10 دن میں 250 کروڑ کا بزنس کرنے والی فلم ’سیارہ‘ کیا معروف کورین فلم کا ری میک ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 28, 2025

انڈیا میں سینما گھروں سے لے کر سوشل میڈیا تک یش راج فلمز کی نئی فلم ’سیارہ‘ اِن دنوں زیر بحث ہے۔ اپنی ریلیز کے ابتدائی چند دنوں میں اس فلم نے 247.25 کروڑ کا بزنس کر کے فلم ناقدین کو حیران کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فلم میں کوئی بڑا نام یعنی سُپر سٹار موجود نہیں ہے۔

فلم کے جذباتی مناظر کے باعث نوجوانوں کے آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے جبکہ ہاؤس فُل تھیٹرز نے پروڈیوسرز کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دی ہیں۔

لیکن کامیابی کی اس لہر کے درمیان یہ بحث بھی زور پکڑتی جا رہی ہے کہ کیا ’سیارہ‘ کورین کلاسک ’اے مومنٹ ٹو ریمیمبر‘ کا ری میک ہے؟

’اے مومنٹ ٹو ریمِیمبر‘

’اے مومنٹ ٹو ریمِیمبر‘ سنہ 2004 میں ریلیز ہونے والی جنوبی کوریا کی رومانوی فلم ہے جو کوریا کے ساتھ ساتھ جاپان میں بھی زبردست ہٹ ثابت ہوئی تھی۔

فلم کی کہانی ایک جاپانی ٹی وی سیریز ’پیور سول‘ سے متاثر ہے۔ سنہ 2012 میں ترکی میں ’ایوم سینسن‘ (یعنی ’تم ہی میری دنیا ہو‘) کے نام سے اس کا آفیشل ری میک بھی بنایا گیا تھا۔

’اے مومنٹ ٹو ریمیمبر‘ کی کہانی ہیرو چوئی چُل سو اور ہیروئن کم سو جن کے گرد گھومتی ہے جو دو مختلف سماجی طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

چوئی چُل سو ایک حساس شخص ہے اور وہ کنٹرکشن انڈسٹری میں بطور فورمین کام کرتے ہیں اور ان کا خواب آگے چل کر آرکیٹیکٹ (ماہر تعمیرات) بننا ہوتا ہے۔

دوسری طرف، کِم سو جِن ایک فیشن ڈیزائنر ہیں۔ یہ کہانی دونوں کی ملاقات، پھر دھیرے دھیرے محبت اور شادی میں بدل جاتی ہے۔

لیکن شادی کے فوراً بعد ایک کڑوا سچ سامنے آتا ہے کہ بیوی کم سو جن کو الزائمر کی تشخیص ہوتی ہے، یعنی آہستہ آہستہ اُن کی یادیں دھندلانے لگتی ہیں۔

دونوں فلموں کا موازنہ

’سیارہ‘ میں ہیروئن (وانی) کا کردار انیت پڈا نے ادا کیا ہے اور اُن میں بھی الزائمر کی تشخیص ہوتی ہے اور وہ اس بیماری کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ کوریائی فلم کی طرح ٹوٹے ہوئے رشتے سے بھی نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہی وہ گہری مماثلت ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ 'سیارہ' کو 'اے مومنٹ ٹو ریمیمبر' کا ری میک کہہ رہے ہیں۔

'اے مومنٹ ٹو ریمِیمبر' میں کہانی کے آغاز میں ہیرو اور ہیروئن کی شادی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد ہی سو جن کو الزائمر کی تشخیص ہوتی ہے۔ اور پھر کہانی اسی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔ ایک شوہر جو اپنی بیوی کی یادوں کو مٹتا اور آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے لیکن پھر بھی اسے تھامے ہوئے ہے۔

دوسری طرف ’سیارہ‘ میں کہانی کی سمت کچھ مختلف ہے۔ جہاں ’اے مومنٹ ٹو ریمیمبر' ایک بالغ جوڑے کی جذباتی جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے وہیں ’سیارہ‘ نوجوان محبت کی معصومیت کے ساتھ گھل مل جاتی ہے۔

