مصر کی فضائیہ کو تباہ کرنے کے بعد پانچ جون 1967 کی گرم اور گرد آلود دوپہر، چار اسرائیلی طیارے یہ ہدف لیے اردن کے مَفرَق فضائی اڈے پر حملہ آور ہو رہے تھے کہ اس ملک کی چھوٹی سی ایئر فورس کو بھی ختم کر دیں گے۔
اس دن صرف آدھے گھنٹے میں اسرائیلی فضائیہ نے مصر کے دو سو سے زیادہ لڑاکا طیارے زمین پر ہی تباہ کر دیے تھے۔ لیکن اردن کے مَفرَق فضائی اڈے کو تباہ کرنے کا منصوبہ مکمل ہونے تک اسرائیلی فضائیہ دو طیارے کھو چکی تھی جن میں سے ایک کو مار گرانے والے پائلٹ کا تعلق پاکستانی فضائیہ سے تھا۔
یہ پائلٹ تھے پاکستان ایئر فورس کے فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم جنھوں نے پانچ جون کو اردن کی فضائیہ کا طیارہ اڑاتے ہوئے ایک اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا اور پھر صرف دو ہی دن بعد سات جون کو عراقی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے دو اور اسرائیلی طیارے مار گرائے۔
پاکستان ایئر فورس میں 1960 میں کمیشن حاصل کرنے والے سیف الاعظم، جو دو سال پہلے 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے دوران انڈین فضائیہ کا بھی ایک طیارہ گرا چکے تھے، بعد میں بنگلہ دیش کی فضائیہ کا حصہ بنے۔
لیکن سیف الاعظم اسرائیل کے خلاف اردن اور پھر عراق کی فضائیہ کی جانب سے کیسے لڑے؟
پاکستان سے اردن تک
’دی گولڈ برڈ: پاکستان اینڈ اٹس ایئرفورس، آبزرویشنز آف اے پائلٹ‘ میں منصور شاہ لکھتے ہیں کہ ’ہماری (پاکستان) فضائیہ کے 35 فیصد ٹیکنیشنز اور سیف الاعظم جیسے بہترین پائلٹس سمیت ایک چوتھائی پائلٹس مشرقی پاکستان سے تھے۔‘
1965 کی جنگ میں، فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم نے ایک انڈینطیارہ مار گرایا اور حکومت پاکستانسے ستارہ جرأت پایا تھا۔
1966کے اواخر میں انھیں اردن کی فضائیہ میں مشیر تعینات کیا گیا لیکن اس کے اگلے ہی سال جون میں انھیں ایک اور جنگ درپیش تھی جس میں ایک جانب اسرائیل جبکہ دوسری جانب اردن، مصر، شام اور عراق سمیت عرب ریاستوں کے اتحاد تھا۔
اس جنگ کا آغاز پانچ جون کو اسرائیلی حملے سے ہوا تھا جب مصری فضائیہ کو اچانک ہی ایک بڑا دھچکا ملنے کے بعد اردن کی فضائیہ کو خبردار کیا گیا۔
مورخ اور سابق ایئر کموڈور قیصر طفیل اپنی کتاب ’گریٹ ایئر بیٹلز آف پاکستان ایئرفورس‘ میں بتاتے ہیں کہ ’حکومت پاکستان سے فضائی دفاع تک محدود اجازت کے بعد اردن کی مفرق ایئر بیس سے سیف الاعظم ایک ہنٹر طیارے میں اپنے ونگ مین لیفٹیننٹ احسان شردم کے ساتھ فضا میں بلند ہوئے، ان کے پیچھے مزید ہنٹر طیارے روانہ ہوئے۔‘
اسرائیلی طیارے کی تباہیGetty Images1967 کی چھ روزہ جنگ میں ایک جانب اسرائیل جبکہ دوسری جانب اردن، مصر، شام اور عراق سمیت عرب ریاستوں کے اتحاد تھا
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’صحرائی گرد و غبار اور گرمی کے باعث حدِ نظر ایک میل سے کم تھی، اور دشمن کا کوئی نشان دکھائی نہ دے رہا تھا۔ سیف نے ریڈار سے مفرق بیس کی طرف کسی اسرائیلی طیارے کی آمد کے بارے میںپوچھا تو جواب ہاں میں ملا۔ سیف نے فوری طور پر مفرق کی طرف رخ کیا۔‘
