تھے۔ قتل کے بعد کے ہفتوں میں تقریباً 30 افراد کو گرفتار کیا گیا اور دو مشتبہ مسلح افراد مارے گئے جنھیں انڈین پولیس نے ’انکاؤنٹر‘ قرار دیا۔
متعدد افراد کی گرفتاریوں کے باوجود قتل کے پیچھے محرکات مشکوک ہی رہے۔
گولڈی برار جو اس قتل کا حکم دینے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، اس موقع پر انڈیا میں موجود نہیں تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا میں تھے۔
ان کے ساتھ ہماری بات چیت چھ گھنٹے پر محیط تھی جو وائس نوٹس کے تبادلے کی صورت میں ہوئی۔
اس سے ہمیں یہ جاننے کا موقع ملا کہ موسے والا کو کیوں مارا گیا اور اس قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والے شخص کے مقاصد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کا موقع بھی ملا۔
Getty Imagesصرف پانچ برس میں موسے والا پنجابی ہپ ہاپ کی جانی مانی آواز بن گئے
سدھو موسے والا کا پیدائشی نام شوبھدیپ سنگھ سدھو تھا اور وہ دیہی پنجاب کے ایک جاٹ سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔
سنہ 2016 میں وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کینیڈا چلے گئے تھے۔
اپنے گاؤں ’موسا‘ جس سے انھیں اپنے ریپ نام کا خیال آیا، وہاں سے کوسوں دور کینیڈا میں انھوں نے خود کو پنجابی موسیقی کے سب سے بااثر فنکاروں میں سے ایک کے طور پر نئے سرے سے متعارف کروایا۔
صرف پانچ برس میں موسے والا پنجابی ہپ ہاپ کی جانی مانی آواز بن گئے۔
اپنے منفرد انداز اور گیتوں کے ساتھ موسے والا نے شناخت اور سیاست، بندوقوں اور انتقام کے بارے میں کھل کر گایا، اور پنجابی موسیقی کے روایتی تصور کو تبدیل کیا۔
وہ سنہ 1996 میں 25 سال کی عمر میں قتل ہونے والے ریپر ٹوپاک شکور سے متاثرتھے۔ موسے والا نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں (ٹوپاک شکور) جیسا بننا چاہتا ہوں۔ جس دن ان کی موت ہوئی، لوگ ان کے لیے روئے۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو لوگ یاد رکھیں کہ میں کچھ تھا۔‘
اپنے مختصر لیکن شاندار کیریئر کے دوران موسے والا نے انڈین پنجاب کے گینگسٹر کلچر، بے روزگاری اور سیاسی زوال پذیری پر روشنی ڈالی اور گاؤں کی زندگی کے لیے لوگوں کی پرانی یادوں کو تازہ کیا۔
موسے والا کو عالمی شہرت حاصل تھی۔ یوٹیوب پر ان کی میوزک ویڈیوز کے پانچ ارب سے زیادہ ویوز ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے برنا بوائے جیسے بین الاقوامی ہپ ہاپ فنکاروں کے ساتھ مل کر کام کیا جس سے انڈیا، کینیڈا اور برطانیہ تک ان کے فینز میں اضافہ ہوا۔ لوگ انھیں ایک آئیکون اور باغی دونوں کے طور پر دیکھتے تھے۔
لیکن شہرت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔
ایک ابھرتے ستارے اور سماجی طور پر باشعور دھنوں کے باوجود موسے والا خطروں کی جانب بڑھتے جا رہے تھے۔
ان کے منحرف رویے، شہرت اور بڑھتے اثر و رسوخ نے پنجاب میں خوف کی علامت سمجھے جانے والے گینگسٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ ان میں گولڈی برار اور اس کے دوست لارنس بشنوئی بھی شامل تھے۔ لارنس بشنوئی اس وقت انڈیا کی ہائی سکیورٹی جیل میں تھے۔
گولڈی برار کے بارے میں اس سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں کہ وہ انٹرپول کی ریڈ نوٹس لسٹ میں شامل ہیں اور لارنس بشنوئی کے ذریعے چلائے جانے والے گینگسٹرز کے نیٹ ورک میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں: قتل و غارت، دھمکیاں دینا اور گینگ کی پہنچ کو بڑھانا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ موسے والا کے کینیڈا جانے کے ایک سال بعد گولڈی برار بھی سنہ 2017 میں وہاں چلے گئے تھے اور ابتدائی طور پر انھوں نے ٹرک ڈرائیور کے طور پر کام کیا۔
