یاور عباس: 104 سالہ سابق فوجی اور صحافی جن کی ’سکرپٹ سے ہٹ کر تقریر‘ نے شاہ چارلس سوم اور ملکہ کو رلا دیا

بی بی سی اردو  |  Aug 18, 2025

PA Mediaیاور عباس ملکہ کے ساتھ

جمعے کے دن جب کیپٹن یاور عباس شاہ چارلس سوم اور ملکہ کمیلا کے سامنے سٹیج پر کھڑے ہوئے تو انھیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ خود شہ سرخیوں کا حصہ بن جائیں گے۔

وہ جاپان کے خلاف دوسری عالمی جنگ میں فتح کے 80 سال مکمل ہو جانے کی سرکاری تقریب میں ان گنے چنے سابق فوجیوں سمیت شامل تھے جو اس جنگ کا حصہ تھے۔

یاور نے محاذ پر اپنے تجربات کے بارے میں ایک مختصر خطاب کرنا تھا لیکن پھر اچانک انھوں نے تحریر شدہ تقریر سے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔

یاور نے کہا ان کی خواہش ہے کہ وہ ’اپنے محبوب بادشاہ کو سیلوٹ کر سکیں جو اپنی ملکہ کے ساتھ یہاں اس بات کے باوجود موجود ہیں کہ وہ سرطان کا علاج کروا رہے ہیں۔‘

شاہ چارلس سوم اور ملکہ کامیلا واضح طور پر جذباتی ہو چکے تھے۔ یاور نے کہا کہ وہ 25 سال سے سرطان سے صحتیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

یاور کی عمر 104 برس ہے اور ان کی کہانی بہت دلچسپ اور غیر معمولی ہے۔

Getty Imagesیاور عباس کی تقریر کے دوران شاہ چارلس اور ملکہ دونوں آبدیدہ ہو گئے تھے

وہ برطانوی ہندوستان میں اترپردیش کے چارخاری میں پیدا ہوئے تھے۔ سرکاری طور پر ان کی تاریخ پیدائش 1921 درج ہے لیکن یاور کہتے ہیں کہ وہ 15 دسمبر 1920 کو پیدا ہوئے تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ چھڑی تو یاور طالب علم تھے۔

دسمبر 1941 میں جاپان نے پہلے امریکہ پر حملہ کیا اور بعد میں جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی کالونیوں پر اور چند ماہ میں موجودہ ملائیشیا، سنگاپور سمیت موجودہ میانمار پر قبضہ کر لیا۔

1942 کا وسط تھا جب ان تاریخی لمحات میں یاور کو ایک اہم فیصلہ لینا تھا کہ وہ برطانیہ کے لیے لڑیں یا انڈیا کی آزادی کے لیے برطانیہ کے خلاف۔ ان کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ برطانیہ کے زیر تسلط اتنا بڑا علاقہ جاپان کے قبضے میں اتنی جلدی کیسے چلا گیا۔ ایک خدشہ یہ تھا کہ انڈیا پر بھی جاپان کا قبضہ ہو سکتا ہے۔

یاور نے مجھے بتایا کہ ’میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کا حامی نہیں تھا، حقیقت میں میں اس سے نفرت کرتا تھا۔‘ انڈیا میں آزادی کی تحریک بھی شدت پکڑتی چلی جا رہی تھی۔

یاور جانتے تھے کہ برطانیہ کے لیے لڑنے کا مطلب آزادی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں شریک ہونا ہو گا جبکہ خود انڈیا کے باسی آزاد نہیں تھے۔ تاہم وہ نازی ازم اور فاشزم کا غلبہ بھی نہیں چاہتے تھے۔

یاور کہتے ہیں کہ ’مجھے ایک کو چننا تھا اور امید تھی کہ اگر میں فوج میں بھرتی ہوا تو جنگ کے بعد وعدے کے مطابق مجھے بھی آزادی مل جائے گی۔‘

یوں یاور 25 لاکھ انڈین شہریوں سمیت برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے اور 11 سکھ رجمنٹ کا حصہ بنے۔ انھیں مشرقی بنگال میں تعینات کیا گیا جہاں انھیں اس بات کا افسوس تھا کہ وہ لڑائی میں شریک نہیں ہو پا رہے۔ برطانوی افسران کے سلوک نے بھی انھیں مایوس کیا۔

