امریکی سیاست میں ظہران ممدانی کی انٹری، کچھ نیا ہونے والا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

اردو نیوز  |  Jun 30, 2025

سیاست بڑا دلچسپ کھیل ہے، اس میں کئی بار انہونی ہوتی ہے، کچھ نیا، کچھ حیران کن ہو جاتا ہے۔ ایسا جس کی کوئی توقع بھی نہیں کر رہا ہوتا۔

پھر تجزیہ نگاروں کا کھیل شروع ہوتا ہے، وہ اس کی کوئی توجیہہ، تاویل، وجہ، محرکات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی تجزیہ کاری کی دکانیں آباد کرتے ہیں۔ ایسا بھی کئی بار ہوا کہ ایک فرد نے اچھوتی حکمت عملی اپنائی اور ایک نئی ونڈو اوپن کر دی، ایک نیا در وا ہوا۔ اس کا فائدہ اگرچہ اسے نہیں ملا، کسی اور نے لیا۔امریکی سیاست میں ایسا ہی ایک حیران کن، کرشمہ دکھا دینے والا فیکٹر ڈیموکریٹ سیاست دان اور ورمونٹ کے گورنر ہاورڈ ڈین نے بیس بائیس برس پہلے شامل کیا۔

ہاورڈ ڈین نے دو ہزار چار کی ڈیموکریٹ پرائمری میں ایک نئے انداز میں کمپین کی، انٹرنیٹ کے عنصر کو شامل کیا، گراس روٹ لیول پر لوگوں سے رابطہ کیا اور چھوٹے عطیات کی حوصلہ افزائی کی۔ ہاورڈ ڈین ہی نے ففٹی سٹیٹس تھیوری متعارف کرائی۔دراصل امریکی ریاستوں کی اپنی سیاسی ڈائنامکس ہیں، روایتی طور پر بعض ریاستوں میں ری پبلکن ووٹ بینک ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے اور وہ طویل عرصے سے انہیں جیتتے چلے آئے ہیں۔ اسی طرح کچھ ریاستیں ڈیموکریٹس کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں جبکہ چند ایک سوئنگ سٹیٹس تصور ہوتی ہیں جن کا ووٹر کسی طرف بھی جا سکتا ہے۔

الیکشن کمپین میں ہوتا یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے صدارتی امیدوار اپنی مضبوط سٹیٹس میں بھرپور کمپین کرتے ہیں اور پھر تمام تر زور سوئنگ سٹیٹس میں لگا دیتے ہیں تاکہ وہاں سے حمایت حاصل کر کے جیتا جا سکے۔ اپنی مخالف سٹیٹس میں کوئی اپنی انرجی اور پیسہ ضائع نہیں کرتا۔

ہاورڈ ڈین نے یہ سوچ متعارف کرائی کہ جو ریاستیں آج ڈیموکریٹ نہیں، وہاں بھی اگر اچھی کمپین کی جائے اور نچلی سطح تک کام کیا جائے تو آج نہیں تو اگلے الیکشنز میں ہمیں فائدہ ہوسکتا ہے۔ہاورڈ ڈین دوہزار چار میں تو ڈیموکریٹ پارٹی کا صدارتی امیدوار نہ بن سکا، اس کی الیکشن کمپین اورحکمت عملی البتہ اگلی بار باراک اوباما کے کام آئی۔

کہا جا رہا ہے کہ جنریشن زی کو ممدانی نے اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)اوباما نے وہی طریقے مزید جدت کے ساتھ اپنائے۔ گراس روٹ لیول پر اپنی اپیل اور ایجنڈا پہنچایا۔ بیک وقت زیادہ ڈونیشنز حاصل کرنے کے بجائے ڈونرز بیس کو وسیع کرنے اور آخر وقت تک عطیات حاصل کرتے رہنے کی پالیسی اپنائی اور پہلے ہیلری کلنٹن کو ڈیموکریٹ پرائمری میں شکست دی اور پھر اپنے مدمقابل ری پبلکن امیدوار جان میکین کو ہرا کر صدر بن گئے۔اوباما پہلے افریقن امریکن شخص تھے جو امریکی صدر بنے۔ تب بہت سے لوگوں کو یہ ناممکن لگتا تھا کہ ایک سیاہ فام شخص امریکی صدر بن سکتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میں تب ایکسپریس اخبار میں تھا، ہمارے گروپ ایڈیٹر ممتاز صحافی عباس اطہر تھے۔ وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں کئی سال امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی گزار چکے تھے۔ امریکی سماج کو سمجھتے تھے۔

