کیمسٹری آن ٹرائل: خاتون پروفیسر نے کیسے عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ انھوں نے اپنے شوہر کا قتل نہیں کیا

بی بی سی اردو  |  Aug 14, 2025

BBCاپریل میں ہونے والی اس عدالتی سماعت کی ویڈیو انڈیا بھر میں وائرل ہوئی

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کی عدالت میں جج نے خاتون سے پوچھا کہ ’کیا آپ کمیسٹری کی پروفیسر ہیں؟‘

ممتا پاٹھک نامی خاتون نے مودبانہ انداز میں ہاتھ جوڑ کر جواب دیا، ’جی ہاں۔‘

ریٹائرڈ سکول ٹیچر ممتا پاٹھک چشمہ لگائے اور سفید ساڑھی پہنے عدالت کے سامنے حاضر تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ فرانزک پر کوئی لیکچر دے رہیں ہیں۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’بغیر کیمیائی تجزیہ کیے، پوسٹ مارٹم میں یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ یہ تھرمل برن (حرارت سے جلنا ہے)یا الیکٹراک برن (بجلی کے کرنٹ سے جلنا) ہے۔‘

اس موقع پر جج نے انھیں یاد دلایا کہ ’پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ (مرنے والے کے جسم پر) بجلی کے جھٹکوں کے واضح نشان موجود تھے۔‘

63 سالہ ممتا پاٹھک پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو کرنٹ لگا کر مار دیا تھا۔ اور اسی کیس کے سلسلے میں وہ بطور ملزمہ عدالت کے سامنے پیش تھیں۔

یہ بہت ہی غیر معمولی لمحہ تھا جب وہ عدالت کو بتا رہی تھیں کہکیسے جلنے کی نوعیت کا اندازہ جلد کے ٹشوز اور تیزاب کے ری ایکشن کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔

اپریل میں ہونے والی اس عدالتی سماعت کی ویڈیو انڈیا بھر میں وائرل ہوئی۔

لیکن عدالت کے سامنے ممتا کا بھرپور اعتماد بھی اس مقدمے کو ختم نہیں کر سکا۔

یہ اُن کے شوہر کے قتل کا مقدمہ ہے، جس کی بنیاد شک اور ازدواجی تنازع تھا۔

گذشتہ ماہ ہائیکورٹ نے ممتا پاٹھک کی اپیل مسترد کرتے ہوئے، اُن کی عمرقید کی سزا برقرار رکھی۔ ممتا نے اپریل 2021 میں اپنے شوہر نیرج پاٹھک کو کرنٹ لگا کر قتل کر دیا تھا۔

اگرچہ عدالت میں اپنے دفاع میں ممتا پاٹھک نے ماسٹ مارٹم رپورٹ میں موجود خامیاں، گھر کی انسولیشن اور الیکٹرو کیمیکل کے نظریے پر بات کی، لیکن عدالت حالات و واقعات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ انھوں نے اپنے شوہر کو نیند کی گولیاں کھلائیں اور اسی حالت میں کرنٹ لگا کر قتل کر دیا۔

ممتا پاٹھک نے فرانزک کی کتاب سے عدالت کو حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سر، مرنے سے پہلے لگنے والے کرنٹ سے جلنے کے نشانات اور مرنے کے بعد کرنٹ لگنے سے جلنے کے نشانات میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر کیسے پوسٹ مارٹم میں اسے الیکٹراک برن لکھ سکتے ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے کرنٹ سے جلنے کا نشان مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد بالکل ایک جیسا دیکھتا ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق جلد پر ہونے والی تبدیلی کا باریکی سے کیے گئے مشاہدے سے اس بارے میں کچھ نہ کچھ پتہ چل سکتا ہے۔

BBCشوہر کو کرنٹ لگا کر قتل کرنے کے جرم میں ممتا پاٹھک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی (ممتا پاٹھک اپنے شوہر کے ہمراہ )

کیمیائی تبدیلیوں پر عدالت میں ہونے والی یہ گفتگو لیبارٹری میں تحقیق کے مراحل میں داخل ہو گئی۔ ممتا نے مختلف تیزابوں کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ’الیکٹرون مائیکروسکوپ کے ذریعے ہی اس میں تفریق کی جا سکتی ہے۔ جو پوسٹ مارٹم روم میں ممکمن نہیں ہے۔‘