’میرے افسران انڈیا کو ایک کالونی سمجھتے تھے جس پر وہ مستقبل میں بھی کنٹرول رکھنا چاہتے تھے۔‘ ایک دن یاور کو ایک اشتہار نظر آیا جس میں افسران کو بطور جنگی کیمرہ مین تربیت دینے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ انھوں نے درخواست دی جسے قبول کر لیا گیا۔

یوں وہ برطانوی 14ویں آرمی کا حصہ بنے جس کی ذمہ داری تھی کہ جاپان سے علاقہ واپس حاصل کرے۔ جلد اس کی تعداد 10 لاکھ فوجیوں پر جا پہنچی جن میں سے اکثریت کا تعلق انڈیا سے تھا لیکن دیگر برطانوی کالونیوں بشمول مغربی اور مشرقی افریقی خطے کے شہری بھی اس میں شامل تھے۔

یہ فوج یاور کے لیے مختلف تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہترین تجربہ تھا کیوں کہ برطانوی اور انڈین ایک دوسرے سے مل جل کر رہ رہے تھے۔‘

ڈنکرک کے فراموش کردہ فوجی جن میں بانیِ پاکستان کے معاون بھی شامل تھےجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاکلکتہ جب دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی بمباری کا نشانہ بنا

یاور نے 1944 میں برما کے محاذ پر اگلی صفوں میں رہ کر مناظر فلمائے۔ وہ اپنی جیپ میں ایک اسسٹنٹ کے ہمراہ پستول اور کیمرہ لیے سفر کرتے اور ریل کلکتہ بھیج دیا کرتے جہاں سے ان کو خبروں یا پروپیگیڈا فلموں کا حصہ بنایا جاتا۔

وہ کئی ایسی لڑائیوں میں شریک رہے جنھیں دوسری عالمی جنگ کی اہم ترین لڑائیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ برطانوی، انڈین، گورکھا اور افریقی فوجیوں نے مل کر جاپانی فوج کو انڈیا میں داخل ہونے سے روکا جس کے دوران لاکھوں جاپانی ہلاک ہوئے۔

یاور کو جنگ کے بعد کے مناظر آج تک نہیں بھولے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہولناک تھا۔ جاپانی فوجی دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بجائے پیٹ میں تلوار گھونپ لیتے تھے۔‘ برطانوی فوج نے جلد ہی برما میں پیش قدمی شروع کر دی۔

ایسے میں ایک دن یاور کا موت سے سامنا ہوا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جاپانی فوجیوں نے شدید مزاحمت کی اور اتحادی فوج پیش قدمی نہیں کر پا رہی تھی اور انھوں نے کم گہرائی والے مورچے کھود رکھے تھے جن میں سے ایک میں یاور ایک گورکھا یونٹ کے ساتھ عکس بندی کر رہے تھے۔

ان کا خیال ہے کہ کسی جاپانی سنائپر ماہر نشانہ باز نے ان کا کیمرہ دیکھ کر ان پر گولی چلائی جو ساتھ بیٹھے گورکھا سپاہی کے سر میں لگی۔ گورکھا سپاہی موقع ہر ہی ہلاک ہو گیا اور یاور کا کیمرہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں خوش قسمت ہوں کہ زندہ ہوں۔‘

منڈالے کی جنگ بہت اہم تھی۔ اتحادی یہ لڑائی جیت جاتے تو رنگون کا راستہ کھل جاتا۔ ایک دن یاور ایک ٹینک میں تھے جب ان کو خیال آیا کہ بہتر تصاویر کے لیے انھیں اوپر چڑھنا چاہیے۔ ابھی وہ ٹینک کے اوپر چڑھے ہی تھے کہ ایک افسر نے انھیں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے نیچے اترنے کو کہا۔ یاور کہتے ہیں ’یہ بیوقوفی تھی لیکن جب آپ جوان ہوتے ہیں تو ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔‘

لڑائی شدت اختیار کر رہی تھی اور یاور دشمن کے مورچوں کی عکس بندی کر رہے تھے جبکہ فضا سے بمباری بھی جاری تھی۔

اس دن یاور نے جو فوٹیج بنائی وہ مجھے لندن کے وار میوزیم سے ملی۔ میں نے یہ فوٹیج بعد میں ان کو بھی دکھائی جو اس سے پہلے انھوں نے نہیں دیکھی تھی۔

80 سال پرانے یہ مناظر دیکھتے ہوئے ان کو وہ سب یاد آ گیا۔ فورٹ ڈفرین میں فتح کے بعد برطانیہ کا پرچم لہرایا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ میں نے شوٹ کیا تھا۔‘