اردن کو خدشہ تھا کہ اسرائیلی فضائیہ مصر کے بعد ان کی جانب رخ کرے گی۔
قیصر طفیل لکھتے ہیں ’مفرق ایئر بیس سے چار میل کے فاصلے پر انھوں نے چار طیاروں کو کم بلندی پر جنگی فارمیشن میں اُڑتے دیکھا۔انھیں احساس ہوا کہ یہ اسرائیلی مسٹیئر طیارے ہیں۔‘
’سیف نے فوراً ایک طیارے کے پیچھے پوزیشن لی، جو حملے کے لیے مڑ رہا تھا۔ انھوں نے اپنے ہنٹر کی چار طاقتور 30 ملی میٹر توپوں سے نشانہ لیا۔ مسٹیئر آگ پکڑ گیا اور اس کے پرزے اُڑنے لگے؛ سیف کو ملبے سے بچنے کے لیے اوپر اٹھنا پڑا۔‘
’یہ اسرائیلی طیارہ مفرق ائیر بیس کی حدود کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور اسرائیلی پائلٹ لیفٹیننٹ ہنانیا بولے جہاز سے نکل نہ سکے۔‘
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’فلائٹ لفیٹینٹ سیف الاعظم نے دیکھا کہ دو مسٹیئر مغرب کی طرف پوری رفتار سے فرار ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی سیف نے ان کا پیچھا شروع کیا، احسان نے دائیں جانب ایک اور دشمن طیارے کی نشاندہی کی۔ سیف نے احسان کو حکم دیا کہ وہ الگ ہو کر اُس واحد دشمن طیارے کا پیچھا کریں، جبکہ وہ دو دشمن طیاروں کے پیچھے چلے گئے۔‘
’سیف پیچھے والے مسٹیئر کے پیچھے آ گئے، جو تیزی سے قلابازیاں کھا کر بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سیف نے چار بار گولیاں برسائیں، لیکن کوئی نشانہ ٹھیک نہ بیٹھا۔‘
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’مایوسی کے عالم میں اچانک انھوں نے دیکھا کہ دشمن طیارہ سیدھا اُڑنے لگا ہے۔ سیف نے فاصلے کو کم کر کے پانچویں بار فائر کیا۔ مسٹیئر کی دائیں جانب سے دھواں نکلنے لگا، گولیاں نشانے پر لگ چکی تھیں۔ طیارہ نیچے جھکا، لیکن سیف اس کے مکمل تباہ ہونے کی تصدیق نہ کر سکے کیونکہ دوسرا اسرائیلی طیارہ ان پر حملہ کرنے کے لیے مڑ رہا تھا۔‘
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ ’ایندھن اور گولا بارود کی کمی کے باعث، سیف نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور مفرق کی طرف واپس ہو گئے۔انھیں اندیشہ تھا کہ مفرق کا رن وے ناکارہ ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے تمام طیاروں کو ایئر فیلڈ کے شمال میں انتظار کا حکم دیا۔ حیرت انگیز طور پر رن وے پر لینڈنگ کی اجازت مل گئی۔‘
وہ لکھتے ہیں ’لیکن احسان نے فوراً خطرہ محسوس کیا اور عربی میں ریڈیو پر کنٹرولر سے شناخت پوچھی اور اپنے کتے کا نام بھی پوچھا، جو ایک خفیہ شناختی کوڈ تھا۔ اسی وقت اردنی کنٹرولر نے اصل میں ریڈیو پر آ کر خبردار کیا کہ مفرق پر ہرگز لینڈ نہ کریں۔ احسان کی حاضر دماغی نے دونوں کو اسرائیلی فریب کاری سے بچا لیا، جو انھیں تباہ حال رن وے پر اتارنے کے لیے جعلی ریڈیو پیغام دے رہا تھا۔‘
