گزشتہ روز 25 سالہ سابق بھارتی ریاستی سطح کی ٹینس کھلاڑی رادھیکا یادو کو اُس کے اپنے والد دیپک یادو نے پانچ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق یہ ہولناک واقعہ جمعرات کو تقریباً دوپہر 2 بجے اس وقت پیش آیا جب رادھیکا اپنے گھر کی پہلی منزل پر باورچی خانے میں کھانا پکا رہی تھیں۔
پولیس تفتیش کے مطابق دیپک یادو نے اپنی بیٹی پر .32 بور کے لائسنس یافتہ ریوالور سے فائرنگ کی۔ پانچ گولیاں چلائی گئیں جن میں سے تین براہِ راست اُس کی پیٹھ پر لگیں۔ گولیاں لگتے ہی رادھیکا موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچی اور دیپک یادو کو حراست میں لے لیا۔ گرفتاری کے بعد اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے وجہ بیان کی کہ وہ اپنی بیٹی کی کمائی پر جینے کے طعنوں سے پریشان تھا۔
دیپک یادو، جو دراصل وزیرآباد گاؤں کا رہائشی ہے، پچھلے کئی دنوں سے شدید ذہنی دباؤ اور شرمندگی کا شکار تھا۔ اس کے گاؤں کے لوگ اُسے مسلسل طعنے دیتے تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی کمائی پر پل رہا ہے۔ پولیس کے مطابق دیپک یادو کو رادھیکا کی خودمختاری اور اس کے قائم کردہ ٹینس اکیڈمی سے بھی شدید اختلاف تھا۔ وہ بارہا چاہتا تھا کہ رادھیکا اکیڈمی بند کر دے، مگر جب بیٹی نے انکار کیا تو نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ اس نے اپنی ہی بیٹی کی جان لے لی۔
رادھیکا یادو ایک باصلاحیت اور روشن مستقبل کی حامل کھلاڑی تھیں۔ ان کی پیدائش 23 مارچ 2000 کو ہوئی تھی۔ انہوں نے ریاستی اور قومی سطح پر بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن (ITF) کی خواتین ڈبلز کیٹیگری میں وہ 113ویں نمبر پر تھیں جبکہ دنیا بھر کی درجہ بندی میں ٹاپ 200 کھلاڑیوں میں شامل تھیں۔ ہریانہ کی سطح پر وہ خواتین ڈبلز میں پانچویں پوزیشن پر تھیں۔ یہ تمام کامیابیاں اُن کی محنت، لگن اور نظم و ضبط کا نتیجہ تھیں لیکن افسوس کہ اُن کا اختتام درد، نفرت اور انا کی گولیوں سے ہوا۔
رادھیکا کے قتل کے بعد ان کے چچا کی مدعیت میں پولیس اسٹیشن سیکٹر 56 میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ پولیس نے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ قبضے میں لے لیا ہے اور مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تفتیش کے دوران کچھ اور پہلوؤں پر بھی غور کیا جا رہا ہے، مثلاً سوشل میڈیا پر رادھیکا کی موجودگی یا کسی ممکنہ تعلق پر والد کو اعتراض۔
دیپک یادو نے پولیس کو بتایا کہ وہ پچھلے 15 دنوں سے شدید ڈپریشن میں مبتلا تھا اور اپنی "عزت نفس" کے مجروح ہونے کی کیفیت برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس نے بیان دیا:
"لوگ کہتے تھے کہ میں بیٹی کی کمائی کھاتا ہوں، مجھے اپنی زندگی بے کار لگنے لگی تھی۔ میں اب اور برداشت نہیں کر سکتا تھا۔"
یہ المناک کہانی کئی سوالات چھوڑ جاتی ہے: جب ایک باپ بیٹی کی کامیابی کو اپنی بے عزتی سمجھے، جب ایک بیٹی کی خودمختاری اُس کے گھر والوں کی انا کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے، تو ہم کس ترقی کی بات کر رہے ہیں؟ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جو بیٹیوں کی تعلیم، ترقی اور برابری کا دعویٰ کرتا ہے، مگر ان کے خوابوں کو اُن ہی کے اپنوں کے ہاتھوں روند دیتا ہے؟