Getty Images
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اپنی زندگی کے آخر تک یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی بوڑھے ہو سکتے ہیں۔ وہ پوری زندگی میں معمولی زکام کے علاوہ کبھی کسی بڑی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے۔
70 سال سے زیادہ عمر ہونے کے باوجود جب بھی وہ براڈلینڈز میں ہوتے تو صبح دو گھنٹے گھڑ سواری ضرور کرتے تھے۔
زندگی کے آخر میں انھوں نے اپنا پسندیدہ کھیل پولو چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ پہلے جیسے صحت مند نہیں رہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی بھرپور زندگی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
ماؤنٹ بیٹن ہمیشہ اپنے خاندان کو ترجیح دیتے تھے۔ ہر کرسمس پر ان کی بیٹیاں اور پوتے پوتیاں براڈلینڈز میں جمع ہوتے تھے۔
برائن ہوئی اپنی کتاب ’ماؤنٹ بیٹن: دی پرائیویٹ سٹوری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ماؤنٹ بیٹن کو ہمیشہ اپنے پوتوں پوتیوں کے دوستوں کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رہتی تھی۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’ان کے ایک پوتے کی گرل فرینڈ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہر معاملے میں مداخلت کرتے تھے لیکن پھر بھی انھیں بہت پیار اور عزت دی جاتی تھی۔‘
’ان کے ساتھ بیٹھنا اچھا ہوتا تھا۔ وہ بہت فلرٹ کرتے تھے لیکن کسی کو اس سے اعتراض نہیں ہوتا تھا۔‘
ان کی بچوں سے رابطے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کی اپنی فطرت بچوں جیسی تھی۔
ان کے پوتے مائیکل جان کہتے تھے کہ ’ان کا حسِ مزاح شاندار تھا۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر چارلی چیپلن کی فلمیں دیکھتے اور ہنستے ہنستے فرش پر گر جاتے۔‘
’حالانکہ وہ وہ فلم کئی بار دیکھ چکے تھے۔ وہ لارل اینڈ ہارڈی کی فلمیں بھی بہت پسند کرتے تھے۔‘
ماؤنٹ بیٹن آئی آر اے کے نشانے پر تھے
اگرچہ ماؤنٹ بیٹن ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے تاہم حکومت کو کسی نہ کسی طرح معلوم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
1971 میں ہی ان کی سکیورٹی کے لیے 12 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
اپنے سوانح نگار فلپ زیگلر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ماؤنٹ بیٹن نے خود تسلیم کیا تھا کہ ’حکومت کو خوف ہے کہ آئرش رپبلکن آرمی مجھے اغوا کر کے شمالی آئرلینڈ میں قید اپنے ساتھیوں کو رہا کرانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔‘
اینڈریو لونی اپنی کتاب دی ’ماؤنٹ بیٹنز: دیئر لائیوز اینڈ لووز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’آئی آر اے کے ایک محفوظ ٹھکانے پر چھاپے کے بعد پتا چلا کہ ماؤنٹ بیٹن ان 50 افراد کی فہرست میں شامل تھے جنھیں آئی آر اے قتل کرنا چاہتی تھی۔‘
رائل ملٹری پولیس کے افسر گراہم جوئل نے اینڈریو لونی کو بتایا کہ ’اگست 1976 میں ماؤنٹ بیٹن کو گولی مارنے کی کوشش ناکام ہو گئی کیونکہ سمندر کی طوفانی لہروں نے آئی آر اے کے ایک نشانہ باز کو درست نشانہ لگانے سے روک دیا۔‘
ماؤنٹ بیٹن پر کڑی نظر
مارچ 1979 میں نیدرلینڈز میں برطانوی سفیر سر رچرڈ سائکس اور رکن پارلیمنٹ ایرک نیو کو آئی آر اے نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
