EPA
تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے نتیجے میں حماس کی عسکری صلاحیتوں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس کی سیاسی قیادت بھی شدید دباؤ کا شکار ہے تاہم اس کے باوجود حماس ایک خفیہ نظام کے ذریعے 30 ہزار سول ملازمین کو کیش میں تنخواہیں دینے میں کامیاب رہا ہے۔
یہ رقم کل ملا کر تقریباً 70 لاکھ ڈالرز بنتی ہے۔
بی بی سی نے تین سول ملازمین سے بات جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران ان میں سے ہر کسی کو 300 ڈالر موصول ہوئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا شمار ان ہزاروں ملازمین میں ہوتا ہے جنھیں ہر دس ہفتے میں تنخواہ ملتی ہے تاہم یہ رقم جنگ سے پہلے ملنے والی تنخواہ کا محض 20 فیصد سے کچھ اوپر ہے۔
بڑھتی مہنگائی اور تنخواہوں میں کٹوتی کے چلتے حماس کے وفاداروں میں بھی اب بے چینی پائی جا رہی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں غزہ میں ایک کلو آٹے کی قیمت 80 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ غزہ میں شدید غذائی قلت کے لاتعداد کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ امدادی تنظیمیں خوراک کی کمی کے لیے اسرائیلی پابندیوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں۔
غزہ جہاں کوئی بینکنگ سسٹم کام نہیں کر رہا تنخواہ وصول کرنا پیچیدہ بلکہ بعض اوقات خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ حماس کی حکومت کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچانے کی غرض سے اسرائیل باقاعدگی سے حماس کے تنخواہ تقسیم کرنے والوں کو نشانہ بناتا ہے۔
پولیس افسران سے لے کر ٹیکس حکام تک، غزہ میں اکثر سرکاری ملازمین کو اپنے یا اپنے شریک حیات کے فون پر ایک خفیہ پیغام موصول ہوتا ہے جس میں انھیں ’کسی دوست کے ساتھ چائے پینے‘ کے لیے مخصوص وقت پر کسی مخصوص مقام پر جانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
حماس کو اپنے 50 ہزار ملازمین اور اپنے خرچ کے لیے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں؟کیا حماس کے خلاف بڑھتے مظاہرے غزہ پر اس کی گرفت کمزور کر رہے ہیں؟سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں ’مکمل ناکامی‘ سے متعلق اسرائیلی فوج کی پہلی رپورٹ میں کیا اعترافات کیے گئے ہیں؟حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیں
ملاقات کی جگہ اکثر کوئی شخص چپکے سے انھیں ایک بند لفافہ تھما کر غائب ہو جاتا ہے جس میں ان کی تنخواہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھار یہ کام کرنے والی کوئی خاتون ہوتی ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام چلنے والی وزارتِ مذہبی امور کے ایک ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایسے تنخواہ وصول کرنے مبں درپیش مسائل کے بارے میں بتایا۔
’جب بھی میں اپنی تنخواہ وصول کرنے جاتا ہوں تو میں اپنے بیوی، بچوں کو الوداع کر کے جاتا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ شاید میں واپس نہ آ سکوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ کئی مواقعوں پر تنخواہ تقسیم کرنے کی جگہوں پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ ’میں خود غزہ کی ایک مصروف مارکیٹ میں ہونے والے ایسے ہی ایک حملے میں بال بال بچا تھا۔‘
الا (فرضی نام) حماس کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک سکول میں ٹیچر ہیں اور چھ افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں تنخوہ کے طور پر پرانے نوٹوں پر مشتمل ایک ہزار شیکلز ملے ہیں۔ یہ رقم تقریبا 300 ڈالر بنتی ہے۔ ’کوئی دکان والا وہ نوٹ لینے کو تیار نہیں تھا۔ صرف 200 شیکلز اسعمال کے قابل تھے۔ مجھے نہیں پتا میں بقیہ نوٹوں کا کیا کروں گا۔‘
’ڈھائی مہینوں کی بھوک کے بعد وہ ہمیں پھٹے پرانے نوٹوں کی شکل میں ادائیگی کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس امید کے ساتھ کہ شاید انھیں اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے تھوڑا بہت آٹا مل جائے، وہ اکثر امدادی سامان کی تقسیم کے مراکز پر جاتے۔ ’کبھی کبھار میں تھوڑا بہت گھر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں لیکن اکثر ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
