Getty Images2550 ارب روپے کا دفاعی بجٹ پاکستان کے جی ڈی پی کا 1.97 فیصد جبکہ مجموعی وفاقی بجٹ کا 14.5 فیصد بنتا ہے
پاکستان کی وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 کا اعلان کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں 20.2 فیصد کا بڑا اضافہ تجویز کیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے دفاع کا بجٹ 428 ارب روپے کے اضافے کے بعد 2550 ارب روپے ہو جائے گا۔ دفاعی اخراجات کے ضمن میں رکھی گئی یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کا 1.97 فیصد جبکہ یہ رقم مجموعی بجٹ کا 14.5 فیصد بنتی ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق دفاعی بجٹ میں بڑا اضافہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی وفاقی اخراجات سات فیصد کم کر کے 17.57 ٹریلین روپے تک محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
2550 ارب روپے کے دفاعی بجٹ کے علاوہ لگ بھگ 1055 ارب روپے ریٹائرڈ فوجیوں کی پینشن کی مد میں بھی رکھے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ فوجی پینشن کو دفاعی بجٹ کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور آئندہ مالی سال کے لیے پینشن کی مد میں رکھی گئی یہ رقم مجموعی وفاقی بجٹ کے چھ فیصد کے قریب ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا بجٹ تقریر کے دوران کہنا تھا کہ ’ملک میں سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہے اور مسلح افواج نے سرحدوں کی حفاظت میں قابل ستائش خدمات انجام دی ہیں۔ ملکی دفاع حکومت کی اہم ترجیح ہے اور اس قومی فرض کے لیے 2550 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔‘
حکومت کا مؤقف ہے کہ رواں برس مئی کے اوائل میں انڈیا کے ساتھ چار روزہ تنازعے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتے دہشت گرد حملے فوجی صلاحیت بڑھانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔
Getty Images
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے بجٹ سے پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا کہ ’خودمختاری کی قیمت پر بچت نہیں ہو سکتی اور دفاعی رقوم میں اضافہ ناگزیر ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ اس بجٹ میں مسلح افواج کی صلاحیت بڑھانے اور مستقبل میں وطن کے دفاع کے لیے جو کچھ درکار ہو، وہ فراہم کریں۔ ثابت ہو چکا ہے کہ ہمارا ایک خطرناک ہمسایہ (انڈیا) ہے جس نے رات کی تاریکی میں ہم پر حملہ کیا لیکن ہم نے اُس کا منہ توڑ جواب دیا۔‘
انھوں کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک کو اس بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ اگر وہ دوبارہ حملہ کریں تو ہم فوری جواب دے سکیں۔‘
رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے مسلح افواج کے افسران اور سپاہیوں کے لیے سپیشل الاؤنس کا اعلان بھی کیا ہے تاہم وزیر خزانہ کے مطابق یہ رقم دفاعی بجٹ سے ہی خرچ کی جائے گی۔
یاد رہے کہ آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ہونے والا اضافہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے بڑا اضافہ ہے۔
اس سے قبل گزشتہ برس اپنا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے دفاع کے لیے 318 ارب روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 2122 ارب روپے مختص کیے تھے۔ اسی طرح مالی سال 24-2023 میں دفاع کے لیے 1804 ارب جبکہ مالی سال 23-2022 میں 1530 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق سال 26-2025 کے لیے پاکستان کی بری فوج کے لیے 1170 ارب (جو کہ مجموعی دفاعی بجٹ کا 45.9 فیصد)، پاکستان ایئرفورس کے لیے 520.75 ارب (مجموعی دفاعی بجٹ کا 20.4 فیصد)، پاکستان نیوی کے لیے 265.97 ارب (10.4 فیصد) جبکہ انٹر سروسز آرگنائزیشنز کے لیے 498.11 فیصد (مجموعی بجٹ کا 19.5 فیصد) رکھنے کی تجویز ہے۔