عباس اطہر (شاہ جی ) اس پر ہر کسی سے شرط لگانے کو تیار رہتے کہ اوباما ہار جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی افریقین امریکن، امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا، اگلے دس بیس سال تک تو ایسا نہیں ہو گا۔

میرے جیسے نوجوان صحافی جو عالمی میڈیا کا مطالعہ کرتے رہتے اور امریکی الیکشن کو باقاعدہ مانیٹر کر رہے تھے، ہم شاہ جی سے کہتے کہ وہاں اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے اور اپ سیٹ ہوسکتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے اوباما کی مختلف نوعیت کی شاندار اور جامع کمپین کا ذکر کیا اور کہا کہ اس نے بیک وقت بہت سے طبقات زندگی کو متوجہ کیا ہے اور اس بار وہاں اوباما صدر بن سکتا ہے۔ شاہ جی نے اپنے مخصوص انداز میں نفی میں سر ہلایا اور کہنے لگے تم شرط نہیں لگاتے، ورنہ میں شرط لگا لیتا اور آسانی سے جیت لیتا۔

جب صدارتی الیکشن کا نتیجہ آیا اور اوباما جیت گیا تو شاہ جی نے برملا اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا لگتا ہے امریکی سماج بدل گیا ہے، یہ سب چیزیں سمجھنے میں مجھے غلطی ہوئی۔

امریکی مجموعی سیاست نہ سہی مگر امریکی سیاست کے ایک گوشے، ایک اہم ٹکڑے نیویارک کی سیاست کے حوالے سے مجھے لگتا ہے کہ ایک بار پھر کچھ نیا، انوکھا، اچھوتا ہونے جا رہا ہے۔چند دن پہلے نیویارک کے میئر کے انتخاب کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی پرائمری ایک ایسے امیدوار نے جیت لی جس کے بارے میں شاید سال بھر پہلے تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

ظہران ممدانی زبردست پروفلسطین سیاست دان ہیں، وہ کھل کر فلسطینیوں کے ساتھ مظالم پر بات کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)ویسے تو آج بھی امریکہ میں بہت سے لوگ انگشت بدانداں ہیں کہ کیا واقعی یہ شخص نیویارک کا اگلا میئر ہوگا؟ری پبلکن پارٹی کے لوگوں کے لیے تو یہ واقعی ایک سوہان روح تصور لگ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تو جھنجھلا کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک طنزیہ پوسٹ بھی داغ دی۔

صدر ٹرمپ کے حامیوں خاص کر ماگا(میک امریکہ گریٹ اگین )تحریک کے پرجوش علم برداروں نے تلملا کر محاذ کھول لیا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان لوگوں کی مخالفت اور تنقید ان کے اس مخالف کو نیشنل لیول کا لیڈر بنا رہی ہے۔ہم بات کر رہے ہیں ظہران ممدانی کی۔ ان کے بارے میں ہمارے میڈیا میں بھی خاصا کچھ آ رہا ہے، اس لیے میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ ان کا بیک گراونڈ انڈین ہے، والدہ میرا نائر پنجابی ہیں، مشہور فلم ساز، ہدایت کار، انڈین بیک گراونڈ پر کئی خوبصورت انگریزی فلمیں انہوں نے بنائی ہیں۔ والد کا تعلق گجرات سے تھا، مگر وہ یوگنڈا آباد ہو گئے، یونیورسٹی پروفیسر تھے۔

ظہران کے نام کے ساتھ ممدانی والد کی نسبت ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ ظہران طویل عرصہ قبل امریکہ میں سیٹل ہو گئے۔ البتہ اپنی جڑوں سے تعلق جڑا رہا۔ گجراتی یا پنجابی بھی آتی ہو گی، اردو بڑی اچھی بول لیتے ہیں، ان کے بعض ویڈیو کلپس وائرل ہوئے ہیں جس میں اچھی اردو یا اردو آمیز ہندی بولتے نظر آئے۔

ظہران ممدانی کی اہلیہ رما دواجی یا دعاجی شامی عرب ہیں، ان کا نکاح دوبئی میں ہوا۔ رما دواجی نے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی ہے، وہ پینٹر، السٹریٹر ، اینی میشن آرٹسٹ ہیں اور اہم امریکی جرائد کے لیے کام کر چکی ہیں۔

