صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقام ضلع سوات کے دریا میں سیاحوں کے ڈوبنے کے بعد تمام پکنک سپاٹس پر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔27 جون کو سوات بائی پاس کے قریب دریا میں 18 سیاح سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے اور صرف چار افراد کو ہی زندہ نکالا جا سکا تھا۔ضلع سوات کے سیاحتی مقامات کالام، بحرین، مدین اور مینگورہ میں دریا کے کنارے سیاحتی پوائنٹس کو بند کر دیا گیا ہے، جبکہ دریا کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
مینگورہ بائی پاس کے قریب دریا کے کنارے قائم ہوٹلوں اور تفریح گاہوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اب تک 26 مقامات سے تجاوزات کو ہٹا دیا گیا ہے۔ سوات میں کچھ نجی پارکس کو تجاوزات قرار دے کر ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔سیاحتی ریور پوائنٹ بحرین اور مدین میں بھی انتظامیہ نے کارروائی کر کے دریا کنارے قائم قیام گاہیں ہٹا دی ہیں۔دریا کے قریب سیاحوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور چارپائیاں جبکہ فش ہٹس بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ انتظامیہ نے تجاوزات ہٹا کر ہوٹل مالکان پر جرمانہ عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔ گذشتہ روز اتوار کو دریا کنارے قائم ہوٹل کی انتظامیہ کو جرمانہ کر کے جیل بھیج دیا گیا۔دریا کے کنارے پولیس تعیناتسوات کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق دریا کے کنارے سیاحوں کے جانے پر دفعہ 144 کے تحت مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔انتظامیہ نے دریا کے قریب ٹورسٹس سپاٹ پر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مالاکنڈ فورس اور سول ڈیفنس کے اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔سوات کے علاوہ اپر دیر اور چترال میں بھی پانی کے قریب سرگرمیوں پر پابندی عائد کر کے پولیس فورس کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، جو سیاحوں کے علاوہ مقامی نوجوانوں کو بھی پانی میں جانے سے روک رہی ہے۔کشتی رانی پر پابندیصوبائی حکومت کی ہدایت پر سیاحتی مقامات پر ایس او پیز کے بغیر کشتی چلانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔کالام کے علاقوں مہوڈنڈ اور ناران میں کشی رانی کے لیے این او سی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مہوڈنڈ اور شاہی باغ میں چیکنگ کے دوران این او سی، لائف جیکٹس اور دیگر حفاظتی ایس او پیز کی عدم موجودگی میں کشتی رانی سے روک دیا گیا ہے جبکہ جھیل کے قریب لیویز اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔صوبائی حکومت کی ہدایت پر سیاحتی مقامات پر ایس او پیز کے بغیر کشتی چلانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: سوات ڈی سی آفس)انتظامیہ کے مطابق سیاحوں کو بھی کشتی رانی سے روک دیا گیا ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے پر 40 افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ سیاحتی مقام اتروڑ پر بھی کشتی رانی پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔بحرین انتظامیہ کی جانب سے اوشو اور چھوٹا مہوڈنڈ میں زپ لائن کے معائنے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ آپریٹر کے پاس این او سی موجود نہیں ہے، جس پر زپ لائن انتظامیہ کو این او سی کے حصول تک کام سے روک دیا گیا ہے۔دوسری جانب نوشہرہ اور چارسدہ کے دریا میں کشتی چلانے اور ریور رافٹنگ پر پابندی عائد کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔دریا میں سیلاب کے خدشے کے پیش نظر چترال اور دیر میں پانی کے قریب قائم کیمپنگ ایریا کو بھی ختم کر دیا گیا ہے جبکہ سیاحوں کو کیمپنگ سے روکا جا رہا ہے۔ہنزہ ریمبو پل سیل کر دیا گیاگلگت بلتستان میں سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ریمبو پل کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ ہنزہ ضلعی انتظامیہ نے پاسو پل کے دونوں جانب رکاوٹیں رکھ کر گزرگاہ کو سیل کر دیا ہے۔ ہنزہ وادی کے قریب تفریحی مقام کو بند کرنے کا فیصلہ مقامی لوگوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے۔انتظامیہ کی جانب سے پانی کے تیز بہاؤ اور کسی حادثے کے خدشے کے پیش نظر پل کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ مقامی لوگوں کی رائے ہے کہ یہ پل صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مقبول سیاحتی مرکز بن چکا ہے۔ اسے اگر بند رکھا گیا تو مقامی سیاحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔گلگت بلتستان میں سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ریمبو پل کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: منصور علی)گلگت بلتستان کے ایک تفریحی مقام پھنڈر جھیل پر واقع پل کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ پھنڈر جھیل کا پل پانی کی سطح بلند ہو جانے کے باعث ڈوب گیا تھا جس کی وجہ سے پل کو آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔دوسری جانب صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا میں سیاحتی مقامات میں تفریحی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے حوالے سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ تمام اقدامات محفوظ سیاحت کے لیے کیے جا رہے ہیں۔مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کریک ڈاون جاری ہے۔ امید ہے دریا کے کناروں کو صاف کیا جائے گا تاکہ دوبارہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔انہوں نے بتایا کہ صوبے میں سیاحتی سرگرمیوں میں ہر برس اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ٹورازم مینجمنٹ پر توجہ دی جا رہی ہے۔’سیاحتی مقامات کو بند نہیں کر رہے بلکہ نئے مقامات سامنے لا رہے ہیں اور انہیں محفوظ بنا رہے ہیں۔‘