’تمام طیارے عمان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیے گئے، جہاں ابھی اسرائیلی حملہ نہیں ہوا تھا۔ پائلٹس خوش قسمت تھے کہ وہ حملے سے چند لمحے قبل ہی لینڈ کر گئے۔ تاہم، ان کے طیارے محفوظ نہ رہ سکے۔ کچھ ہی دیر بعد، جدید سپر مسٹیئر طیاروں نے 'ڈِبر' بم استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا، جو رن وے کو گہرائی تک نقصان پہنچا گیا۔‘
جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاپاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیاردن کے شاہ اور عراقی فضائیہ
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں ’ایئرپورٹ کی سول تنصیبات کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے میں کئی ٹرانسپورٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہو گئے۔ تمام پائلٹ عمان میں آپریشنز ہیڈکوارٹر پر جمع ہوئے تاکہ پیش آئے واقعات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ ‘
’تقریباً ایک گھنٹے بعد اردن کے بادشاہ حسین خود اُن کے درمیان موجود تھے۔ وہ اپنے پائلٹوں کو سراہنے آئے تھے، جو اردن کی پہلی بڑی فضائی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔‘
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ اس دوران اردن نے اپنے پائلٹس کی خدمات عراق کو پیش کیں اور جلد ہی ان کی عراق منتقلی کے احکامات جاری ہو گئے۔
’چھ جون کو یہ قافلہ رات نو بجے عراق میں حبانیہ ایئر بیس پہنچا جہاں تین ہنٹر سکواڈرن موجود تھے۔‘
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ ’سات جون کو فجر کے قریب ایک آہستہ دستک اور سرگوشی نے سیف کو جگایا۔ ایک نوجوان عراقی افسر نے بیس کمانڈر کا پیغام پہنچایا کہ 'وہ چاہتے ہیں کہ پہلی پرواز کے لیے چار پائلٹ رضاکار بنیں، اور آپ سے کہا گیا ہے کہ لیڈ کریں!‘
Getty Imagesقیصر طفیل لکھتے ہیں کہ اردن نے اپنے پائلٹس کی خدمات عراق کو پیش کیںایئر بیس ایچ تھری
کچھ ہی دیربعد چار ہنٹر طیاروں کا دستہ عراق کے مغربی صحرا کے ایک دور افتادہ علاقے میں، بغداد سے تقریباً 435 کلومیٹر مغرب میں واقع ایئربیس ایچ تھری کی جانب پرواز کر رہا تھا۔
’پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر کنٹرولر نے اعلان کیا: لیڈر، ایک بڑی فارمیشن ایچ تھری پر حملہ آور ہو رہی ہے، نیچے جا کر ان سے نمٹیں۔‘
قیصر لکھتے ہیں ’اسرائیلی فارمیشن چھ طیاروں پر مشتمل تھی۔ چار واؤتورز طیاروں کی قیادت ڈپٹی سکواڈرن کمانڈر کیپٹن شلومو کرن کر رہے تھے، جن کے ساتھ دو نشستوں والے طیارے میں نیویگیٹر کیپٹن الیگزینڈر انبار میلٹزر تھے۔‘
دیگر ارکان میں رامات ڈیوڈ ایئربیس کے بیس کمانڈر کرنل یزیکیل سومک، کیپٹن اسحاق گلینٹز-گولان، اور لیفٹیننٹ اووشالوم فریڈمین شامل تھے، جو سنگل سیٹر طیاروں میں تھے۔
قیصر کے مطابق ’دو میراج طیارے ان کی مسلح حفاظت کر رہے تھے، ہر ایک دو بم سے لیس تھا؛ اس حفاظتی فارمیشن کی قیادت کیپٹن عزرا ڈوٹان کر رہے تھے، جن کے وِنگ مین کیپٹن گیڈون ڈرور تھے۔‘
’جب سیف الاعظم کی قیادت میں عراقی ہنٹر طیارے ایچتھری سے پانچ میل دور تھے، تو اُنھیں مغرب سے آتے دو واؤتور طیارے نظر آئے۔ جب سیف ایک واؤتورز کے پیچھے جانے کے لیے پوزیشن لے رہے تھے تو سمیر نے آواز دی، دو میراج طیارے آپ کے پیچھے ہیں۔‘