ظہران ممدانی نے اپنی مذہبی شناخت کبھی نہیں چھپائی (فائل فوٹو: اے ایف پی)ظہران ممدانی کا مسلمان ہونا، جنوبی ایشیائی یا انڈین بیک گراؤنڈ کا ہونا زیادہ اہم نہیں، امریکی سیاست میں کئی ایسے لوگ اوپر آئے ہیں، مختلف حلقوں سے کانگریس مین یا کانگریس ویمن ہیں۔ ظہران ممدانی کا حیران کن اور دلچسپ پہلو ان کا جرأت مندانہ سیاسی موقف اور روٹین سے ہٹ کر اچھا خاصا پروگریسو بلکہ سوشلسٹ ٹائپ سیاسی ایجنڈا ہے جس نے بہت سوں کو حیران کر رکھا ہے۔ظہران ممدانی زبردست پروفلسطین سیاست دان ہیں، وہ کھل کر فلسطینیوں کے ساتھ مظالم پر بات کرتے ہیں، غزہ میں ہونے والے مصائب پر آواز اٹھاتے ہیں، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو ظالم اور مجرم قرار دیتے ہیں اور سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہیں۔

ظہران ممدانی یہ تک کہہ چکے ہیں کہ نتن یاہو جب نیویارک آئیں تو انہیں جنگی جرائم کی بنا پر گرفتار کر لینا چاہیے۔ آپ سب جانتے ہی ہیں کہ امریکی سیاست میں اسرائیلی اثرونفوذ کس قدر زیادہ ہے، بڑے سے بڑا سیاست دان کوشش کرتا ہے کہ طاقت ور پرواسرائیلی لابی کی مخالفت مول نہ لے۔ ظہران ممدانی نے ڈٹ کر مخالفت کی ہے، اس کے باوجود نیویارک جیسے اہم شہر کی میئرشپ کے لیے وہ ڈیموکریٹ امیدوار بن چکا ہے ۔ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نیویارک میں انڈین نژاد ووٹر خاصے ہیں، اچھی خاصی بڑی پاکٹ ہے مگر ظہران ممدانی بی جے پی اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے شدید ناقد ہیں۔ وہ وزیراعظم مودی کو گجرات کا قصاب کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسی وجہ سے بی جے پی کا حلقہ بھی زہران ممدانی کو قبول نہیں کرتا بلکہ ان میں سے بعض ممدانی کو انڈین سے زیادہ پاکستانی امیدوار کہہ کر پکارتے ہیں۔ان چیزوں کے ساتھ یہ ذہن میں رہے کہ نیویارک میں ڈیموکریٹ ووٹ بینک خاصا بڑا ہے اور روایتی طور پر پچھلے 10 پندرہ برسوں سے یہاں سے گورنر، سینیٹرز اور ہاؤس کی زیادہ تر نشستیں ڈیموکریٹ پارٹی ہی جیتتی آئی ہے۔ اس وقت نیویارک کی میئر بھی ڈیموکریٹ ہے، سابق گورنر اور موجودہ گورنر بھی ڈیموکریٹ، دونوں سینیٹر بھی ڈیموکریٹ جبکہ دو تہائی سے زیادہ یہاں کے کانگریس مین بھی ڈیموکریٹس ہیں۔ اس لیے میئر کے الیکشن کے لیے کسی ڈیموکریٹ امیدوار کے جیتنے کے امکانات ری پبلکن کی نسبت کچھ زیادہ ہیں۔