جون میں آئی آر اے نے بیلجیئم میں نیٹو کے سربراہ جنرل ایلیگزینڈر ہیگ کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بال بال بچ گئے۔
ان واقعات کے بعد چیف سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈیوڈ بکنیل نے ماؤنٹ بیٹن کو آئرلینڈ نہ جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے جواب میں ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ ’آئرش لوگ میرے دوست ہیں۔‘
اس پر بکنیل نے ان سے کہا ’تمام آئرش لوگ آپ کے دوست نہیں ہیں۔‘
بکنیل کے مشورے پر انھوں نے اپنے بستر کے پاس ایک بھری ہوئی پستول رکھ کر سونا شروع کیا۔
اینڈریو لونی لکھتے ہیں کہ 'جولائی 1979 میں گراہم جوئل نے ماؤنٹ بیٹن کو درپیش خطرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ماؤنٹ بیٹن کی کشتی ان کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی بھی رات کے وقت خاموشی سے اس پر سوار ہو سکتا تھا۔'
’انھیں تشویش تھی کہ بیلفاسٹ میں رجسٹرڈ ایک کار کئی بار سمندر کے کنارے آتے ہوئے دیکھی گئی تھی۔ ایک موقع پر جوئل نے دوربین سے کار میں موجود لوگوں کو دیکھنے کی کوشش کی۔‘
’جوئل نے ایک شخص کو دوربین سے ماؤنٹ بیٹن کی کشتی کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا۔ وہ اس وقت کشتی سے تقریباً 200 گز کے فاصلے پر تھا۔‘
Getty Images
جوئل کی رپورٹ کو نظر انداز کر دیا گیا اور ماؤنٹ بیٹن کی سکیورٹی آئرش پولیس کے حوالے کر دی گئی۔ 27 اگست 1979 کو برطانیہ بھر میں تعطیل تھی۔
جب کئی دنوں کی بارش کے بعد سورج نکلا تو ناشتے کے دوران ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خاندان سے پوچھا کہ ان میں سے کون ان کے ساتھ کشتی پر سیر کے لیے جانا چاہے گا۔
وہاں جانے سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے سکیورٹی ٹیم کو اپنا منصوبہ بتایا۔ دوربین اور ریوالور سے لیس سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی فورڈ ایسکورٹ کار جیٹی پر پارک کی۔
ایک گارڈ کو سمندری لہروں کی وجہ سے قے آنا شروع ہو گئی۔ ماؤنٹ بیٹن نے مشورہ دیا کہ انھیں کشتی پر آنے کی ضرورت نہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے کشتی پر بیٹھتے ہی اس کا کنٹرول سنبھال لیا۔
لیکن کشتی کے ڈیک کے نیچے ایک بم رکھا گیا تھا جس کے بارے میں آئی آر اے نے بعد میں دعویٰ کیا کہ اس میں تقریباً 20 کلو گرام پلاسٹک دھماکہ خیز مواد تھا۔
11 بج کر 30 منٹ پر کشتی چلنا شروع ہوئی۔ سکیورٹی اہلکار ساحل کے ساتھ سڑک پر گاڑی میں سفر کرتے ہوئے دوربین سے کشتی پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
تھوڑا آگے ایک اور دوربین بھی اسی کشتی پر مرکوز تھی۔ یہ آنکھیں آئی آر اے کے ارکان کی تھیں۔
برائن ہوئی لکھتے ہیں کہ ’آئی آر اے کے افراد واضح طور پر دیکھ سکتے تھے کہ کشتی پر ایک بوڑھی عورت تھی۔ کشتی کے بیچ میں تین جوان بیٹھے تھے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کشتی چلا رہے تھے۔‘
’ایک قاتل کے پاس ریموٹ کنٹرول ڈیوائس تھی جس سے وہ کشتی پر دھماکہ کرنے والا تھا۔‘
ایسٹ انڈیا کمپنی: دنیا کی ’طاقتور ترین کارپوریشن‘ جس کے افسران کی کرپشن، بدانتظامی اور لالچ اس کے زوال کا باعث بنیجب چرچل نے کہا 'گاندھی ابھی تک مرا کیوں نہیں'برطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملاجناح نے گاندھی کو ’ہندوؤں کا لیڈر‘ اور ’ڈکٹیٹر‘ کیوں کہاکشتی پر دھماکہ
