’ہمارا یہاں کچھ بھی نہیں‘، ایران سے ملک بدر ہو کر افغانستان پہنچے والے لوگوں کی روداد

اردو نیوز  |  Jun 30, 2025

ایران سے ملک بدر ہو کر افغانستان پہنچنے والی حاجر شادمانی کے خاندان نے گرمی اور گرد و غبار میں گھنٹوں انتظار کیا۔ ان کے پاس چند سوٹ کیس ہیں اور باقی سب کچھ ایران میں رہ گیا۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 19 سالہ حاجر شادمانی اور ان کا خاندان ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جو اسلام قلعہ بارڈر سے افغانستان آئے۔ طالبان حکام اور اقوام متحدہ کے مطابق ان کی اکثریت کو ایران چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

حاجر شادمانی کے والدین 40 برس قبل ایران ہجرت کر گئے تھے اور وہ وہیں پیدا ہوئی تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’اس ملک نے ہمیں کبھی قبول نہیں کیا تھا۔‘

ایران کے شہر شیراز میں پولیس ان کے گھر آئی اور ملک چھوڑنے کا کہا جس کے بعد ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

لیکن افغانستان بھی ان کے لیے اجنبی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارا یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔

ایرانی یونیورسٹیوں نے انہیں قبول نہیں کیا اور طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا رکھی ہے تو ایسے میں حاجر کی تعلیم غیرمعینہ مدت کے لیے رک گئی ہے۔

’میں پڑھنا چاہتی ہوں، میں تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی لیکن لگتا ہے کہ میں افغانستان میں یہ نہیں کر سکتی۔‘

افغانستان کے صوبے ہرات میں اسلام قلعہ بارڈر مصروف رہتا ہے لیکن ایران کی طرف افغان شہریوں کو 6 جولائی تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن کے بعد بہت زیادہ رش ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کے مطابق صرف جون میں دو لاکھ 30 افراد نے سرحد عبور کی۔

آئی او ایم کے ترجمان اوند آغا نے کہا کہ جنوری سے چھ لاکھ 90 ہزار افغانوں نے ایران چھوڑا۔ ’ان میں سے 70 فیصد کو زبردستی افغانستان بھیجا گیا۔‘

اے ایف پی نے متعدد لوگوں سے بات کی اور کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ انہیں جنگ کی وجہ سے افغانستان بھیجا گیا۔ گرفتاریوں کی وجہ سے انہیں ایران چھوڑنا پڑا۔

رواں برس دونوں ممالک سے 10 لاکھ سے زیادہ افغان شہری واپس آئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)37 سالہ یاد اللہ علی زادہ جب آئی او ایم کے دفتر پہنچے تو ان کے پاس ایک کپڑوں کا تھیلا اور ایک ٹوٹا ہوا فون تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں مزدوری کرتے ہوئے پکڑا گیا اور ڈی پورٹ کرنے سے پہلے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا۔

انہیں اپنے خاندان اور دیگر اشیا کے بغیر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’میرے تین بچے ایران میں ہیں اور بیمار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہاں تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔‘

اقوام متحدہ کے مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ ڈی پورٹ ہو کر آنے والوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں اور ملازمت کے مواقع بھی محدود ہیں۔ ایسی صورتحال میں بحران سے دوچار ملک مزید غیرمستحکم ہوگا۔

افغانستان کے نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے بارڈر کا دورہ کیا اور کہا کہ ’ایران میں کسی بھی افغان شہری کے حقوق سے محروم نہیں کیا گیا اور ضبط شدہ اثاثے واپس کیے جائیں گے۔‘

افغان حکام متعدد مرتبہ ایران اور پاکستان کو کہہ چکے ہیں کہ مہاجرین کی باعزت واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان نے بھی لاکھوں افراد کو ملک بدر کیا ہے۔

رواں برس دونوں ممالک سے 10 لاکھ سے زیادہ افغان شہری واپس آئے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایران کی ڈیڈ لائن سے 40 لاکھ افغان متاثر ہوں گے (فوٹو: اے ایف پی)ایران کی ڈیڈ لائن سے 40 لاکھ افغان متاثر ہوں گے اور آئی او ایم کا کا کہنا ہے کہ وہ واپس آنے والوں کے تھوڑے سے حصے سنبھال سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سنٹر میں موجود بہارہ راشدی ابھی تک فکر مند تھیں کہ افغانستان میں ان کی اور ان کی آٹھ بہنوں کا کیا بنے گا۔ وہ اپنے والد کے مرنے کے بعد روزی کمانے کے لیے ایران گئی تھیں۔

’ہمارے خاندان میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو یہاں کام کر سکے، اور ہمارے پاس گھر یا پیسہ نہیں ہے، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More