بشنوئی، جو کبھی پنجاب کی پرتشدد کیمپس سیاست کے طالبعلم رہنما تھے، کا شمار اب انڈیا کے سب سے زیادہ خوفناک مجرموں میں ہوتا ہے۔
Hindustan Times via Getty Imagesلارنس بشنوئی کا شمار انڈیا کے سب سے زیادہ خوفناک مجرموں میں ہوتا ہے
انڈین اخبار ٹریبیون کے ڈپٹی ڈائریکٹر جوپندرجیت سنگھ کے مطابق ’لارنس بشنوئی کے خلاف درج کیے گئے پہلے (پولیس) مقدمات کا تعلق طلبہ سیاست اور طلبہ انتخابات سے تھا۔۔۔ حریف طالب علم رہنما کی پٹائی، اسے اغوا کرنا، اسے نقصان پہنچانا۔‘
پنجاب پولیس کی اینٹی گینگسٹر ٹاسک فورس کے اسسٹنٹ انسپیکٹر جنرل گرمیت سنگھ چوہان کا کہنا ہے کہ ان مقدمات میں ان کا جیل آنا جانا لگا رہا جس نے انھیں مزید سخت بنا دیا
’جیل آنے پر ان کا جرائم کی دنیا سے تعلق مضبوط ہوا۔ پھر انھوں نے اپنا ایک گروپ بنایا۔ جب یہ ایک انٹر گینگ چیز بن گئی تو اسے قائم رکھنے کے لیے انھیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ زیادہ افرادی قوت اور زیادہ ہتھیاروں کی ضرورت۔ اس سب کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا پیسوں کے لیے آپ کو بھتہ خوری یا جرائم کرنا پڑتے ہیں۔‘
31 سال کے بشنوئی اب اپنے گینگ کو سلاخوں کے پیچھے سے چلاتے ہیں، ان کے انسٹاگرام پیج ہیں اور ان کے جنونی فالوورز کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
اسسٹنٹ انسپیکٹر جنرل چوہان کہتے ہیں کہ ’تو جب بشنوئی جیل میں ہے تو برار ان کے گینگز کو سنبھالتا ہے۔‘
برار گولڈی کے ساتھ بی بی سی کا رابطہ ایک برس کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس کے دوران ان تک پہنچنے کے لیے ان کے بہت سے جاننے والوں سے رابطہ کیا گیا، جوابات کا انتظار کیا گیا اور آخر کار ہم آہستہ آہستہ گولڈی برار کے قریب ہوتے گئے۔
لیکن جب ہم گولڈی برار تک پہنچے میں کامیاب ہو گئے تو ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے ان سوالات پر نئی روشنی ڈالی کہ وہ اور لارنس بشنوئی، سدھو موسے والا کو دشمن کے طور پر کیسے اور کیوں دیکھنے لگے؟
انسان دوست سدھو موسے والا: ’گلوکار جس نے نوجوان نسل کو پنجاب اور سکھ مذہب سے جوڑا‘ سدھو موسے والا کا ’نیا جنم‘: ’یہ میرے لیے اُسی جیسا ہے، وہی چہرہ، وہ نین نقش‘سدھو موسے والا کے قتل کے ملزمان لارنس بشنوئی اور گولڈی برار کون ہیں؟بندوقوں سے لگاؤ، دشمنوں کو ختم کرنے کی باتیں: سدھو موسے والا کی موسیقی کی پریشان کُن وراثتBBCگولڈی برار، لارنس بشنوئی کے ساتھ
پہلے انکشافات میں سے ایک یہ تھا کہ بشنوئی کے موسے والا کے ساتھ تعلقات کئی سال پرانے تھے۔
گولڈی برار نے بتایا کہ ’لارنس بشنوئی سدھو موسے والا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مجھ نہیں معلوم کے ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کس نے کروایا لیکن ان کی بات ہوتی تھی۔‘
’سدھو موسے والا لارنس بشنوئی کی چاپلوسی کی کوشش میں انھیں ’گڈ مارننگ‘ اور ’گڈ نائٹ‘ کے پیغام بھیجتے تھے۔‘
موسے والا کے ایک دوست نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ ’بشنوئی 2018 کے اوائل سے ہی موسے والا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ لارنس بشنوئی نے جیل سے فون کر کے موسے والا کو بتایا تھا کہ انھیں ان کی موسیقی پسند ہے۔‘
گولڈی برار نے ہمیں بتایا کہ ان کے درمیان ’پہلا تنازع‘ موسے والا کے انڈیا واپس جانے کے بعد ہوا تھا۔
اس تنازع کا آغاز ایک پنجابی گاؤں میں کبڈی کے ایک بظاہر بے ضرر سے میچ سے ہوا۔