ٹھیک 11:45 بجے جب کشتی جیٹی سے صرف 15 منٹ کے فاصلے پر تھی تو ایک قاتل نے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایا۔
کشتی میں رکھے گئے تقریباً 20 کلو گرام دھماکہ خیز مواد کے زبردست دھماکے سے کشتی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
ماؤنٹ بیٹن کی بیٹی پیٹریشیا یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے اپنی ساس لیڈی برابورن کی طرف دیکھا اور ان سے کچھ کہا۔ میں نیو سٹیٹس مین میگزین پڑھ رہی تھی۔‘
’میری نظریں اسے پڑھنے کے لیے نیچے کی طرف تھیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب دھماکہ ہوا تو میری آنکھوں کو بہت کم نقصان پہنچا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میرے والد کے پاؤں کے قریب ٹینس بال کے سائز کی کوئی چیز تھی جو بہت روشن تھی۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں اگلے لمحے پانی میں گر گئی۔‘
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے داماد لارڈ برابورن کشتی کے بیچ میں کھڑے تھے۔ جب دھماکہ ہوا تو ان کے جسم کا ایک حصہ اس سے متاثر ہوا لیکن ان کا چہرہ مکمل طور پر محفوظ رہا۔ ’دھماکے سے چند سیکنڈ پہلے انھوں نے اپنے سسر سے کہا تھا ’کیا آپ لطف اندوز ہو رہے ہیں؟‘۔‘
یہ شاید وہ آخری الفاظ تھے جو ماؤنٹ بیٹن نے سنے۔
لارڈ برابورن نے یاد کیا کہ ’میں اگلے لمحے پانی میں تھا اور شدید سردی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ مجھے کیسے بچایا گیا۔‘
Getty Imagesماؤنٹ بیٹن کی لاش برآمد
ماؤنٹ بیٹن کی لاش کشتی کے ملبے سے چند گز دور ملی۔
اینڈریو لونی لکھتے ہیں کہ ’ان کی ٹانگیں تقریباً ان کے جسم سے الگ ہو چکی تھیں۔ ان کے جسم پر موجود تمام کپڑے پھٹ گئے تھے، سوائے ان کی جرسی کے جس پر ان کے پرانے جہاز ’ایچ ایم ایس کیلی‘ کا نام لکھا تھا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ عوامی توجہ سے بچنے کے لیے ان کی لاش کو ایمبولینس آنے تک ایک کشتی میں رکھا گیا۔‘
وہاں موجود ڈاکٹر رچرڈ والس نے بعد میں بتایا ’جب ہم نے دھماکے کی آواز سنی تو ہمیں نہیں لگا کہ یہ بم ہو سکتا ہے۔‘
’جب ہم جائے وقوع پر پہنچے تو دیکھا کہ کئی لوگ پانی میں گر چکے تھے۔ ہمارا پہلا کام زندہ اور مردہ افراد کو الگ کرنا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹروں کے طور پر ہمارا فرض تھا کہ مُردوں کے بجائے زندہ بچ جانے والوں پر توجہ دیں۔ جب ہم ماؤنٹ بیٹن کی لاش کو جیٹی پر لے کر آئے تو بہت سے لوگ ہماری مدد کے لیے آگے آئے۔‘
’ایک دروازہ توڑ کر عارضی سٹریچر بنایا گیا اور خواتین نے چادریں پھاڑ کر پٹیاں بنائیں تاکہ زخمیوں کو فوراً ڈھکا جا سکے۔‘
’جب ہم ماؤنٹ بیٹن کی لاش کو ساحل پر لے کر آئے تو میں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ مسخ نہیں ہوا تھا۔ ان کے جسم پر کئی جگہوں پر زخم اور خراشیں تھیں لیکن ان کا چہرہ بالکل صاف تھا۔‘
Getty Imagesماؤنٹ بیٹن کی الوداعی تقریب
ان کی موت کی خبر ملتے ہی نئی دہلی میں تمام سرکاری دفاتر اور دکانیں بند کر دی گئیں۔ ان کے اعزاز میں انڈیا میں سات دن کا سرکاری سوگ منایا گیا۔
ان کے سوانح نگار رچرڈ ہا نے اپنی کتاب ’ماؤنٹ بیٹن ہیرو آف آور ٹائم‘ میں لکھا کہ 'یہ عجیب اتفاق تھا کہ ان کے دوست مہاتما گاندھی کی طرح وہ بھی ایک تنازع میں قتل ہوئے۔ دونوں اپنی موت کے وقت 79 سال کے تھے۔'
