Hulton Archive/Getty Imagesامریکی وزیر خارجہ ولیم سیورڈ جنھوں نے امریکہ اور روس کے درمیان الاسکا کی خریداری کے لِیے مذاکرات کیے
امریکہ اور روس کے صدور یوکرین جنگ اور عالمی اُمور پر بات چیت کےلیے جمعے کو امریکی ریاست الاسکا میں مل رہے ہیں۔ اس ملاقات کو روس، یوکرین جنگ کے تناظر میں اہمقرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن جس ریاست میں یہ ملاقات ہونے جا رہی ہے۔وہ بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوتن ریاست الاسکا کے سب سے بڑے شہر انکوریج میں ملیں گے۔ اگر یہی ملاقات آج سے ڈیڑھ سو برس قبل ہو رہی ہوتی تو یہ روس کی سرزمین ہوتی۔
آج الاسکا رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے لیکن یہ علاقہ برسوں قبل روس کی ملکیت تھا۔
ایک ’منطقی‘ انتخاب
امریکہ کے شمال مغرب میں واقع الاسکا کا ایک مقام پر روس سے فاصلہ محض 50 میل رہ جاتا ہے۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا میں اس اہم ملاقات کا اعلان کیا تو روسی صدر کے مشیر یوری یوشاکوف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مقام کے انتخاب کی منطق سمجھ میں آتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا روسی وفد کو اس اہم ملاقات کے لیے صرف آبنائے بیرنگ ہی عبور کرنا ہے۔
روس کا الاسکا سے تعلق 17ویں صدی کے اوائل میں اس وقت سے ہے جب سائبیریا کے مقامی لوگوں نے مبینہ طور پر سب سے پہلے مشرق میں واقع ایک وسیع و عریض زمین کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔
BBCایک مقام پر آبنائے بیرنگ پر روس اور الاسکا میں صرف 50 میل کا فاصلہ ہے
ڈنمارک کے مہم جو اور نیوی گیٹر وٹس بیرنگ کی قیادت میں ایک مہم نے دریافت کیا کہ نئی زمین روسی سرزمین سے منسلک نہیں ہے۔ لیکن شدید دھند کی وجہ سے یہ مہم ناکام ہو گئی۔
سہ 1741 میں بیرنگ کامیاب رہے اور کچھ افراد کو ساحل پر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد تجارتی مہمات کا سلسلہ شروع ہوا اور اس سے شمالی امریکہ، روس اور یورپ میں بحرالکاہل کے ساحلوں پر چمڑے کے پرکشش کاروبار کو وسعت ملی کیوں کہ ان علاقوں میں بڑی تعداد میں سمندری اوٹر پائے جاتے تھے۔
لیکن 19ویں صدی میں برطانیہ اور امریکہ کے چمڑے کے تاجر روسیوں کے سخت حریف بن گئے۔یہ تلخ چپقلش 1824 میں ایک تصفیے کے بعد مفاہمت میں بدل گئی اور روس نے اسی برس امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ الگ الگ معاہدوں پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کی وجہ سمندری اوٹرز کی معدوم ہوتی نسل اور کرائمیا میں 1853 سے 1856 تک جاری رہنے والی جنگ کے اثرات کو قرار دیا گیا جس نے ماہرین کے مطابق روس کو مجبور کیا کہ وہ الاسکا امریکہ کو فروخت کر دے۔
دلی سے دوری اور اسلام آباد سے قربت: ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘کیا ٹرمپ کا غیر متوقع فیصلہ مودی کو چین کے قریب لا سکتا ہے؟’ایک نوبیل انعام پاکستانی عوام کے لیے‘امریکہ میں پاکستانی آرمی چیف کی تقریر پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے بیچ تناؤایک ’احمقانہ‘ خریداری
امریکی وزیر خارجہ ولیم سیورڈ نے اس معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات کی قیادت کی۔