یاد رہے کہ انڈیا اپنا سالانہ بجٹ فروری کے مہینے میں پیش کرتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق رواں مالی سال (26-2025) کے لیے انڈیا نے اپنے دفاعی بجٹ میں 9.5 فیصد کا اضافہ کیا تھا جس کے بعد انڈیا کا دفاعی بجٹ بڑھ کر اب تقریباً 78.7 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو انڈیا کے سالانہ دفاعی اخراجات پاکستان سے نو گنا زیادہ ہیں تاہم ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انڈیا سے پاکستان کے دفاعی اخراجات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوںکہ انڈیا کی معیشتپاکستان سے بہت بہتر ہے۔
دفاعی بجٹ میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟AFPآئندہ مالی سال کے بجٹ میں آرمی کے لیے 1170 ارب، ایئرفورس کے لیے 520.75 ارب، نیوی کے لیے 265.97 ارب جبکہ انٹر سروسز آرگنائزیشنز کے لیے 498.11 ارب رکھنے کی تجویز ہے
تجزیہ کار عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ چار روزہ تنازع پاکستان کے دفاعی بجٹ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان اپنے دفاع کے معاملات میں ’ریلیکس‘ نہیں ہو سکتا۔
’ماضی میں دیکھیں تو پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کوئی بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوتا رہا، عام طور پر ایڈجسٹمنٹس ہوتی تھیں۔۔۔ (موجودہ صورتحال میں) دفاعی صلاحیت کا مضبوط ہونا لازم ہے اور یہ ایسا امر ہے کہ جس سے خطے کی موجودہ صورتحال میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘
تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ ’پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسائل کا سامنا ہے اور اب انڈیا کی طرف سے خطرہ بڑھ گیا۔ دفاعی بجٹ میں اضافے کی تجویز کو پاکستان میں اقتدار کے حلقوں میں ہرگز کسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور یہ اسی شکل میں منظور بھی ہو جائے گا۔‘
یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی کے بعد قومی اور بین الاقوامی دفاعی ماہرین خطے میں اسلحے کے حصول کی نئی دوڑ اور دفاعی اخراجات میں اضافے کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ ’انڈیا کا جارحانہ بیانیہ اور دہشت گردی کی تازہ لہر نے دفاعی اخراجات میں اضافے کو ایک طرح کا ’نیو نارمل‘ بنا دیا۔ انڈیا کی جانب سے تواتر سے آنے والے بیانات سے پاکستان میں تشویش بڑھ رہی ہے۔‘
’پاکستان کا بیانیہ یہ ہے کہ ہم کنوینشنل وارفیئر (روایتی جنگ) کو ایک نئے لیول پر لے گئے ہیں۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ اس اضافے کی کسی سطح پر ہرگز مخالفت نہیں ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ حلقے بھی جو عموماً بجٹ پر تنقید کرتے ہیں، اب صرف فوج کے ’نان کومبیٹینٹ‘ اخراجات کم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔‘
دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ خسارے کے بجٹ اور مشکل معاشی حالات میں دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کو قبول کرنا مشکل ہے۔
تاہم تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ دفاع کے بڑھتے اخراجات انڈیا اور پاکستان دونوں ہی ملکوں کی عوام کو متاثر کرتے ہیں۔
عامر ضیا کے مطابق دونوں ملکوں میں غربت اور غریب عوام کا حال ایک سا ہے۔ ’پاکستان اور انڈیا میں لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، غذائیت کی کمی بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے، غربت بہت زیادہ ہے، کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، پینے کو صاف پانی میسر نہیں لیکن دونوں ملکوں کا دفاعی بجٹ دیکھیں تو یہ حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے۔‘
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بدقسمتی سے بجٹ اور معاشی پالیسی میں کوئی ’انوویشن‘ نہیں آ رہی۔
’جب تک ملک میں جدید معاشی اصلاحات نافذ نہیں ہوں گی اور حکومتیں چاہے علامتی ہی سہی مگر اپنا سائز اور اپنے اخراجات کم نہیں کریں گی، دفاع جیسے شعبوں کے بجٹ بڑھنے کا بوجھ ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں پر ہی پڑتا رہے گا۔‘