لاہور پولیس تین دن سے اس کیس کو سلجھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ایک دفعہ پھر معاملہ بند گلی میں پہنچ چکا تھا۔
شہر کے محلے بہادر آباد کی کچی آبادی میں بارش کے پانی نے گلیوں کو اتنا خراب کر دیا تھا کہ پیدل چلنا بھی دشوار تھا۔ اور پولیس کو یہاں تک پہنچانے میں سی سی ٹی وی کیمروں نے مدد کی تھی۔
آگے اب اس محلے میں سی سی ٹی وی بھی نہیں تھے اور درجنوں پولیس اہلکار اگلے حکم کے منتظر تھے۔
یہ کہانی شروع ہوئی لاہور کے جنرل ہسپتال سے جہاں دو دن کا ایک بچہ نرسری سے اغوا کر لیا گیا اور انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئی تھیں۔
رضیہ بی بی کے ہاں گیارہ سال بعد بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کے بعد بچے کو نرسری میں شفٹ کر دیا تھا۔ دوسرے روز جب بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے لئے نرس نرسری میں پہنچی تو وہ غائب تھا۔ دیگر بچے اپنے پاڈ میں تھے لیکن رضیہ کا بچہ غائب تھا۔
نرس کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی جبکہ والدہ جس کے ہاں گیارہ سال بعد اولاد ہوئی تھی اُن پر غشی طاری ہو گئی۔
تھانہ کوٹ لکھپت کے ایس ایچ او شیخ عمران صدیق بتاتے ہیں کہ واقعے کی پولیس کو فوری اطلاع کر دی گئی تھی۔ ’میں خود موقع پر پہنچا اور پھر مقدمہ درج کرنے کے بعد تفتیش شروع کی اور سب سے پہلے جنرل ہسپتال کے کیمروں کی فوٹیجز نکالیں تو کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد ہمیں دو نقاب پوش خواتین نظر آئیں جن میں سے ایک نے اپنی چادر کے نیچے کچھ چھپایا ہوتا اور ہمیں یہ سمجھ آ گئی کہ بچہ یہی دونوں خواتین اغوا کر کے لے گئی ہیں۔‘
جب پولیس نے 500 کیمروں کی فوٹیجز کو کھنگالا
پولیس نے جب تفتیش کا آغاز کیا تو ہسپتال سے نکلتے ہی یہ دونوں خواتین غائب ہو گئیں۔ عمران شیخ بتاتے ہیں کہ ’ہسپتال کے سامنے چاروں اطراف بڑی سڑکیں جاتی ہیں۔ اس لیے پہلی بریک تو یہ لگی وہ کس سمت گئی ہوں گی۔ تو پھر ہم نے ہسپتال کے سامنے تمام نجی اور سرکاری کیمروں کی فوٹیجز کو کھنگالنا شروع کر دیا اور پھر ایک کیمرے سے پتا چلا کہ انہوں نے پیدل سڑک پار کی اور دوسری طرف جا کر ایک رکشہ لیا۔ پھر ہم نے اس رکشے والے کو ٹریک کیا تو اس نے بتایا کہ دو کلومیٹر کے بعد انہوں نے رکشہ رکوا کر پیسے دیے اور وہ اتر گئیں۔‘
اغواکار خواتین نے پولیس کے آنے پر بچے کو صندوق میں بند کر دیا تھا۔ فوٹو: لاہور پولیس
جس کے بعد پولیس نے اس علاقے کے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج لی۔ ایس ایچ او کوٹ لکھپت بتاتے ہیں کہ ’اس کیس نے ہمیں چکرا دیا۔ خواتین نے 80 فیصد سفر پیدل طے کیا اور دو رکشے تبدیل کیے جہاں آخری رکشے نے ان کو اتارا تو یہ تھانہ نشتر کا علاقہ تھا۔ جس کے بعد وہ پھر پیدل گئیں۔ ہم نے کوئی 500 سے زائد کیمروں کی فوٹیج کھنگالیں، اب ہم بہادر آباد کی کچی آبادی کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ لیکن یہ بند گلی تھی۔‘