وہ چاہتی تھیں کہ جج الیکٹرون مائیکروسکوپی اور مختلف نوعیت کے تیزابوں کے بارے میں اُن سے بات کریں۔

اُن کے اس مکالمے کو سنتے ہوئے خواتین وکیل مسکرائیں، لیکن ممتا نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ جیل میں ایک سال تک انھوں نے ریسرچ کی ہے۔

میڈیکل فرانزک کی کتابوں کے حوالوں سے بنائے گئے اپنے نوٹس کو آگے پیچھے کرتے ہوئے وہ عدالت کو تحقیقات میں مبینہ نقائص، جائے وقوعہ پر الیکٹرایکل اور فارنزک ماہرین کی عدم موجودگی پر بات کر رہی تھیں۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ سنہ 2017 سے سنہ 2022 تک اُن کا مکان انشورڈ تھا اور معائنہ کاروں نے شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ سے محفوظ قرار دیا تھا۔

ممتا نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے شوہر کو ہائی بلڈ پریشر اور دل کا عارضہ تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شوہر کی موت کا اصل سبب دل کی شریانوں کا تنگ ہونا تھا۔ انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کہیں پھسل کر گرنے سے اُن کی کوئی رگ نہ پھٹ گئی ہو، لیکن اس سب کی تصدیق نہیں کی گئی۔

ممتا کے 65 سالہ شوہر نیرج پاٹھک 29 اپریل 2021 کو اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں مرنے کی وجہ کرنٹ لگنا بتایا گیا ہے۔ کچھ دن کے بعد ممتا کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس نے گیارہ میٹر لمبی بجلی کی تار اور دو پلگ برآمد کیے اور مختلف گھروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی۔ جائے وقوعہ سے نیند کی گولیاں بھی ملیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جسم کے مختلف حصوں پر کرنٹ لگنے اور سانس گھٹنے سے اُن کی موت واقع ہوئی۔ یہ پوسٹ مارٹم نیرج کے موت کے بعد 36 سے 72 گھنٹوں کے دوران ہوا تھا۔

ممتا نے جج سے کہا کہ ’انھیں دوائیوں کے سٹرپ پر میرے فنگر پرنٹس نہیں ملے۔‘ عدالت میں موجود دونوں جج اُن کے دلائل سے متفق نہیں ہوئے۔

ممتا مقامی سرکاری کالج میں کمیسٹری پڑھاتی تھیں جبکہ اُن کے شوہر نیرج ضلعی ہسپتال میں چیف میڈیکل آفیسر تھے۔ دونوں کے دو بچے تھے جن میں سے ایک بیرون ملک رہتا تھا اور دوسرا ماں کے باپ کے ساتھ تھا۔ نیرج نے 39 سال کی سروس کے بعد سنہ 2019 میں ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور گھر میں ایک کلینک کھول لیا تھا۔

BBCممتا مقامی کالج میں کیمسٹری پڑھاتی تھیں

چار دہائیوں تک انھوں نے انڈیا کی مڈل کلاس فیملیز جیسی زندگی ساتھ گزاری۔

نیرج کا قتل کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہوا۔ نیرج کورونا کی معمولی علامات کے سبب مکان کی پہلے فلور پر رہ رہے تھے جبکہ ممتا اور اُن کا بیٹا نچلے فلور پر تھے۔

اس کیس میں عدالت کے 97 صفحات پر مبنی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 29 اپریل کو ممتا نے رپورٹ کیا کہ اُن کے شوہر اپنے بستر میں بے حس و حرکت پڑے ہیں، لیکن انھوں نے یکم مئی تک ڈاکٹر یا پولیس کو مطلع نہیں کیا بلکہ اس دوران وہ بغیر کسی وجہ کے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ 130 کلومیٹر دور جھانسی چلیں گئیں۔ ڈرائیور کے مطابق دونوں ماں بیٹا شام تک واپس آ گئے۔

