مئی کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ (جاری حسابات کا خسارہ ) 10کروڑ 30لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں اس سے پچھلے ماہ اپریل کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 4کروڑ 70لاکھ ڈالر سرپلس تھا۔
واضح رہے کہ فروری 2025 کے دوران بھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دیکھا گیا تھا جس کے بعد مارچ اور اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس تھا اور اب دو ماہ بعد مئی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق کرنٹ اکاونٹ خسارےکے سبب امریکی ڈالر کا پاکستانی روپے کی قدر پر دباؤبڑھ رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری اعداد وشمار کے مطابق مئی کے دوران ریکارڈ ہونے والے اس خسارے کے بعد رواں مالی سال کے 11ماہ یعنی جولائی 2024تامئی 2025کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک ارب 81کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پچھلے مالی سال کے 11ماہ کے دوران اسی عرصے میں ایک ارب 57کروڑ 20لاکھ ڈالر خسارہ دیکھنے میں آیا تھا۔مئی کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہونے کی بنیادی وجہ اس دوران 16فیصد تجارتی خسارہ ہے۔اپریل کے مقابلے میں مئی 2025کے دوران برآمدات میں 6فیصد کمی ہوئی جب کہ درآمدات میں5 فیصد اضافہ ہوا تاہم اس دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں16فیصد اضافہ بھی ہوا جس سے جاری حسابات کا خسارہ کافی حد تک کم حد تک کم ہونے میں مدد ملی۔
کرنٹ اکاؤنٹ (جاری حسابات )کیا ہوتا ہے؟
ہرملک کی دیگر ممالک سے تجارتی اور مالی لین دین ہوتی ہے جس میں برآمدات، ترسیلات زر اورامداد کی صورت میں آنے والے رقوم ملک کی آمدن کہلاتی ہے جب کہ اسکے مقابلے میں درآمدات اور دیگر بیرونی ادائیگیاں اخراجات ہوتے ہیں۔ رقوم کی آمدن اور ادائیگیوں کو کرنٹ اکاؤنٹ یا جاری حسابات کہتے ہیں اگر ملک کو موصول ہونے والی تجارتی ودیگر ذرائع سے ہونے والی اآمدن دیگر ممالک کو ہونے والی ادائیگیوں سے زیادہ ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوتا ہے اور اگر آمدن کے مقابلے میں رقوم کی ادائیگیوں کا حجم زیادہ ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہلاتا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ کا زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کی قدر پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟
کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ملک میں ڈالر زیادہ آرہے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہوتی ہے لیکن اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ڈالر کی آمد کم ہوگی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوں گے اور اس کا اثر ڈالر کی قدر بڑھنے کی صورت میں نکلتا ہے۔