یہاں ہیرو-ہیروئن کِرش اور وانی کا رشتہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور فلم کے آخری حصے میں دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔

یہ کتنا مختلف ہے؟

’سیارہ‘ میں سماجی طبقاتی کشمکش کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی جو کورین فلم کا ایک اہم حصہ تھا۔

’اے مومینٹ ٹو ریمیمبر‘ کے برعکس ’سیارہ‘ میں دونوں کرداروں کا پس منظر موسیقی سے ہے۔ اس میں ایک گلوکار کی جدوجہد کی بات ہے اور اس جذباتی کہانی میں گانے ایک کردار کے طور پر ابھرتے ہیں۔ یہ چیزیں ’سیارہ‘ کو ’اے مومنٹ ٹو ریمیمبر‘ کے براہ راست ری میک سے الگ کرتی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ’سیارہ‘ کے کورین فلم سے متاثر ہونے سے مکمل انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اتفاق بھی ایک عجیب چیز ہے، خاص طور پر جب یہ بار بار ہو۔ دونوں فلموں میں ہیروئن الزائمر کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، اس کی یادداشت خراب ہے، اور وہ اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ساتھ بھی نظر آتی ہیں۔ دونوں کی کہانی میں ہیرو ہیرونز کی پرانی یادیں یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے، اورپرانے سنہری لمحات کو دہراتا ہے اور اُن کی تخلیق کرتا ہے۔

سیارہ میں ایک ایسا منظر ہے جو کہانی اور فلم بندی دونوں لحاظ سے کسی کوریائی فلم کی براہ راست نقل لگتا ہے۔ اس خاص ترتیب میں ہیروئن وانی (انیت پڈا) اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ساتھ ہیں۔ کِرش غصے میں حملہ کرتا ہے۔ اسی وقت وانی کی یادداشت دھندلا جاتی ہے اور وہ اچانک کرش پر چاقو سے حملہ کرتی ہیں۔

ایسا ہی ایک منظر سو جن اور چُل سو کے درمیان ’اے مومنٹ ٹو ریمیمبر‘ میں ہے۔ اس منظر کو دونوں فلموں کو دیکھنے والے شائقین نے نقل سمجھا اور یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔

ترغیب کہیں سے بھی مل سکتی ہے، چاہے وہ کورین فلم ہو، کوئی پرانی کہانی ہو یا شام کا اداس سورج۔ اور ویسے بھی انسپائریشن کو ’ری میک‘ نہیں کہا جاتا۔ بالکل اسی طرح جیسے یش راج فلمز نے اب تک ’سیارہ‘ کو ری میک نہیں کہا ہے۔ اب ممکن ہے کہ وہ کل ایسا کہیں۔ لیکن دونوں فلموں کو دیکھنے والے ناظرین کے دل ہی اصل جج ہیں۔

لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہدایت کار موہت سوری کورین فلموں سے متاثر ہوئے ہوں۔

موہت سوری کی ’ترغیب‘ کا سفرGetty Imagesاداکار ارجن کپور کے ساتھ موہت سوری

موہت سوری، رومانس، درد اور سنسنی کو یکجا کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ مشہور فلم ڈائریکٹر مہیش بھٹ اور مکیش بھٹ کے بھتیجے ہیں۔ انھوں نے بطور ہدایت کار اپنے سفر کا آغاز سنہ 2005 میں بھٹ فلمز کی فلم ’زہر‘ سے کیا۔ فلم کے ہیرو ان کے کزن عمران ہاشمی تھے۔

یہ فلم ہالی وڈ کی ’آؤٹ آف ٹائم‘ (2003) سے متاثر تھی۔ شروع ہی سے موہت سوری نے بھٹ کیمپ کی سپر ہٹ موسیقی کی روایت کو مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ سنہ 2006 میں، انھوں نے کنگنا رناوت اور شائنی آہوجا کے ساتھ کامیاب فلم ’وہ لمحے‘ کی ہدایتکاری کی، جو فلم ساز مہیش بھٹ اور اداکارہ پروین بابی کی کہانی پر مبنی تھی۔