5 ستمبر 1979 کو ویسٹ منسٹر ایبی میں 1400 لوگوں کی موجودگی میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ اس موقع پر برطانیہ کی ملکہ، پرنس چارلس، کئی یورپی بادشاہ، وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اور چار سابق وزرائے اعظم موجود تھے۔
آئی آر اے نے ذمہ داری قبول کی
کچھ ہی دیر بعد آئی آر اے نے ایک بیان جاری کر کے ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ آئی آر اے نے کبھی وضاحت نہیں کی کہ ایک 79 سالہ شخص اور اس کے خاندان کے قتل کو کیسے جواز فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ماؤنٹ بیٹن کے سوانح نگار فلپ زیگلر لکھتے ہیں کہ ’ماؤنٹ بیٹن کا قتل اور اسی دن آئرلینڈ میں 18 برطانوی فوجیوں کے قتل سے پتا چلتا ہے کہ یہ فیصلہ آئی آر اے کی اعلیٰ سطح پر لیا گیا تھا۔‘
آئی آر اے نے اپنے بلیٹن میں کہا کہ ’ہمارا مقصد برطانوی عوام کی توجہ ہمارے ملک پر جاری قبضے کی طرف مبذول کرانا تھا۔‘
’ماؤنٹ بیٹن کو ہٹا کر ہم برطانوی حکمران طبقے کو بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں ہم سے لڑنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔‘
ماؤنٹ بیٹن کے قتل کے بعد آئی آر اے کی مہم کے لیے عوامی حمایت کم ہو گئی۔
اسی وقت برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی مارگریٹ تھیچر نے آئی آر اے کو ایک سیاسی تنظیم کے بجائے ایک مجرمانہ تنظیم قرار دیا۔
برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے آئی آر اے کے جنگجوؤں کو دیے گئے جنگی قیدی کا درجہ بھی واپس لے لیا۔
Getty Imagesمکمین کو عمر قید کی سزا
دھماکوں کے چند گھنٹوں کے اندر آئرش پولیس نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی تفتیش شروع کی تاکہ قاتلوں کو پکڑا جا سکے۔
بالآخر آئی آر اے کے دو افراد 24 سالہ فرانسس مک گرل اور 31 سالہ تھامس مکمین کو گرفتار کیا گیا۔
دونوں کے خلاف صرف حالاتی شواہد ملے۔ دونوں کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد جیلیگنائٹ اور ماؤنٹ بیٹن کی کشتی شاڈو فائیو سے سبز رنگ کے کچھ نشانات ملے۔
23 نومبر 1979 کو تین ججز پر مشتمل بینچ نے مک گرل کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔ مکمین کو دو شواہد کی بنیاد پر ماؤنٹ بیٹن کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔
سبز رنگ اور نائٹروگلیسرین کے نشانات ملنے کے بعد عدالت نے تسلیم کیا کہ ماؤنٹ بیٹن کی کشتی پر بم انھوں نے ہی نصب کیا تھا۔ تاہم دھماکے کے وقت وہ جائے وقوع سے 70 میل دور پولیس کی حراست میں تھے۔
تھامس مکمین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن وہ 1998 میں ’گڈ فرائیڈے‘ معاہدے کے تحت رہا ہو گئے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 19 سال برطانوی جیل میں گزارے۔
جناح نے گاندھی کو ’ہندوؤں کا لیڈر‘ اور ’ڈکٹیٹر‘ کیوں کہامتحدہ ہندوستان کی وہ آخری رات جو گاندھی نے مستقبل کے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ گزاریجب جواہر لعل نہرو کو اخبار سے پتا چلا کہ ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے فیروز سے منگنی کر لی ہےگاندھی نے انگریزی لباس ترک کر کے ’نیم برہنہ فقیر‘ جیسا حلیہ کیوں اپنایا؟جب چرچل نے کہا 'گاندھی ابھی تک مرا کیوں نہیں'