Getty Imagesگولڈی برار کے مطابق بشنوئی اور موسے والا میں تنازع کا آغاز کبڈی کے ایک میچ سے ہوا تھا
موسے والا نے اس ٹورنامنٹ کی تشہیر کی تھی جس کا انعقاد بشنوئی کے حریفوں ’بمبیہا گینگ‘ نے کیا تھا۔
گولڈی برار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ (کبڈی) ایک ایسا کھیل ہے، جس میں میچ فکسنگ اور گینگسٹرز کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘
برار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے حریفوں کا تعلق اس گاؤں سے ہے۔ وہ ہمارے حریفوں کو پروموٹ کر رہا تھا۔ اس وقت لارنس اور دیگر لوگ اس سے ناراض ہوئے۔ انھوں نے سدھو موسے والا کو دھمکی دی اور کہا کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گے۔‘
اس کے باوجود موسے والا اور بشنوئی کے درمیان تنازع آخرکار لارنس بشنوئی کے ایک ساتھی وکی مدھوکھیرا نے حل کروا دیا۔
BBCلارنس بشنوئی وکی مدھوکھیرا کے ساتھ
گولڈی برار نے ہمیں بتایا کہ لیکن جب اگست 2021 میں وکی مدھوکھیرا کو موہالی کی ایک پارکنگ میں گینگسٹرز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تو بشنوئی کی سدھو موسے والا کے ساتھ دشمنی اس حد تک پہنچ گئی کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہا۔
بمبیہا گینگ نے وکی مدھوکھیرا کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ پولیس نے موسے والا کے دوست اور ماضی میں ان کے منییجر رہنے والے شگن پریت سنگھ کو چارج شیٹ میں نامزد کیا۔ چارج شیٹ میں اس حوالے سے ثبوت تھے کہ شگن پریت سنگھ نے اس حوالے سے قاتلوں کو معلومات اور لاجسٹک مدد فراہم کی تھی۔
شگن پریت سنگھبعد میں انڈیا سے فرار ہو گئے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں ہیں تاہم موسے والا نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
پنجاب پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ موسے والا کے کسی قتل یا اس گینگ کے کسی جرم سے وابستہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
لیکن موسے والا کی شگن پریت سنگھ کے ساتھ دوستی تھی اور وہ کبھی بھی اس تاثر کو ختم نہیں کر سکے کہ وہ بمبیہا گینگ کے ساتھ منسلک ہیں، ایک ایسا تاثر جس کی وجہ سے انھیں اپنی جان گنوانی پڑی۔
اگرچہ گولڈی برار موسے والا کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے لیکن انھیں یقین ہے کہ پنجابی گلوکار کسی نہ کسی طرح وکی مدھوکھیرا کے قتل میں ملوث تھے۔
گولڈی برار نے ہمیں بارہا بتایا کہ شگن پریت سنگھ نے وکی مدھوکھیرا کی ہلاکت سے پہلے مسلح افراد کی مدد کی تھی۔ گولڈی برار کا اپنا خیال ہے کہ موسے والا اس قتل میں ملوث رہے ہوں گے۔
گولڈی برار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر کوئی سدھو کے کردار کے بارے میں جانتا تھا، تفتیش کرنے والی پولیس جانتی تھی، حتیٰ کے تفتیش کرنے والے صحافی بھی جانتے تھے۔ ’سدھو کا سیاست دانوں اور طاقتور افراد سے میل جول تھا۔ وہ سیاسی طاقت، پیسہ اور اپنے وسائل کا استعمال کر کے ہمارے حریفوں کی مدد کر رہا تھا۔‘
’ہم چاہتے تھے کہ اسے اپنے کیے کی سزا ملے۔ اس پر مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا، اسے جیل بھیج دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن کسی نے ہماری درخواست پر توجہ نہیں دی۔‘
’چنانچہ ہم نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جب شرافت کی زبان نہیں سنی جاتی تو گولی کی آواز ہی سنائی دے گی۔‘