کورین فلموں سے ان کا تعلق 2007 میں ان کی فلم ’آوارہ پن‘ سے شروع ہوا۔ فلم کی کہانی جنوبی کوریا کی ہٹ فلم ’اے بیٹر سویٹ لائف‘ سے متاثر ہے۔

اس فلم نے موہت سوری کے ’محبت سے متاثر، اندر سے ٹوٹے ہوئے کرداروں‘ کے سگنیچر انداز کا آغاز تھا جس میں کردار کو جذبات اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا پیش کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد کی فلموں میں اسی طرح کے ہیرو اور ہیروئن تھے۔ ان کی سپر ہٹ فلمیں ’مرڈر 2‘ کورین فلم ’دی چیزر‘ سے متاثر تھی، عاشقی 2 ہالی وڈ کی فلم ’اے سٹار از بورن‘ سے متاثر ہے اور ’ایک ولن‘ میں کورین فلم ’آئی سا دی ڈیول‘ کی جھلک نظر آئی تھی۔

’سیارہ‘: سُپر سٹارز کے بغیر مگر ریلیز کے پہلے ہی ہفتے 156 کروڑ کا بزنس کرنے والی فلم اتنی کامیاب کیوں ثابت ہو رہی ہے؟کورین ڈراموں کی بے بس اور نازک خواتین جو اب مضبوط اور پر تشدد ہو گئیںبنگلہ دیش میں پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟’میرے والد برہمن تھے مگر والدہ کہتی تھیں ڈر لگے تو یا علی مدد بول لیا کرو‘

ان فلموں کے ہٹ گانوں جیسے ’سُن رہا ہے نہ تو‘، ’تیری گلیاں‘، ’ہمدرد‘ کا نوجوانوں میں بے پناہ کریز تھا۔ تاہم خود موہت سوری نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا کہ ان کی فلمیں کورین فلموں سے متاثر ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ’ایک ولن‘ کے بعد اُن کی ہدایت کردہ چار فلمیں ’ہماری ادھوری کہانی‘ (2015) ’ہاف گرل فرینڈ‘ (2017) ’ملنگ‘ (2020) اور ’ایک ولن ریٹرنز‘ (2022) جو غیر ملکی فلموں سے متاثر نہیں تھیں، سب فلاپ ثابت ہوئیں۔

اگر کامیابی کی تلاش میں ’سیارہ‘ نے کورین فلموں کے جذباتی کرداروں سے تھوڑا سا درد، تھوڑا سے جذبات اور کچھ لمحات مستعار لیے ہیں تو اس خوبصورتی سے شائقین کے دلوں کو چھو لینا، اسے اپنے رنگ میں ڈھالنا اور شائقین کو دوبارہ سینما ہال کی طرف کھینچنا کوئی معمولی بات نہیں۔

Getty Imagesبالی وڈ میں پہلے بھی کورین فلموں سے متاثر فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں سلمان خان کی فلم رادھے بھی شامل ہےبالی وڈ کو کورین فلمیں کیوں پسند ہیں؟

بات صرف ’سیارہ‘ یا موہت سوری کی نہیں ہے، بالی وڈ برسوں سے کورین فلموں سے متاثر ہے۔

ہدایتکار سنجے گپتا نے کورین کلاسک فلم ’اولڈ بوائے‘ پر سنجے دت اور جان ابراہم کی اداکاری والی فلم ’زندہ‘ بنائی۔ پھر ’7 ڈیز‘ پر عرفان خان اور ایشوریہ کے ساتھ ’جذبہ‘، سلمان کی فلم ’رادھے‘ اور ’بھارت‘ کورین فلموں ’دی آوٹ لاز‘ اور ’اوڈ ٹو مائی فادر‘ کی ری میک تھیں۔

ان کے علاوہ ’اگلی اور پگلی‘، ’راکی ہینڈسم‘، ’دھماکہ‘ جیسی رومانوی یا تھرلر فلموں کی کہانیاں بھی کوریا سے آئیں۔

تو ایسی کیا خاص بات ہے کہ بالی وڈ کا رخ کوریائی کہانیوں کی طرف ہو گیا؟

دراصل، بالی وڈ اور کورین کمرشیل سنیما میں بہت سے گہرے ثقافتی دھاگے پائے جاتے ہیں۔

ہالی وڈ اور یورپی فلموں کے برعکس، بالی وڈ فلموں میں اکثر متنوع چیزوں کو پیش کیا جاتا ہے، یعنی سامعین کو ایک ہی پلیٹ میں جذبات، ڈرامہ، ایکشن اور رومانس سب کچھ پیش کیا جاتا ہے۔

اسی طرح، زیادہ تر کورین فلمیں اور سیریز جذبات کی ایک ایسی دنیا بناتی ہیں، جہاں تفریح کا ایک دلکش جال بُنا جاتا ہے اور کہانی میں کئی انواع کو ملا دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ان میں اور بھی مماثلتیں ہیں۔ کورین ٹی وی سیریز یا ’کے ڈرامہ‘ اکثر مضبوط جذبات اور انسانی رشتوں پر مرکوز ہوتے ہیں، جیسے ماں بیٹی کے تعلقات یا پہلی محبت۔ انڈین ناظرین آسانی سے ان جذبات سے جڑ سکتے ہیں۔ ان میں خاندان، عزت، محنت اور انسانیت جیسی اقدار کو اہمیت دی جاتی ہے۔

یہ وہی اقدار ہیں جو ہندوستانی معاشرے میں بھی اہم سمجھی جاتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انگریزی فلموں کے برعکس، زیادہ تر کوریائی کہانیوں کو اکثر سادگی اور حساسیت کے ساتھ بغیر شہوت انگیز مناظر کے پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انھیں عام طور پر جنوبی ایشیائی ممالک میں ایک خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔

یہی مماثلت تھی جس نے انڈین ناظرین کو کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران ہندی یا انگریزی میں ڈب کی جانے والی کورین ٹی وی سیریز کی طرف مائل کیا۔ نیٹ فلکس پر سب سے کامیاب سیریز میں کورین سیریز ’سکوئڈ گیم‘ بھی ہے۔

اس سے قبل ’پیرا سائیٹ‘، ’کریش لینڈنگ آن یو‘، ’اٹز اوکے ٹو ناٹ بی اوکے‘، ’دی کوئینز کلاس روم‘ اور ’کے ڈرامے‘ جیسی فلمیں انڈیا میں کافی مقبول رہی ہیں۔

اب جبکہ یش راج کی یہ رومانوی فلم ناظرین کے دلوں پر راج کر رہی ہے، فلم انڈسٹری کے دیگر پروڈیوسرز بھی رومانس کے ساتھ جذبات کی اس ’کورین لہر‘ کو کیش کرنے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔

’میرے والد برہمن تھے مگر والدہ کہتی تھیں ڈر لگے تو یا علی مدد بول لیا کرو‘’گندی بات‘: کم عمر لڑکیوں کو شہوت انگیز انداز میں دکھانے کے الزام پر فلمساز ایکتا کپور کے خلاف مقدمہ درج’میرے پاس ماں ہے‘: وہ فلم جس کی کہانی کے پیچھے بالی وڈ کی مشہور جوڑی کا دکھ چھپا ہےبنگلہ دیش میں پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟’طاقت اس کے پاس رہتی ہے جو کمانے والا ہو‘: گھریلو کام کاج میں مردوں کی عدم دلچسپی کی نشاندہی کرنے والی فلم پر انڈیا میں بحثکورین ڈراموں کی بے بس اور نازک خواتین جو اب مضبوط اور پر تشدد ہو گئیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More