چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

بی بی سی اردو  |  Sep 01, 2025

EPAایران، شمالی کوریا اور روس کے رہنما ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے چین میں موجود ہیں

عالمی سیاست میں ایک مہینہ بہت ہوتا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن ایک بار پھر چین میں ہیں، لیکن اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف ہے۔

مغربی پابندیوں کے باوجود، روس کے صدر ایک بڑے رہنما کے طور پر عالمی رہنماؤں سے مل رہے ہیں جو حال ہی میں مساوی شرائط پر امریکہ کے صدر کے ساتھ بات کر چکے ہیں۔

پوتن کے دورہ الاسکا کو امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک طرح سے پوتن کی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

الاسکا میں صدر ٹرمپ نے امریکی سرزمین پر روسی صدر کا استقبال کیا، جہاں پوتن نے امریکی صدر کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ روس پر مزید پابندیاں نہ لگائیں اور نہ ہی یوکرین پر حملے روکنے کے مطالبات دہرائیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں پوتن کا شاندار استقبال ہو گا، جہاں تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم ’ایس سی او‘ کے دو روزہاجلاس میں علاقائی رہنماؤں کی بڑی تعداد شریک ہے۔

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ بھی اس گروپ کا حصہ ہوں گے، جن کی امریکہ مخالفت اور مغربی ملکوں کے خلاف بیان بازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسری جانب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی بھی ہیں جن کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پیچیدہ ہیں۔

لیکن یہ صرف شروعات ہے۔

بدھ کو بیجنگ میں بہت سے رہنما دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی یاد میں ایک پریڈ میں شریک ہوں گے جو ’چینی عوام کی دوسری جنگ عظیم میں جاپانی جارحیت کے خلاف مزاحمت‘ کا استعارہ سمجھی جاتی ہے۔

تو کیا چین میں ہونے والی تقریبات امریکہ مخالف عالمی اتحاد کی مزید مضبوطی کا ایک اشارہ ہیں؟

اور کیا روس، چین اور انڈیا کا ممکنہ بلاک (آر آئی سی)عالمی معاملات میں مغربی ممالک کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے؟ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیرف کے معاملے پر ٹریڈ وار چھیڑ رکھی ہے۔

Reutersبعض ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر شی اور روسی صدر کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی پائی جاتی ہے’صدر ٹرمپ، شی اور پوتن کے درمیان دُوریاں پیدا نہیں کر سکتے‘

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پوتن کا غیر معمولی طویل دورہ چین مغربی ممالک کے لیے پیغام ہے کہ دونوں ملکوں کی ’گہری دوستی‘ مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ لہذِا امریکہ کی جانب سے دونوںکے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ یوکرین کے معاملے پر پوتن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو بھی روس، چین سے دوستی ختم نہیں کرے گا۔

تجزیہ کار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کس طرح امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دور میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر 1970 کی دہائی میں چین کو سوویت اثر و رسوخ سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن تب بیجنگ اور ماسکو کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے۔ اب حالات مختلف ہیں۔

ایشیا سوسائٹی میں روس، چین تعلقات کے ماہر پیئر اینڈریو کہتے ہیں کہ چین پر تجارتی پابندیاں عائد کر کے امریکہ ماسکو اور بیجنگ کو مزید قریب کر رہا ہے۔

اُن کے بقول دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کمزور کرنے کی کوششوں کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔

یورپین پالیسی کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ یوکرین جنگ کے خاتمے اور روس پر سے پابندیاں ہٹانے سے ماسکو اور بیجنگ کے تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت سے ناواقف ہے۔

ڈرون شو کی حقیقت اور ریڈ کارپٹ ویلکم: چین میں ’مودی کا استقبال شاندار رہا یا شہباز شریف کا؟‘انڈیا چین تعلقات: مودی کے بیجنگ سے متعلق ’مثبت بیانات‘ چیلنجز کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے؟چین سرحدی تنازعات کے باوجود امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کیسے بنا؟کیا جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی ’دوستیاں‘ انڈیا کو خطے میں ’تنہا‘ کر سکتی ہیں؟

چین، روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور مغربی ممالک کی کمپنیوں کی جانب سے ماسکو پر پابندی کے بعد ماسکو کو کاریں اور دیگر مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ تاہم یوکرین کے خلاف جارحیت کے بعد سے دونوں ملک نظریاتی طور پر ایک دُوسرے کے مزید قریب آئے ہیں۔

پیئر اینڈریو کہتے ہیں کہ دونوں ممالک مغربی لبرل ازم کی مخالفت کرتے ہیں اور امریکہ بالادستی کو چیلنج کرتے ہیں۔ دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رُکن ہیں۔ دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ معاشی طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ روس خام مال کی ایک بڑی منڈی ہے جبکہ چین صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے ہے۔

لیکن اُن کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان قائم تعلقات میں گرمجوشی سب سے اہم ہے۔

پوتن اور شی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ دونوں ایک ہی عمر یعنی 72 برس کے ہیں اور سوویت دور کے کمیونزم کے تحت پلے بڑھے ہیں۔ یہ دونوں طویل عرصے سے اپنے ممالک میں اقتدار میں ہیں اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے۔

سنہ 2022 میں یوکرین پر حملے سے پہلے پوتن نے صدر شی کے ساتھ ’سرحدوں کے بغیر دوستی اور نو گو زون کے بغیر تعاون‘ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ صدر شی نے پوتن کو ’پیارے دوست‘ کہا تھا۔ وہ کسی بھی دوسرے عالمی رہنما سے زیادہ 40 بار ان سے مل چکے ہیں۔