بی بی سی نے برار سے سوال کیا کہ انڈیا میں ایک عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی ہے۔ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا جواز کیسے دے سکتے ہیں؟
برار نے جواب دیا کہ ’قانون، انصاف، ایسی کوئی چیز نہیں۔ انصاف ہم جیسے عام لوگوں کو نہیں بلکہ صرف طاقتوروں کو ملتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وکی مدھوکھیرا کے بھائی نے سیاست میں ہونے کے باوجود انڈیا کے عدالتی نظام کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔
’ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔ انھوں نے قانون کے مطابق اپنے بھائی کے لیے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پلیز آپ انھیں فون کر کے پوچھیں کہ سب کیسا چل رہا ہے۔‘
گولڈی برار کو کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے بھائی کے لیے جو کرنا تھا وہ کر دیا۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔‘
سدھو موسے والا کا قتل موسیقی کے صرف ایک بڑے نام کا نقصان ہی نہیں بلکہ اس نے پنجاب کے گینگسٹرز کو مزید طاقتور بنا دیا۔
سدھو موسے والا کے قتل سے پہلے پنجاب کے باہر بہت کم لوگ ہی لارنس بشنوئی اور گولڈی برار کے نام سے واقف تھے تاہم اس قتل کے بعد ان کا نام ہر جگہ پھیل گیا۔ انھوں نے موسے والا کی شہرت کو ہائی جیک کیا اور اسے اپنی بدنامی کا ایک برانڈ بنا دیا، ایسی بدنامی جو بھتہ خوری کے ایک طاقتور ہتھیار میں تبدیل ہو گئی۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے صحافی ریتیش لاکھی کا کہنا ہے کہ ’یہ پنجاب میں گزشتہ کئی دہائیوں میں ہونے والا سب سے بڑا قتل ہے۔ گینگسٹرز کی جانب سے بھتہ وصول کرنے میں اضافہ ہوا۔ گولڈی برار سدھو موسے والا کو قتل کرنے کے بعد بڑی رقوم وصول کر رہا ہے۔‘
دوسری جانب صحافی جوپندرجیت سنگھ بھی اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عام لوگوں میں گینگسٹرز کے لیے موجود خوف میں نمایاں اضافہ ہوا۔‘
پنجابی موسیقی کی صنعت میں بھتہ خوری ایک پرانا مسئلہ رہا ہے لیکن سِدھو کے قتل کے بعد کی صورتحال پر جوپندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’اب صرف میوزک اور فلمی صنعت سے وابستہ لوگ ہی نہیں بلکہ مقامی کاروباری حضرات کو بھی دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔‘
جب بی بی سی نے گولڈی برار سے اسی بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کو قتل کی اصل وجہ ماننے سے انکار کیا تاہم ساتھ ہی یہ تسلیم کیا کہ بھتہ خوری اُن کے گینگ کے کام کا مرکزی حصہ ہے۔
’چار افراد کے خاندان کو پالنے کے لیے ایک شخص ساری زندگی جدوجہد کر تا ہے۔ ہم نے تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے لوگوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے جو ہمارے لیے اپنے ہی خاندان کی طرح ہیں۔ ہمیں لوگوں سے پیسے نکلوانے ہی پڑتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیسے نکلوانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ہم سے ڈریں۔‘
انسان دوست سدھو موسے والا: ’گلوکار جس نے نوجوان نسل کو پنجاب اور سکھ مذہب سے جوڑا‘ سدھو موسے والا کے قتل کے ملزمان لارنس بشنوئی اور گولڈی برار کون ہیں؟سدھو موسے والا کا ’نیا جنم‘: ’یہ میرے لیے اُسی جیسا ہے، وہی چہرہ، وہ نین نقش‘بندوقوں سے لگاؤ، دشمنوں کو ختم کرنے کی باتیں: سدھو موسے والا کی موسیقی کی پریشان کُن وراثتسدھو موسے والا کا نیا گانا ’سیکشن 12‘: ’تمھیں اس وقت تک زندہ نہیں رہنے دوں گا جب تک میں مر نہ جاؤں‘’پہلے شوٹر نے اے کے 47 سے فائرنگ شروع کی۔۔۔‘ سدھو موسے والا کے قتل کی کہانی پولیس کی زبانی