امریکی کانگریس میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود امریکی کانگریس نے 18 اکتوبر 1867 کو 72 لاکھ ڈالرز میںالاسکا کی خریداری کے معاہدے کی منظوری دے دی اور اس وقت الاسکا کے دارالحکومت میں امریکی پرچم لہرا دیا گیا۔
ابتدائی طور پر الاسکا کی خریداری کو ماہرین نے ایک ’بیوقوفی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ الاسکا میں کچھ ایسا نہیں ہے جس سے امریکہ کو کوئی فائدہ ہو سکے۔
اگر مہنگائی بڑھنے کے تناسب سے حساب لگایا جائے تو آج کے ریٹ کے مطابق امریکہ نے 10 کروڑ ڈالرز میں یہ معاہدہ کیا جسے ماہرین ایک انتہائی ’سستا سودا‘ قرار دیتے ہیں۔
19ویں صدر کے آخر میں الاسکا سے تیل، قدرتی گیس اور سونے کے ذخائر کی دریافت کا آغاز ہوا اور بہت جلد یہ منافع بخش کاروبار بن گیا۔
اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ سیورڈ کی دُور اندیشی پر اس وقت مہر تصدیق ثبت ہو گئی جب 1959 میں الاسکا کو امریکہ کی 49 ویں ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔
Hasan Akbas/Anadolu via Getty Imagesالاسکا کو تیل اور گیس کے ذخاءر سے مالا مال خطہ قرار دیا جاتا ہے
قدرتی وسائل سے مالامال الاسکا میں سینکڑوں دریا اور کئی ندیاں ہیں۔ یہ واحد امریکی ریاست ہے جس کے دارالحکومت تک پہنچنے کا کوئی زمینی راستہ ہی نہیں اور صرف کشتی یا ہوائی جہاز کے ذریعے ہی یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔
انکوریج ندی کو دنیا کی سب سے بڑی ’سی پلین بیس‘ قرار دیا جاتا ہے جہاں یومیہ 200 پروازیں ندی میں لینڈ یا اُڑان بھرتی ہیں۔
امریکی صدر اور روسی صدر پوتن کی ملاقات جوائنٹ بیس ایلمینڈروف-رجرڈسن بیس میں ہو گی جو ریاست کی سب سے بڑی فوجی تنصیب ہے۔ 64 ہزار ایکڑ پر محیط یہ فوجی اڈہبحر منجمد میں امریکی تیاریوں کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب الاسکا امریکہ کی عالمی سفارت کاری کا مرکز بنا ہو۔ مارچ 2021 میں اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی سفارتی اور قومی سلامتی کی ٹیم نے انکوریج میں اپنے چینی ہم منصبوں سے ملاقت کی تھی۔
صدر ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات کا کوئی باضابطہ ایجنڈا سامنے نہیں آیا، تاہم وائٹ ہاوس کے مطابق الاسکا مذاکرات صدر ٹرمپ کے لیے ایک طرح سے ’سننے کی مشق‘ ہو گی جس کے بعد صدر کو یہ تعین کرنے میں آسانی ہو گی کہ اس جنگ کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اس ملاقات کے حوالے سے اچھا گمان ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امن کی جانب اہم سنگ میل ہو گا۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی واضح کر چکے ہیں کہ کیئو کی مشاورت کے بغیر ہونے والے کسی بھی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔
مغربی ممالک روس پر پابندیاں لگانے کے باوجود یوکرین جنگ میں اس کی ’مالی مدد‘ کیسے کر رہے ہیں؟آپریشن سپائڈر ویب: یوکرین کی 117 ڈرونز سمگل کر کے روس میں فضائی اڈوں اور جنگی طیاروں کو نشانہ بنانے کی بڑی کارروائیمغربی پابندیوں کے باوجود روس سستا تیل کیسے فروخت کر رہا ہے؟فائبر آپٹک ڈرون: یوکرین جنگ کو تیزی سے بدلنے والا یہ خوفناک نیا ہتھیار کیا ہے؟دلی سے دوری اور اسلام آباد سے قربت: ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘امریکہ میں پاکستانی آرمی چیف کی تقریر پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے بیچ تناؤ