سندھ کے سرکاری استاد جو بچوں کو ’انٹرٹینمنٹ‘ سے تعلیم دیتے ہیں

اردو نیوز  |  Jun 12, 2025

کچھ روز قبل فیس بک دیکھتے ہوئے ایک ویڈیو سامنے آئی کہ ایک استاد جو کمرہ جماعت میں بچوں اور بچیوں کے سامنے سُریلے انداز میں نصابی کتاب میں سے نظم پڑھ رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے ساتھ ہی بینچ پر لیٹے بچے کا سر دبا رہے ہیں۔

ویڈیو میں استاد بتاتے ہیں کہ بچہ ان کے پاس آیا اور اس کی آنکھوں میں پانی بھرا ہوا تھا اس نے ناسازی طبع اور سر درد کی شکایت کی۔ تو بجائے بچے کو وہ اس حالت میں گھر بھیج دیتے انہوں نے بینچ پر بچے کو لٹایا اور اس کا سر دبانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنا کام بھی جاری رکھا۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بچہ سو گیا اور تقریبا ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد جب وہ اٹھا تو اس کی طبیعت بہتر ہو چکی تھی۔ 

یہ استاد سندھ کے دور افتادہ ضلع سانگڑ کی تحصیل سنجورو کے گاؤں چک نمبر 30 کے گورنمث پرائمری سکول دیہہ 30 جمراو میں تعینات ہیں۔ 

پانچ جماعتوں کے 74 طلبہ کے اکلوتے استاد، مالی، چوکیدار یہاں تک کہ ان کے گارڈین اور سرپرست بھی سید ضیاء الحسن بخاری ہی ہیں جو ان کی سکول یونیفارم، حجامت، کتب کی خریداری، سکول کی صفائی ستھرائی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی تک کے تمام امور تن تنہا سرانجام دیتے ہیں۔

وہ اپنی ان سرگرمیوں کی ویڈیوز فیس بک پیج پر اپلوڈ کرتے ہیں جہاں انہیں سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے بے حد پذیرائی ملتی ہے۔ 

اُردو نیوز سے گفتگو میں سید ضیاء الحسن بخاری نے بتایا کہ تین سال قبل انہوں نے آئی بی اے کے لیے ٹیسٹ پاس کیا تھا اور ساتھ ہی سرکاری سکول ٹیچر کے طور پر بھی ان کی بھرتی ہوئی۔ سوچ بچار کے بعد انہوں نے اپنے ہی علاقے کے بچوں کو پڑھانے اور ان کی تربیت کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ سکول کے 99 فیصد بچے غیر مسلم ہیں اور پسماندہ ترین خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’ان کے والدین نے کبھی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھیں اس لیے میں نے ان کی تربیت اور تدریس دونوں کا ذمہ لیا ہے۔‘

سید ضیا الحسن بخاری تین زبانوں میں سکول کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں جن میں مقامی زبان سندھی، اردو اور انگریزی شامل ہیں۔

’میرے سکول کے 99 فیصد بچے غیر مسلم ہیں اور ان کی جو مادری زبان ہے وہ الگ ہے۔ ہمارے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جو کتابیں ہیں اس میں یہ ساری زبانیں موجود ہیں جیسے سندھی بھی ہے انگلش بھی ہے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ کتاب کو پڑھنا ایک چھوٹے بچے کے لیے ذرا مشکل ہو جاتا ہے تو اس لیے میں نے اس کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔‘

ضیا الحسن بخاری تین زبانوں میں سکول کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں جن میں مقامی زبان سندھی، اردو اور انگریزی شامل ہیں (فوٹو: اُردو نیوز)سید ضیا الحسن بخاری نے بتایا کہ ’ایک مادری زبان ہے آپ کی پھر علاقائی زبان ہے پھر اگر ہم علاقے سے نکل کر ہم اپنے ملک کے کسی صوبے کسی علاقے میں جاتے ہیں تو وہاں پر لازمی سی بات ہے کہ کوئی ایسی زبان بھی ہمیں آنی چاہیے جس میں ہم لوگوں کی باتوں کو سمجھ سکیں۔ پھر اردو اور آخر میں انگریزی زبان میں پڑھاتا ہوں۔‘

دلچسپ بات یہ کہ ان کا طرزِ تدریس روایتی نہیں بلکہ وہ گا کر بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ 

اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’میں چاہتا ہوں کہ بچے تعلیم کو انٹرٹینمنٹ سمجھ کر زیادہ سے زیادہ سیکھیں۔ لوگوں کی نظر میں سکول ایک درس گاہ ہے جبکہ میری نظر میں سکول  سب سے پہلے تربیت گاہ ہے اور اس کے بعد  درسگاہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تربیت گاہ اس لیے کہتا ہوں کہ جس عمر کے بچے پرائمری سکول کے اندر آتے ہیں تو وہ جو آپ پڑھا رہے ہیں بچے وہ نہیں سیکھتے وہ چیز وہ کبھی بھی نہیں سیکھیں گے بلکہ وہ چیز سیکھیں گے جو آپ کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب کوئی بچہ میرے پاس اپنی کوئی جسمانی تکلیف یا بیماری کا بتانے آتا ہے تو میں اسے پروٹوکول دیتا ہوں اور اس کی بات سنتا ہوں اور اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا اثر یہ ہے کہ اب اگر سکول میں کسی بچے کو کوئی تکلیف ہو تو چار پانچ بچے دوڑتے ہوئے اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کی بات سنتے اور اس کی شکایت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

سید ضیا الحسن بخاری نے مزید بتایا کہ ’میں نے جب بچوں کو سگریٹ تمباکو نوشی پان اور گٹکے کے نقصانات سے متعلق ویڈیوز دکھائیں تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ 74 میں سے 19 بچوں نے اپنے والدین کو سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیاء چھڑوا دی ہیں۔‘

عام طور پر بچوں کے بہت سے معاملات والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں جن میں بچے کی صفائی ستھرائی سے متعلق امور جن میں بال کاٹنا، ناخن تراشنا وغیرہ شامل ہیں لیکن ضیاء الحسن بخاری نے یہ کام بھی اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔

وہ مہینے میں ایک بار حجام کو سکول بلاتے ہیں اور پورے سکول کے بچوں کے بالوں کی تراش خراش کرواتے ہیں اور کم و بیش ہر ہفتے بچوں کے ناخن درست طریقے سے تراشنے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔

ضیاء الحسن بخاری نے بچوں کے وہ معاملات اپنے ذمے لے رکھے ہیں جو عام طور پر والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں (فوٹو: اُردو نیوز)ان کا کہنا ہے کہ ’سکول میں حجامت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ایک ہی سٹائل کے بال کٹتے ہیں۔ اگر میں بچوں کے والدین کی ذمہ داری لگاتا ہوں کہ بچوں کے بال کٹوا کر بھیجیں تو پھر والدین سیریس نہیں ہوتے، کسی بچے کے بال پہلی تاریخ کو کٹ رہے ہیں کسی کے 10 تاریخ کو اور کسی کے نہیں کٹتے۔ زندگی میں یہ اُصول لاگو کرنا بہت ضروری ہیں تاکہ بچوں کی کردار سازی بھی ہوتی رہے۔‘

سید ضیاء الحسن بخاری کے مطابق وہ بچوں کو معاشرے کا بہتر انسان بنانے اور انہیں طور طریقے سکھانے کے لیے طرح طرح کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ بچے پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ ان کے لیے اکثر کھانے پینے کی دعوت کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ چونکہ یہ دور دراز اور گاؤں سے باہر کا علاقہ ہے اس لیے وہ سکول کے بچوں کی مرہم پٹی اور فرسٹ ٹریڈ کے لیے ساز و سامان سکول کے اندر رکھتے ہیں۔ سکول کے لیے بینچ بھی انہوں نے خود بنوائے ہیں جس کے لیے وہ دوست احباب سے تعاون لیتے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ’سکول میں نہ تو کوئی ساتھی ٹیچر ہے نہ ہی مالی اور نہ ہی کوئی چوکیدار۔ سکول کا نہ ہی کوئی دروازہ ہے نہ کھڑکی، اس لیے ہم جو سامان اکٹھا کر لیتے ہیں وہ چوری ہو جاتا ہے۔‘

ضیاء الحسن کے مطابق سکول کی عمارت کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم پرخطر عمارت کے اندر تعلیم دینے اور حاصل کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ کئی بار سکول کی سرگرمیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں لیکن حکام کی جانب سے کسی نے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔

انہوں نے سندھ حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ گورنمنٹ پرائمری سکول دیہہ 30 کی چار دیواری ، نئی عمارت کی تعمیر، مزید اساتذہ مالی اور چوکیدار کا انتظام کریں تاکہ اس پسماندہ ترین علاقے کے بچوں کو تعلیم اور ترقی کے بہتر مواقع میسر آ سکیں۔ 

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More