’لمحوں میں سیف نے اپنی فارمیشن کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ خود اور احسان میراج طیاروں سے نمٹیں گے، جبکہ سمیر اور غالب واؤتورز کا تعاقب کریں گے۔‘
قیصر طفیل کے مطابق ’سیف نے فاصلے کو تیزی سے کم کیا اور ایک میراج کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے ہنٹر طیارے کی مہلک کینن کا 'بسم اللہ' کہتے ہوئے ٹریگر دبایا۔ گولیاں سیدھا اسرائیلی طیارے کے پروں پر لگیں، اور چنگاریاں اڑنے لگیں۔‘
’اچانک میراج آگ کے گولے میں لپٹ گیا اور اسرائیلی پائلٹ کیپٹن ڈرور نے گراؤنڈ پر موجود بیس کے عملے کی آنکھوں کے سامنے طیارہ چھوڑ کر ایجیکٹ کیا۔ میراج کو مار گرانے کے بعد سیف نے دائیں جانب رخ موڑا تو دیکھا کہ ایک واؤتور سامنے سے تقریباً دو ہزار فٹ نیچے آ رہا ہے۔‘
قیصر لکھتے ہیں کہ ’سیف نے اپنا طیارہ الٹا کر سپلٹ-ایس موومنٹ کی۔ یہ چال زمین سے کم فاصلہ ہونے کی صورت میں خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن سیف نے اتنا زور سے سٹک کھینچا کہ وہ تقریباً بے ہوش ہونے لگے۔ جب طیارہ برابر سطح پر آیا تو وہ واؤتور کے پیچھے تھے اور بہت تیز رفتاری سے قریب جا رہے تھے، حالانکہ بریک کھلے اور تھروٹل بند تھا۔ اب فاصلہ صرف دو سو فٹ تھا۔‘
’سیف نے فائر کھولا، اور تین بار کینن چلائی۔ طیارے کے پرزے ہوا میں اڑنے لگے۔ ان کا اپنا طیارہ بھی جھٹکا کھا گیا جیسے کسی چیز سے ٹکرا گیا ہو۔‘
قیصر طفیل کے مطابق ’کیپٹن گولان نے طیارے کا قابو کھو دیا اور اپنے بکھرتے ہوئے واؤتور سے پیراشوٹ کے ذریعے باہر نکلے۔ ڈرور نے کچھ دیر پہلے اونچائی پر میراج سے چھلانگ لگائی تھی جبکہ گولان نے واؤتور سے نچلی سطح پر پیراشوٹ کھولا۔ دونوں اب ہوا میں ایک ساتھ پیراشوٹ کے ذریعے اتر رہے تھے۔‘
’ایندھن کم ہونے کے باعث سیف واپسی کا ارادہ کر رہے تھے کہ سمیر نے پرجوش آواز میں پکارا: لیڈر، میں نے واؤتور مار گرایا ہے!‘
وہ لکھتے ہیں ’اس ہنگامے میں احسان نے بھی اطلاع دی کہ اُنھوں نے بھی ایک واؤتور مار گرایا ہے۔ سیف جیسے ہی فارمیشن کو دوبارہ اکٹھا کرنے لگے، انھوں نے دیکھا کہ ایک میراج (کیپٹن ڈوٹان کا طیارہ) ایک ہنٹر کا پیچھا کر رہا ہے، جو کہ غالب کا طیارہ تھا اور دھواں چھوڑ رہا تھا۔ سب نے یکے بعد دیگرے ریڈیو پر اُنھیں ایجیکٹ کرنے کو کہا، مگر وہ خاموش رہے۔‘
’طیارہ ایک ہلکی ڈائیو میں چلا گیا اور ایئر فیلڈ کے قریب ترک شدہ آئل ٹینکس سے ٹکرا گیا۔‘
اسرائیلی پائلٹس کی گرفتاری اور تنقید
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’سب طیاروں کا ایندھن نہایت کم رہ گیا تھا کیونکہ اضافی ٹینک وہ پہلے گرا چکے تھے۔ سیف اور احسان حبانیہ ایئر بیس پہنچ گئے، وہ بھی اونچائی پر پرواز جاری رکھ کر۔‘
’جہاز سے نکلتے ہی سیف کو لوگوں نے اٹھا لیا اور جشن مناتے ہوئے اردگرد گھمایا۔ سب نعرے لگا رہے تھے۔ سیف کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور نوجوان غالب کے لیے دُعا بھی، جن سے وہ مشن سے صرف آدھ گھنٹا قبل ملے تھے۔‘