لیکن یہ دورہ خاص ہے۔

واشنگٹن میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں چینی خارجہ پالیسی اور امریکہ چین تعلقات کی ماہر پیٹریسیا کم کہتی ہیں کہ پوتن کو اپنے ساتھ رکھنے اور انھیں دوبارہمغرب کی طرف جانے سے روکنے سے میں چین کا بھی فائدہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ چین یہ بھی نہیں چاہتا کہ روس زیادہ مضبوط ہو۔

کم کہتی ہیں کہ ’بیجنگ کے لیے آئیڈیل یہ ہے کہ روس اتنا مضبوط ہے کہ وہ مغرب کو آنکھیں دکھا سکے اور ساتھ ہی اتنا کمزور رہے کہ وہ چین کے کنٹرول میں رہے۔‘

مودی کا کردار Pablo Porciuncula/AFP via Getty Imagesانڈیا کے وزیر اعظم مودی کے ان دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات پیچیدگی کا شکار ہیں

اس ساری کہانی میں اب انڈیا کا کردار بھی اہم ہو گیا ہے جس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سرد مہردی پائی جاتی ہے۔ لہذِا یہ امریکہ مخالف اتحاد میں اہم ہو سکتا ہے۔

صدر شی اور وزیر اعظم مودی کی ایس سی او اجلاس کے دوران ملاقات بھی ہوئی ہے۔ مودی سات برسوں کے دوران پہلی بار چین کے دورے پر ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 2020 میں سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔

لیکن امریکی ٹیرف کی وجہ سے انڈیا کی ممکنہ معاشی مشکلات نے زمینی حقائق کو بدل دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں دلی پر بھاری محصولات عائد کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے چین اور انڈیا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔

صدر شی کا کہنا ہے کہ چین اور انڈیا کو ایک دوسرے کے حریف کے بجائے شراکت دار ہونا چاہیے۔ دوسری جانب وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اب امن اور استحکام کی فضا ہے۔

دونوں ممالک نہ صرف دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں بلکہ بڑی معاشی طاقتیں بھی ہیں۔

مودی نے اعلان کیا ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان پانچ سال سے معطل براہ راست پروازیں بھی دوبارہ شروع کی جائیں گی، تاہم اُنھوں نے اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔

صدر شی کا کہنا ہے کہ فریقین کو اپنے تعلقات سٹریٹجک بنیادوں پر استوار کرنا ہوں گے اور دونوں کے درمیان دوستی ایک درست انتخاب ہے۔

تینوں ممالک کا اتحاد واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تینوں ممالک اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مل کر نئی صف بندی کرتے ہیں تو یہ لامحالہ واشنگٹن اور یورپی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو گی۔

لیکن ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انڈیا بھی صدر ٹرمپ کے ٹیرف اقدامات سے صرف نظر نہیں کر سکتا اور اسے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں بہرحال توازن رکھنا ہو گا۔ ساتھ ہی چین کے ساتھ اعتماد برقرار رکھنے کے معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا آزاد خارجہ پالیسی رکھنا چاہتا ہے لیکن چین کے ساتھ خونی سرحدی چھڑپوں کے زخم اب بھی تازہ ہیں اور ساتھ ہی چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی بھی انڈیا کے لیے پریشانی کی بات ہے۔

اور پھر کئی دہائیوں کی پیچیدہ سفارت کاری جس نے انڈیا کو امریکہ کے قریب پہنچایا ہے، اسےممکنہ طور پر ترک کرنے کی ضرورت ہو گی۔

Reutersپوتن اور کم جونگ اُن کے درمیان مثالی دوست کا اظہار مختلف مواقع پر کیا جاتا رہا ہے

لیکن رواں ہفتے ایس سی او اجلاس کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ پوتن اور کم جونگ اُن 26 عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جو بیجنگ میں ہونے والی ملٹری پریڈ دیکھیں گے۔ پریڈ دیکھنے والوں میں ایران کے صدر مسعود پرشکیان بھی شامل ہوں گے۔

پریڈ میں دسیوں ہزار فوجی اہلکار تاریخی تیانان مین سکوائر سے مارچ کریں گے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ چین، روس، ایران اور شمالی کوریا کے رہنما تین ستمبر کو یہ پریڈ دیکھنے کے لیے ایک ساتھ جمع ہوں گے۔

ایشیا پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں چین کے ماہر نیل تھامس سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا یہ اجتماع دنیا میں ’ُآمرانہ حکومتوں کی محور‘ عالمی قوتوں کا اجتماع ہو گا؟

ان کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد زیادہ دیر تک قائم رہنے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ اس کے شرکا کے مختلف مقاصد ہیں اور وہ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔

ڈرون شو کی حقیقت اور ریڈ کارپٹ ویلکم: چین میں ’مودی کا استقبال شاندار رہا یا شہباز شریف کا؟‘مودی-شی ملاقات: کیا انڈیا کی چین سے بڑھتی قربت پر پاکستان کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحانانڈیا چین تعلقات: مودی کے بیجنگ سے متعلق ’مثبت بیانات‘ چیلنجز کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے؟امریکی ’پابندیوں‘ کے بعد انڈیا کی چین سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش: کیا پوتن مودی کی مشکل کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More