وہ مناظر دیکھتے ہوئے سر جھٹکتے جا رہے تھے اور کہنے لگے کہ ’اب یہاں بیٹھ کر عجیب سا لگتا ہے کہ میں اس سب کے عین بیچ میں موجود تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کو اب یقین نہیں آتا کہ 80 سال پہلے وہ خوشی خوشی جاپانیوں کو اپنے کیمرہ اور گن سے شوٹ کر رہے تھے۔ ’مجھے اس بات پر فخر نہیں ہے لیکن جب آپ محاذ پر ہوتے ہیں تو ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔‘

یاور نے مجھے ایک پرانا نوٹ دکھایا جو انھوں نے اپنی ڈائری میں اس دن تحریر کیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ سیاہی رکھتے تھے اور قلم سے ڈائری میں لکھا کرتے تھے۔

20 مارچ 1945 کے دن انھوں نے لکھا کہ ’شکر ہے یہ سب ختم ہوا اور میں ابھی تک زندہ ہوں۔ مجھے اب تک گولے گرنے کی آواز آ رہی ہے۔ شاید یہ جاپانی توپ ہے جو قلعے پر گولہ باری کر رہی ہے۔ کل معلوم ہو گا۔ اب مجھے سو جانا چاہیے۔‘

وہ یہ سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ جنگ کے بیچ میں ان کو یہ لکھنے کا وقت کیسے ملا جب کہ ان کو تین گھنٹے بعد پھر جاگنا تھا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا ان کے خیال میں وہ بہادر ہیں؟ انھوں نے میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے یہ ایک عجیب سوال ہو۔ پھر انھوں نے جواب دیا ’بلکل نہیں۔‘

جب یورپ میں جنگ ختم ہوئی تو یاور رنگون میں تھے۔ جاپان کے خاف جنگ جاری تھی۔ پھر چند ماہ بعد امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم گرایا اور جاپان نے ہتھیار پھینک دیے۔ اسی دن، 15 اگست 1945، کی یاد میں ہر سال تقریب منعقد ہوتی ہے۔

جنگ کے بعد یاور ہیروشیما بھی گئے۔ وہ کہتے ہیں انھوں نے تباہ حال مقامات اور ہولناک زخموں کے ساتھ لوگوں کو دیکھا۔

’وہاں کچھ نہیں بچا تھا۔ صرف ایک ٹاور کھڑا تھا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔ ہیروشیما ایک ہولناک تجربہ تھا۔‘

برطانیہ نے انڈیا چھوڑ دیا جیسا کہ یاور کو امید تھی۔ اگست 1947 میں انڈیا تقسیم ہوا اور ایک ہندو اکثریتی ملک اور ایک مسلم اکثریتی پاکستان وجود میں آئے۔

یاور کو وہ وقت بھی یاد ہے اور تقسیم کے وقت بہنے والا خون بھی۔ انڈیا کو تقسیم کرنے والا فیصلہ انھیں افسردہ کر گیا اور دو سال بعد وہ برطانیہ منتقل ہو گئے۔

انھوں نے کئی سال بی بی سی کے ساتھ بطور کیمرہ مین کام کیا۔ اور بعد میں بطور فلمساز بہت سے ایوارڈ جیتے۔

15 اگست کے دن کو وہ ہر سال نہیں مناتے۔ دوسری عالمی جنگ میں لڑنے والے ان گنے چنے لوگوں میں شامل جو اب تک زندہ ہیں، یاور کا پیغام واضح ہے: ’جنگ ایک جرم ہے، اس پر پابندی ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک یہ پاگل پن ہے۔ ہم نے کچھ حاصل تو نہیں کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت انھیں لگتا تھا کہ وہ انسانیت کی بہتری کے لیے کسی اہم چیز کا حصہ بنے لیکن اب انھیں ایسا نہیں لگتا ہے۔

80 سال بعد غزہ میں ہونے والی جنگ ان کے ذہن پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لگتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ معصوم لوگوں، بچوں، عورتوں کا قتل۔ اور دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔‘

کلکتہ جب دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی بمباری کا نشانہ بناڈنکرک کے فراموش کردہ فوجی جن میں بانیِ پاکستان کے معاون بھی شامل تھےجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیا’بھلا دیا گیا‘ معرکہ جس نے ایشیا میں دوسری جنگ عظیم کا رخ موڑا تھا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More