ظہران ممدانی پہلے ہپ ہاپ سنگر بھی رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)ظہران ممدانی نے جس انداز میں کمپین چلائی ہے، جس طرح وہ مختلف طبقات زندگی کو اپنی طرف اٹریکٹ کر رہے ہیں، جیسے انہوں نے نیویارک کے مختلف علاقوں اور پاکٹس میں گراس روٹ لیول پر ڈیجیٹل کمپین چلائی، وہ شاندار سیاسی تجربہ ہے۔ لگتا ہے اس کا فائدہ ڈیموکریٹک پارٹی کو مستقبل میں ملے گا۔ شاید اسی وجہ سے پارٹی نے ظہران ممدانی کی سپورٹ کا جوا کھیلا لیا ہے۔ظہران ممدانی پہلے ہپ ہاپ سنگر بھی رہے ہیں، وہ ایک خوش شکل، وجیہہ نوجوان ہیں جو جدید ڈکشن میں بات کرتا اور نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جنریشن زی کو ممدانی نے اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو تمام ورکنگ کلاس کمیونیٹیز کے لیے ایک کلاس ورک فائٹر کہتے ہیں یعنی ووٹر خواہ مہاجر (امیگرنٹ) ہو، بلیک ہو، لاطینی ہو یا مقامی نیویارک کا سفید فام مزدور، ان سب کے لیے ظہران ممدانی کے ایجنڈے میں کچھ نہ کچھ ہے۔بنیادی طور پر ان کا تعلق سوشلسٹ ڈیموکریٹس گروپ سے ہے، لیفٹ کے لوگ ان کی اصل قوت ہیں مگر ظہران ممدانی نے اپنی مذہبی شناخت کبھی نہیں چھپائی، پرو فلسطین موقف اپنایا، اینٹی نریندر مودی رائے رکھی مگر صاف کہا کہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید یہودیوں پر تنقید نہیں۔ظہران ممدانی کو صدر ٹرمپ نے خیالی کمیونسٹ اور سوشلسٹ کہا، ری پبلکن پارٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایسے لوگ اگر نیویارک کے میئر بن گئے تو ایک اور نائن الیون ہو جائے گا۔ ظہران ممدانی ان الزامات کو رد کرتے ہیں کہ یہ سٹیٹس کو کے حامی ہیں اور کوئی بھی عوام کے ویلفیئر میں کیا جانے والا کام ان مخالفوں کو مضطرب کر رہا ہے۔ظہران ممدانی نے جو عوامی ویلفیئر ایجنڈا پیش کیا ہے، اس پر بہت سے لوگ حیران ہیں کہ کیپیٹل ازم کے گڑھ امریکہ میں ایک سوشلسٹ ٹائپ سیاسی پلان کیسے دیا جا سکتا ہے۔ ظہران ممدانی نے ایسا کیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ ٹاپ امیدوار بنے ہیں۔

انہوں نے کم سے کم معاوضہ بڑھانے کی بات کی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایے منجمد کرنے، افورڈیبل گھر بنانے ، بلدیہ کی جانب سے مناسب ریٹس والے گراسری سٹورز بنانے کا نعرہ دیا ہے۔ طلبہ، بزرگوں اور کم آمدنی والوں کے لیے فری ٹرانسپورٹ پاس دینے کی بات کی ہے۔ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کا بجٹ فریز کر کے وہ رقوم لوگوں کی فلاح پر خرچ کرنے، مینٹل ہیلتھ، کمیونٹی سیفٹی پر خرچ ہوگی۔ نیویارک کو امیگرنٹس کے لیے محفوظ ریاست بنانے کا پلان ہے جس میں تارکین وطن کومفت لیگل ایڈ ملے گی۔

ظہران ممدانی نے معتدل یہودی ووٹرز میں بھی جگہ بنائی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)نیویارک کے پانچ انتظامی اضلاع ہیں، مین ہٹن، برونکس، بروکلین، کوئنز اور سٹیٹن آئی لینڈ۔ ظہران ممدانی نے ان تمام پاکٹس کی سیاسی ڈائنامکس کے مطابق حکمت عملی بنائی ہے اور اگرچہ بروکلین میں قدامت پسند یہودی ووٹر ان کے مخالف ہیں مگر انہوں نے معتدل یہودی ووٹرز میں بھی جگہ بنائی ہے اور مساجد کے ساتھ یہودی عبادت گاہوں سینی گاگ میں بھی جا کر کمپین چلائی ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ظہران ممدانی صرف ایک ترقی پسند امیدوار نہیں بلکہ ایک سیاسی بیانیہ ہے جو تنوع، انصاف، طبقاتی شعور، اور نوجوانوں کی امیدوں کا استعارہ بن کر ابھرا ہے۔کیا اس سال کے آخر میں نیویارک کے مئیر الیکشن میں ظہران ممدانی کامیاب ہوجائیں گے ؟ کیا یہ امریکہ میں پاپولر سیاست کے ایک نئے دور کا آغآز ہے؟ان سب سوالات کے جواب کے لیے کچھ انتظار کرنا ہو گا۔ یہ بات مگر طے ہے کہ امریکی سیاست میں اس نوجوان نے ہلچل مچا دی ہے۔ کچھ نیا، انوکھا، اچھوتا شامل کیا ہے ۔جو کچھ اس نے کر دکھایا ہے۔ وہ صرف اس الیکشن تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے اثرات زیادہ دیرپا ، زیادہ گہرے ہوں گے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More