اگرچہ اسرائیلی فضائیہ نے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں، مگر ایچ تھری کے آپریشن کے بعد اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کرنل ایلیعزر کوہن نے اپنی کتاب ’بیسٹ ڈیفنس آف اسرائیل‘ میں لکھا کہ ’ایچ تھری کو معمولی نقصان پہنچا، لیکن نقصانات بہت ہوئے۔ ایک پائلٹ اور نیویگیٹر کی ہلاکت، دو کی گرفتاری، اور تین طیاروں کا تباہ ہونا کسی بھی اور بیس سے زیادہ تھے۔‘
اردن کی حکومت نے سیفُ الاعظم کو سرکاری اعزاز ’وسام الاستقلال‘ سے نوازا، عراق نے ’نوط الشجاعۃ‘ دیا، اور پاکستان نے ’ستارۂ بسالت‘۔ اس سے قبل پاکستان انڈیا جنگ میں سیف ایک انڈین طیارہ گرا چکے تھے، جس پر اُنھیں ستارۂ جرات دیا گیا تھا۔
پاکستان سے بنگلہ دیش
1972 میں سیف بنگلا دیش منتقل ہو گئے اور ایک اور فضائیہ کی وردی زیب تن کی۔ 2001 میں انھیں ’لیوِنگ ایگل‘ کے طور پر انٹرنیشنل ہال آف فیم میں شامل کیا۔
پی اے ایف میگزین ’سیکنڈ ٹو نن‘ میں ایک مضمون میں ایئر کموڈور محمد علی لکھتے ہیں کہ ’سیفالاعظم نے چار مختلف ممالک، پاکستان، اردن، عراق اور بنگلا دیش کی فضائی افواج میں خدمات انجام دیں، اور دو مختلف ملکوں کی فضائی افواج انڈیا اور اسرائیل کے طیارے مار گرائے۔‘
بنگلا دیشی فوجی افسر اور تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل شاہدالانعام خان نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اسرائیل میں بھی سیف الاعظم کی جرأت کو سراہا جاتا ہے، جس کا ذکر جون 2020 میں ان کی وفات پر بڑے اخبارات نے نمایاں طور پر کیا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’1967 کی عرب-اسرائیل جنگ میں ایک موقع پر، جب ایک اسرائیلی طیارہ ان کے نشانے پر تھا، انھوں نے سیدھا حملہ کرنے کے بجائے پہلو سے نشانہ لیا اور صرف دم پر فائر کیا۔ اسرائیلی پائلٹ بچ گیا اور پیراشوٹ سے زمین پر اتر آیا۔‘
انھوں نے لکھا ’اس پائلٹ نے بعد میں بتایا کہ جب وہ نیچے آ رہا تھا، تو اعظم نے ایک رول اور لوپ لگا کر اسے ہاتھ ہلایا اور پھر ایک اور اسرائیلی طیارے کو مارنے روانہ ہو گئے۔ اگر اعظم چاہتے تو وہ پائلٹ زندہ نہ بچتا۔‘
یہ چھ روزہ جنگ اقوام متحدہ کی ثالثی سے جنگ بندی پر ختم ہوئی، مگر تب تک اسرائیل گولان کی پہاڑیاں، غزہ، جزیرہ نما سینا اور مغربی کنارہ (بشمول مشرقی یروشلم) پر قبضہ کر چکا تھا، جس سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ یکسر بدل گیا۔
لیکن یہ جنگ ایک ایسے ملک کے پائلٹ سیف الاعظم کے کارناموں کے لیے بھی یاد رکھی جاتی ہے جس کا اس تنازع سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ یعنی پاکستان۔
جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایاجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیےپاکستانی فوج کا وہ کپتان جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہواعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاپاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانی