شیخ مجیب الرحمان اپنے قتل کے 50 برس بعد بنگلہ دیش کی تاریخ میں کیسے متنازع ہوئے

بی بی سی اردو  |  Aug 17, 2025

Getty Images

بنگلہ دیش کی تاریخ میں شیخ مجیب الرحمن کے مقام کے بارے میں بحث و مباحثہ جاری ہے۔

معزول عوامی لیگ کے ساڑھے پندرہ سالہ دور حکومت میں ان کے بارے میں یک طرفہ تاریخ رقم کرنے کی کوشش تو کی گئی لیکن مُلک میں سیاسی تبدیلی کے ایک سال بعد ایک بالکل مختلف خیال یا بیان زیر بحث ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شیخ مجیب کی شبیہ ایک نسل کے لیے سوالیہ نشان ہے۔

اسی پس منظر میں 15 اگست 1975 کو بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کے اس رہنما کے قتل کو 50 برس بھی بیت چکے ہیں۔

عوامی لیگ کے دورِ حکومت میں ان کی وفات کے دن کو مختلف ریاستی تقاریب کے ساتھ قومی یومِ سوگ کے طور پر منایا گیا۔ اگست میں پورا مہینہ ہی مختلف پروگرامز کی مدد سے اُن کے قتل پر افسوس اور سوگ منایا جاتا رہا بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس مہینے کو سوگ کا مہینہ قرار دیا جاتا رہا۔

تاہم اب ایک مختلف سیاسی سوچ کے سامنے آنے کے بعد سے سب منسوخ کر دیا گیا ہے۔ تاہم اب عوامی لیگ کے پاس اپنے لیڈر کے قتل پر سوگ منانے کے لیے وہ سیاسی قوت موجود نہیں کہ جو پہلے تھی۔

اب مُلک کی ایک بڑی سمجھی جانے والی سیاسی جماعت کو اس صورتحال کا سامنا کیوں ہے اور کیا اس کی ذمہ دار وہ (عوامی لیگ) خود ہے؟ یہ سوالات بنگلہ دیش کی سیاسی فضا میں ان دنوں زیر بحث ہیں۔

حسینہ سے ناراضگی مجیب پر غصے کا باعث بنی

بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ شیخ مجیب بنگلہ دیش کی تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہیں لیکن اب ان کے کرداد پر سوال اُٹھنے لگے ہیں۔

گزشتہ سال 5 اگست کو بغاوت میں عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں شیخ مجیب کے مجسموں کو گرا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دھان منڈی نمبر 32 میں ان کے گھر کو بھاری تعمیراتی مشینری کی مدد سے گرا دیا گیا، جس سے ڈھاکہ میں افراتفری کی فضا کو ہوا ملی۔

شہری حقوق کے کارکن پروفیسر انو محمد ان واقعات کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ واقعات دو انداز میں رونما ہوئے بے ساختہ اور سیاسی طورپر۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگ اپنے حقِ رائے دہی کی عدم دستیابی اور شیخ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ کے طویل جابرانہ اور آمرانہ دورِ حکومت میں ڈھائے جانے والے مظالم سے تھک چُکے تھے۔

پروفیسر انو محمد نے کہا کہ ’شیخ مجیب شیخ حسینہ کے تئیں اس غصے سے متاثر ہوئے تھے۔ اس تناظر میں عوامی بغاوت کے بعد توڑ پھوڑ کے واقعات بے ساختہ تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بعد میں مختلف گروہوں نے سیاسی نظریے کی بنیاد پر توڑ پھوڑ جاری رکھی۔ یہ بے ساختہ نہیں تھا۔ شیخ مجیب اور آزادی کی جنگ پر ان گروہوں نے شیخ حسینہ یا عوامی لیگ کی مخالفت میں حملہ کیا تھا۔‘

شیخ مجیب کے نام اور اُن کے کردار کو بنگلہ دیش کی تاریخ سے کسی طور بھی مٹایا نہیں جا سکتا۔

تاہم پروفیسر انو محمد کا خیال ہے کہ اس صورتحال کی ذمہ دار عوامی لیگ ہے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کار بھی ان کی رائے سے متفق ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’شیخ مجیب کی سیاسی جدوجہد کے دو حصے ہیں۔ ایک جنگ آزادی یا آزادی کی جدوجہد کے رہنما کے طور پر اور دوسرا ان کا سنہ 1972 سے 1975 تک کا دور حکومت ہے جب انھوں نے ’بیکسال‘ نامی مخلوط حکومت قائم کی۔‘

15 اگست 1975 کو جبشیخ مجیب کو ان کے اپنوں نے ہی قتل کر دیا تب سے اب تک اُن کی ذات سے متعلق متعدد سوالات جواب کے متلاشی ہیں اور عوامی لیگ اس سب کے بیچ بحران کا شکار۔

اس صورتحال سے نکلنے میں کافی وقت لگا۔ 21 سال بعد یہ پارٹی 1996 میں شیخ حسینہ کی قیادت میں اقتدار میں آئی۔

شیخ مجیب کے دور حکومت پر پہلے بھی تنقید ہوتی تھی اور اب بھی اس پر بحث و مباحثہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تاریخ میں ان کے مقام پر بحث ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنگ آزادی کے مخالف گروہ بھی موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی لیگ نے زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو گھیر رکھا تھا۔ نتیجتاً سیاسی تبدیلی کے بعد متحرک ہونے والی زیادہ تر جماعتیں عوامی لیگ کی مخالفت میں کُھل کر سامنے آئی ہیں اور اب وہ سب عوامی لیگ کے خلاف سرگرم ہیں۔

BBCکیا عوامی لیگ ذمہ دار ہے؟

بہت سے سیاسی تجزیہ کار اور سیاستدان بھی عوامی لیگ کو زیادہ ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کے وقت کو حد سے زیادہ ’مجیب بندانے‘ کی سطح پر لے جایا گیا۔ مثبت اثر ہونے کے بجائے لوگ ناراض ہوئے ہیں۔ بہت سے معاملات میں ان حالات نے غصہ اور اضطراب کو بھی جنم دیا ہے۔

پروفیسر انو محمد نے کہا کہ ’شیخ حسینہ کی حکومت میں شیخ مجیب پر تنقید نہیں کی جا سکتی تھی اب شیخ مجیب کے بارے میں کوئی بحث یا بات نہیں ہو سکتی۔‘

ان کی باتوں سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ شیخ مجیب کے حوالے سے پچھلے سال 5 اگست سے ایک متضاد ماحول بنا ہوا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ساڑھے پندرہ سالوں میں تاریخی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے نظریاتی بنیادوں پر سیاسی کردار بنانے کی کوشش کی گئی اور یہ یک طرفہ تھا۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر شمیم رضا نے کہا کہ ’جنگ آزادی سے پہلے اور بعد میں طویل عرصے تک سیاسی کرداروں کو ریاستی کنٹرول میں پیش کرنے کی کوئی پالیسی نہیں تھی۔ لیکن پچھلی حکومت کے دوران ریاستی کنٹرول میں یک طرفہ طور پر ایک ہی شخص کو مختلف کردار میں دکھانے کا منصوبہ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔‘

پروفیسر رضا نے کہا کہ ’تاریخ کے دیگر کردار غائب ہیں۔ شیخ مجیب کے ساتھ بھی، دوسرے کرداروں کو چھوڑ کر یک طرفہ تاریخ بنانے کی کوشش کی گئی کہ جس میں ہر جانب بس شیخ مجیب ہی دکھائیں دیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یک طرفہ سیاسی کردار بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں تھا۔ حکومت کی طرف سے لوگوں پر اپنی سوش مسلط کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی اور اس کام کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا گیا تاہم شیخ حسینہ کی حکومت کو لوگوں کی ناراضگی کے علاوہ کُچھ حاصل نہیں ہوا۔‘

اس کے نتیجے میں پروفیسر رضا کا خیال ہے کہ سیاسی تبدیلی کے بعد ایک متضاد ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

ایک طرف تاریخ رقم کرنے کا یک طرفہ منصوبہ تھا تو دوسری طرف طرح طرح کے اسراف کے انتظامات تھے۔

’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیابانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہوابنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی: کیا وہ دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہی ہیں؟حسینہ واجد: کیا انڈیا ’بِن بُلائی مہمان‘ کو سیاسی پناہ دینے پر غور کر رہا ہے؟

شیخ مجیب کی صد سالہ پیدائش منانے کے لیے 17 ستمبر 2020 سے سال بھر میں مختلف ریاستی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے بعد چھ سال تک مختلف پروگرام منعقد کیے گئے۔ الزام ہے کہ اس کے لیے 1.25 ارب ٹکا سے زائد خرچ کیے گئے ہیں۔

مختلف سرکاری دفاتر، بینکوں حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں بھی مجیب کارنر قائم کیے گئے ہیں۔ بہت سے اداروں کے سربراہوں نے دوسروں کی چاپلوسی کر کے حالات سے فائدہ اٹھانے میں پہل کرتے ہوئے دفتر کے ایک کونے میں شیخ مجیب کے بارے میں کچھ کتابیں اور تصاویر رکھ کر کارنر کا اعلان کر دیا تھا۔

شیخ مجیب کے بارے میں کتابیں لکھنے والوں کا بھی رش لگ چُکا تھا۔ معیاری تحریر یا پڑھنے والوں کا کوئی خیال نہیں تھا۔ بہت سے ابھرتے ہوئے مصنفین نے روزی کمانے کے لیے کسی نہ کسی بہانے شیخ مجیب کے بارے میں کتاب چھاپ کر سرکاری لائبریریوں کو بیچ دی۔

الزام یہ ہے کہ دراصل مقصد حکومت کی خوشامد کرنا اور اس کے ذریعے فائدہ اٹھانا تھا۔

اس کا اصل فائدہ کسے ہوا اور عوام پر اس کا کیا اثر ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اب بنگلہ دیش کے سیاسی منظرنامے پر سامنے آرہے ہیں۔ بلکہ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس قسم کی زیادتیوں سے لوگ اور بھی ناراض ہو گئے ہیں۔

Getty Images’مجیب پارٹی کی حدود میں پھنس گئے‘

بنگلہ دیش کی کمیونسٹ پارٹی (CPB) جدوجہد آزادی کے دوران اور آزاد بنگلہ دیش میں طویل عرصے تک عوامی لیگ کی قریبی اتحادی تھی۔

پارٹی کے سابق صدر مجاہد الاسلام سلیم کا خیال ہے کہ عوامی لیگ نے شیخ مجیب کو پارٹی مفادات کے لیے استعمال کیا۔

انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’ایک شخص کے گرد ایک من گھڑت داستان تخلیق کی گئی۔ جہاں تاریخ کے دوسرے اہم کرداروں کی کوئی پہچان نہیں ہے۔‘

مجاہد الاسلام سلیم نے کہا کہ ’ان چیزوں سے فوری فائدہ ہوتا ہے تاہم یہ وہ معاملات ہیں کہ جو اقتدار میں موجود فرد کو آمر بنا دیتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ مستقل رہنے والے اور فائدہ مند نہیں۔‘

سی پی بی کے اس رہنما کے الفاظ کے مطابق سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ مجیب کو پارٹی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا اور پارٹی کی حدود میں قید کر دیا گیا۔ نتیجتاً وہ جنگِ آزادی کے رہنما یا قومی رہنما ہونے کے باوجود ان کے اردگرد پھیلے تنازعات کو کم نہیں کر سکے۔

عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔

شیخ مجیب کی برسی پر بھی عبوری حکومت کو ایک سال گزرنے کے باوجود ان کے حامی منہدم مکان نمبر 32 کے قریب کوئی پروگرام منعقد کرنے سے قاصر ہیں۔

عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ گزشتہ سال ایک عوامی بغاوت میں حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد سے انڈیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پارٹی کے کچھ رہنما اور کارکن جیلوں میں ہیں جب کہ اکثریت بیرون ملک فرار ہو چکی ہے۔

ان کے زوال کے فوراً بعد گزشتہ سال 15 اگست کو 32 نمبر پر عوامی لیگ کے مخالف مختلف گروپوں یا تنظیموں نے قبضہ کر لیا۔

اس سال بھی 15 اگست کی رات ہم نے دیکھا کہ شیخ مجیب یا عوامی لیگ کے کسی بھی شخص کو کسی بھی پروگرام میں آنے سے روکنے کے لیے گارڈز کا ایک گروپ وہاں تعینات کر دیا گیا تھا۔

نتیجتاً سوشل میڈیا پر شیخ مجیب کے بارے میں زیادہ بحث، تنقید اور بحث ہوتی رہی۔

اگرچہ عوامی لیگ کے بہت سے رہنما جنھوں نے انڈیا اور امریکہ سمیت مختلف ممالک میں پناہ لے رکھی ہے کا کہنا ہے کہ شیخ مجیب کی یاد منانے میں جو رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، وہ دھان منڈی کے مکان نمبر 32 کے انہدام سے شروع ہو کر لوگوں میں ایک نئی قسم کی ہمدردی پیدا کر رہی ہیں۔ وہ اسے اپنے لیے ایک مثبت چیز کے طور پر دیکھتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کو اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ شیخ مجیب کی شبیہ ایک نسل کے لیے سوالیہ نشان ہے۔

BBCنئی نسل میں کنفیوژن کیوں ہے؟

ہائر سیکنڈری کے طلباء احسن حبیب اور محمد ارمان۔ ڈھاکہ کے علاقے دھان منڈی میں جمعرات کی رات جب ہم نے ان سے بات کی تو کچھ ہی فاصلے پر تباہ شدہ مکان نمبر 32 کے سامنے کئی نوجوان دیکھے گئے جو عوامی لیگ کے کارکن ہونے کے شبہ میں ایک شخص کی پٹائی کر رہے تھے۔

اس وقت احسن حبیب اور محمد ارمان کہہ رہے تھے کہ ایک سال سے شیخ مجیب کی حمایت میں کوئی اس گھر کے قریب نہیں پھٹکا۔ تاہم ایک سال قبل بھی اس گھر کے گرد مختلف انتظامات کیے گئے تھے۔

وہ نہ صرف دھان منڈی میں اپنے گھر کے ارد گرد تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں جنھوں نے ان کی تعلیمی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔

انھوں نے اپنی نصابی کتابوں میں شیخ مجیب کے بارے میں جس طرح سے اب تک پڑھا ہے، اس میں انھیں پہاڑ جیسا عظیم لیڈر دکھایا گیا ہے۔ اب نصابی کتب نے اسے بدل دیا ہے۔ انھیں شیخ مجیب کے بارے میں بالکل مختلف، متضاد خیال دیا جا رہا ہے۔

احسن حبیب اور محمد ارمان کہتے ہیں کہ وہ کنفیوز ہیں۔

تاہم عوامی لیگ کی حکومت کے دوران نئی نسل میں شیخ مجیب کا مستقل امیج قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ شیخ مجیب پر بہت سے مضامین نصابی کتابوں میں شامل کیے گئے۔ اس کے علاوہ مجیب پر مختلف تقریبات ہوئیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی کوششیں طاقت کے بل بوتے پر ناکام ہوئیں۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جولائی اگست کی تحریک کی اصل قوت نئی نسل یا طلبہ تھے۔

بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہوا’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیابنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی: کیا وہ دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہی ہیں؟حسینہ واجد: کیا انڈیا ’بِن بُلائی مہمان‘ کو سیاسی پناہ دینے پر غور کر رہا ہے؟قیام بنگلہ دیش کی وجوہات کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے اہم واقعات مغربی پاکستان میں کیسے رپورٹ ہوئے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More