انڈین برآمد کنندگان نے جمعرات کو خبردار کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈین درآمدات پر مجموعی طور پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کاروبار کو ’ناقابل عمل‘ بنا سکتا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ اس ٹیرف کی ’بڑی ذاتی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، جبکہ اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے ٹیرف کو ’معاشی بلیک میلنگ‘ اور ’انڈیا کو غیر منصفانہ تجارتی معاہدے پر مجبور کرنے کی کوشش‘ قرار دیا۔جمعرات کو مارکیٹ کھلتے ہی تھوڑی مندی دیکھی گئی کیونکہ ابتدائی 25 فیصد امریکی ٹیرف کا اطلاق جمعرات سے ہوگیا ہے۔
یہ ٹیرف تین ہفتوں میں دوگنا کر دیا جائے گا، کیونکہ ٹرمپ نے بدھ کو ایک حکمنامے پر دستخط کیے جس کے مطابق روسی تیل کی خریداری جاری رکھنے پر انڈیا کے خلاف مزید 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
انڈیا روسی تیل کا دوسرا سب سے بڑا خریدار ہے، جس سے وہ رعایتی خام تیل کے ذریعے اربوں ڈالر بچا رہا ہے۔انڈین وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے مزید ٹیکسوں کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر منصفانہ، غیر مناسب اور غیر معقول‘ قرار دیا۔فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز کے صدر ایس سی رالہن نے اس اقدام کے سنگین اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ اقدام انڈین برآمدات کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ ہماری 55 فیصد سے زائد برآمدات براہ راست امریکی مارکیٹ کو جاتی ہیں۔‘’پچاس فیصد کا باہمی محصول ایک اضافی لاگت کا بوجھ عائد کرتا ہے، جس سے ہمارے برآمد کنندگان کو دیگر ممالک کے مقابلے میں 30–35 فیصد مسابقتی نقصان ہوگا۔‘رالہن نے کہا کہ کئی برآمدی آرڈرز پہلے ہی روک دیے گئے ہیں کیونکہ خریدار اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی منافع کی شرح پہلے ہی کم ہے، اور اب اس اچانک لاگت میں اضافے کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔انڈین وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے مزید ٹیکسوں کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر منصفانہ، غیر مناسب اور غیر معقول‘ قرار دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور سب سے زیادہ آبادی والے ملک انڈیا کے لیے یہ ایک نازک وقت ہے، کیونکہ امریکہ اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔صرف 2024 میں انڈیا نے امریکہ کو 87.4 ارب ڈالر مالیت کا سامان برآمد کیا۔کیپیٹل اکنامکس کے شیلان شاہ نے کہا کہ ’اگر صدر ٹرمپ کی جانب سے انڈیا کی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیکس نافذ رہا، تو انڈیا کی ابھرتی ہوئی مینوفیکچرنگ حب کے طور پر کشش بری طرح متاثر ہوگی۔‘انہوں نے کہا کہ 50 فیصد کا ٹیکس ’اتنا بڑا ہے کہ اس کے نمایاں معاشی اثرات ہوں گے،‘ جس کے نتیجے میں برآمدات میں کمی آئے گی، اور معیشت کی شرح نمو اس سال اور اگلے سال 7 فیصد کے بجائے 6 فیصد کے قریب رہ سکتی ہے۔ادویات، جواہرات، سمندری خوراکانڈیا کی اہم برآمدات میں سمارٹ فونز، ادویات، قیمتی پتھر، ٹیکسٹائل اور صنعتی مشینری شامل ہیں۔انڈیا اور چین خطے میں سٹریٹیجک اثر و رسوخ کے لیے سخت حریف ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)انڈین سی فوڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے بدھ کے روز کہا کہ 50 فیصد ٹیکس ان کے 3 ارب ڈالر کے کاروبار کے لیے خطرہ ہے۔انڈین جیولری سیکٹر، جس نے گزشتہ سال 10 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی تھیں، پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ کم ٹیکس پر بھی ہزاروں نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں جبکہ بلند شرح کو تباہ کن قرار دیا گیا۔امریکہ کی مختلف حکومتیں انڈیا کو چین سے متعلق یکساں مفادات رکھنے والا ایک اہم شراکت دار تصور کرتی آئی ہیں۔انڈیا اور چین خطے میں سٹریٹیجک اثر و رسوخ کے لیے سخت حریف ہیں۔انڈین میڈیا کے مطابق مودی اگست کے آخر میں اپنے دیرینہ حریف چین کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اس دورے کی تصدیق ابھی تک حکام نے نہیں کی ہے، لیکن اگر ہوا تو یہ ان کا 2018 کے بعد پہلا چینی دورہ ہوگا۔مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی آخری ملاقات روس میں اکتوبر 2024 میں ہوئی تھی۔