رواں سال مارچ میں اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے خان یونس میں واقع نصیر ہسپتال ہر ایک حملے میں حماس کے مالی معاملات چلانے والے اسماعیل برہوم کو ہلاک کر دیا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اپنے زیادہ تر انتظامی اور مالیاتی ڈھانچے کی تباہی کے بعد بھی حماس تنخواہوں کی ادائیگیوں کو کیسے جاری رکھے ہوئے ہے۔
حماس کے ایک سینیئراہلکار جو تنظیم کے اعلیٰ عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور حماس کی مالیاتی کارروائیوں سے واقف ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ گروپ نے 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حملے سے قبل تقریباً 70 کروڑ ڈالرز اور کئی سو کروڑ شیکلز زیر زمین سرنگوں میں جمع کر رکھے تھے۔
مبینہ طور پر حماس کے رہنما یحییٰ سنوار اور ان کے بھائی محمد براہ راست اس رقم کی نگرانی کرتے تھے تاہم دونوں بھائی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
AFPغزہ میں شدید غذائی قلت کے لاتعداد کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ امدادی تنظیمیں خوراک کی کمی کے لیے اسرائیلی پابندیوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیںحماس کے حامیوں کے لیے ’انعام‘
حماس اپنی آمدن کے لیے غزہ کی آبادی پر عائد بھاری درآمدی محصولات اور ٹیکسوں پر انحصار کرتا آیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے قطر سے لاکھوں ڈالر کی امداد بھی حاصل ہوتی ہے۔
حماس کا مسلح ونگ قاسم برگیڈ ایک علیحدہ مالیاتی نظام کے تحت چلتا ہے جس کے لیے ایران رقوم فراہم کرتا ہے۔
دنیا کی سب سے بااثر اسلامی تنظیموں میں سے ایک کالعدم اخوان المسلمون کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ ان کے بجٹ کا تقریباً 10 فیصد حماس کو دیا گیا تھا۔
جنگ کے دوران آمدن کے لیے حماس نے تاجروں پر بھاری ٹیکس عائد کرنے جاری رکھے اور سگریٹوں کو تقریباً 100 گنا قیمت پربیچا۔
جنگ سے قبل، ایک 20 سیگریٹوں کے پیکٹ کی قیمت تقریباً پانچ ڈالر تھی جو اب تقریباً 170 ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
نقد ادائیگیوں کے علاوہ، حماس اپنے ممبران اور ان کے خاندانوں میں مقامی ایمرجنسی کمیٹیوں کے ذریعے کھانے کے پیکٹ بھی تقسیم کرتا ہے۔
اس معاملے پر عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔ غزہ کے شہریوں کا الزام ہے حماس صرف اپنے حامیوں میں امداد تقسیم کر رہا ہے۔
اسرائیل حماس پر جنگ بندی کے دوران غزہ میں داخل ہونے والی امداد کو لوٹنے کا الزام لگاتا آیا ہے۔ حماس اس کی تردید کرتا آئی ہے۔
تاہم غزہ میں موجود ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جنگ بندی کے دوران حماس نے امدادی سامان کی بڑی تعداد اپنے پاس رکھ لی تھی۔
نسرین خالد کے شوہر پانچ سال قبل کینسر سے وفات پا گئے تھے اور اب وہ اپنے پانچ بچوں کی واحد کفیل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب بھوک بڑھی تو میرے بچے نہ صرف درد سے رو رہے تھے بلکہ حماس سے وابستہ ہمارے پڑوسیوں کو کھانے کے پارسل اور آٹے کی بوریاں وصول کرتے ہوئے بھی دیکھ رہے تھے۔‘
’کیا وہ ہمارے مسائل کی وجہ نہیں ہیں؟ انھوں نے اپنے 7 اکتوبر کے ایڈونچر کو شروع کرنے سے پہلے خوراک، پانی اور ادویات جمع کیوں نہیں کی؟‘
کیا حماس کے خلاف بڑھتے مظاہرے غزہ پر اس کی گرفت کمزور کر رہے ہیں؟حماس کو اپنے 50 ہزار ملازمین اور اپنے خرچ کے لیے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں؟سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں ’مکمل ناکامی‘ سے متعلق اسرائیلی فوج کی پہلی رپورٹ میں کیا اعترافات کیے گئے ہیں؟حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیںغزہ میں اس وقت کس طرح کی امداد کی ضرورت ہے اور کون سے اداروں کے امدادی ٹرک رفح کراسنگ پر موجود ہیں؟فلسطینی امدادی کارکنان ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کے لیے ہر روز اپنی جان پر کھیل رہے ہیں