ممتا نے پولیس کو آگاہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ وہ نہیں جانتی کہ اُن کے شوہر کی موت کیسے ہوئی۔

اس خاموشی کے پیچھے اُن کی مشکل ازوجی زندگی تھی۔ ججوں نے اس جوڑے کے درمیان طویل عرصے سے جاری اختلاف پر بھی بات کی اور ممتا کو شبہ تھا کہ نیرج اُن سے بے وفائی کر رہے ہیں۔

مرنے کے دن صبحنیرج نے اپنے ایک ساتھی کو بلایا اور کہا کہ ممتا ان پر ’تشدد‘ کر رہی ہیں، کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھتی ہیں،باتھ روم میں بند کر رہی ہیں اور اُن پر جسمانی تشدد کرتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ممتا نے اُن سے رقم، گاڑی کی جابیاں، اے ٹی ایم کارڈ اور فکس ڈیپازٹ کے کاغذات بھی لے لیے ہیں۔

مدد کے لیے نیرج کے بیٹے نے ایک دوست سے رابطہ کیا جس نے پولیس کو آگاہ کیا، جس کے بعد پولیس نے ریٹائرڈ ڈاکٹر کو ’ممتا کی تحویل‘ سے بچایا۔

حالیہ دونوں میں بھی اس جوڑا کے الگ الگ رہنے سے عدالت کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔

ممتا نے عدالت کو بتایا کہ وہ ’بہترین ماں‘ ہیں اور ثبوت کے طور پر انھوں نے بچوں کی طرف دیے گئے سالگرہ کے کارڈ پیش کیے۔ انھوں نے خاندان کی تصاویر دکھائیں اور وہ تصویر بھی دکھائیں جس میں وہ ہاتھ سے شوہر کو کھانا کھلا رہی ہیں۔

لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوا اور ججوں نے کہا کہ ’پیار کرنے والی ماں‘ بھی ’مشکوک بیوی‘ ہو سکتی ہے۔

پچاس منٹ تک اپنے دفاع اور عدالت کے سوالوں کا جواب دینے کے بعد پہلی بار ممتا کو حوصلہ کچھ ٹوٹا۔

انھوں نے دبی ہوئی آواز میں کہا کہ ’میں ایک چیز جانتی ہوں ۔۔۔ میں نے اُسے قتل نہیں کیا۔‘

دوسری ہی لمحے انھوں نے تسلیم کیا کہ ’وہ اس سے زیادہ نہیں سہہ سکتی ہیں۔‘

جج اگروال نے کہا کہ ’آپ تو اس کی عادی ہو گئی ہوں گی۔۔۔۔ آپ کالج میں 50 منٹ کی کلاس تو لیتی ہوں گی۔‘

ممتا نے جج کو روکتے ہوئے کہا کہ ’40 منٹ۔۔۔ لیکن وہ چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔‘

جج نے کہا کہ آپ اسسٹنٹ پروفیسر تھیں، کیا کالج میں چھوٹے بچے ہوتے ہیں؟ جس کے جواب میں ممتا نے کہا کہ وہ بچے ہوتے ہیں۔

جس پر عدالت نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ ’ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔‘

ممتا نے یہ مقدمہ ایک مدعی کے بجائے ایک ٹیچر کے طور پر لڑا اور اپنی بے گناہی کو سائنس کے ذریعے ثابت کرنے کے لیے انھوں نے کمرہ عدالت کو کیمسٹری لیب میں تبدیل کر دیا، لیکن آخر میں بظاہر سیدھے سادھے حقائق ان کے لیکچر سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئے۔

ڈیٹنگ ایپ، نقاب اور نائن ایم ایم پستول: برطانیہ میں پاکستانی خاندان نے بدلہ لینے کے لیے کیسے امریکی خاتون کی خدمات لیںشوہر کو ہنی مون پر قتل کرنے کا الزام: لاپتہ دلہن کی گرفتاری اور ’کرائے کے قاتلوں کی بھرتی‘ کا دعویٰشادی شدہ مرد کا افیئر، بیوی کے قتل کا منصوبہ اور وہ گواہ جو ’40 سال سے پولیس کا انتظار کر رہی تھیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More