ایک اور انسانی المیہ
جنرل ہسپتال سے بچہ اغوا ہوئے یہ تیسرا دن تھا۔ بچے کے ماں باپ کو سنبھالنا مشکل تھا۔ اور پولیس بہادرآباد کے علاقے میں رک گئی کیونکہ اس علاقے میں کوئی سی سی ٹی وی نہیں تھا۔ اس وقت ایک فیصلہ لیا گیا جسے نے کہانی کو ایک نیا رخ دے دیا۔ شیخ عمران بتاتے ہیں کہ ’مجھے اندازہ تھا کہ یہ مشکل ہے لیکن اس ماں کا دکھ دیکھا نہیں جا رہا تھا جس کے ہاں گیارہ سال بعد بچہ ہوا تھا۔ اس لیے میں نے گھر گھر تلاشی کا فیصلہ کیا اور تمام گلیوں میں پولیس اہلکار اب گھر گھر تلاشی لینا شروع ہو گئے۔ کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ پھر ایک گھر میں مجھے اطلاع دی گئی کہ وہاں پولیس اہلکاروں سے تعاون نہیں کیا گیا۔ اور گھر کی تلاشی نہیں لینے دی جا رہی۔‘
وائرلیس پر اطلاع ملتے ہی اس گھر کے باہر ایس ایچ او خود بھی پہنچ گئے اور پھر گھر کی تلاشی کا عمل شروع ہوا۔ اس گھر میں دو بہنیں اور ان کے والد تھے۔ ابتدائی طور پر پولیس کو کچھ نہیں ملا۔
عمران شیخ نے بتایا کہ ’مجھے یہ بات ٹھٹھک رہی تھی کہ یہ لوگ تلاشی پر آمادہ کیوں نہیں تھے۔ اس لیے میں ان کے گھر میں پڑے صندوق کو کھلونے کا حکم دیا اور جب وہ صندوق کھولا تو بچہ اس صندوق میں سے برآمد ہو گیا۔ بچہ زندہ تھا اور ہم ہکا بکا تھے۔ کیونکہ یہ کسی معجزے کی طرح تھا۔‘
پولیس کے مطابق اغواکار خاتون اور اس کی بہن کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ فوٹو: لاہور پولیس
پولیس نے جب معاملے کی تفتیش کی اور خواتین کو حراست میں لینے کے بعد ان کے بیان لیے تب سارا عقدہ کھلا۔
پولیس کے مطابق جس نسرین نامی خاتون نے بچہ اغوا کیا ان کو دس سال بعد شوہر نے بچہ نہ ہونے پر طلاق دے دی تھی۔ دو سال قبل نسرین نے دوسری شادی کی تھی۔ لیکن اس شادی سے بھی بچہ پیدا نہیں ہوا تو خاتون نے کسی ہسپتال سے بچہ چوری کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ایس ایچ او عمران شیخ نے بتایا کہ ’اس خاتون نے پورے 9 مہینے تک اپنے خاوند کو یہ بتایا کہ وہ حمل سے ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ مسلسل اپنے پیٹ پر کچھ نہ کچھ باندھے رکھتی تھی۔ اور دو مہینے پہلے اس نے شوہر کو کہا کہ وہ اپنے میکے جا رہی ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد آئے گی۔ یہاں اس نے اپنی چھوٹی بہن کو ساتھ ملایا اور پھر مختلف ہسپتالوں کی ریکی کی۔ اور یکم ستمبر کو جنرل ہسپتال سے یہ بچہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئی۔ جس کے بعد محلے میں مٹھائی بھی تقسیم کی گئی اور اپنے سسرال کو بھی مٹھائی بھیجی کہ بچہ پیدا ہوا ہے۔ یہ جرم تو ہوا ہی ہوا لیکن اس کے ساتھ المیہ بھی ہے۔‘
اس وقت نسرین اور اس کی بہن جیل میں ہیں۔ جبکہ بچے کو بازیاب کیے جانے کے بعد ماں کے سُپرد کیا گیا۔
رضیہ بی بی اور ان کے بچے کو اب ہسپتال سے خارج کیا جا چکا ہے۔
نوٹ: اس حقیقی واقعے میں خواتین کے اصل نام ظاہر نہیں کیے گئے