امریکہ میں بیس بال کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے ہاں کرکٹ کو حاصل ہے۔ وہاں بھی اگر کوئی کھلاڑی گیند کو اتنی طاقت سے مارتا ہے کہ وہ باؤنڈری پار کرکے تماشائیوں تک پہنچ جائے، تو یہ لمحہ تماشائیوں کے لیے کسی یادگار تحفے سے کم نہیں ہوتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے میدانوں میں کوئی بیٹسمین چھکا مارے اور گیند کسی خوش نصیب کے ہاتھ میں جا گرے۔
ایسا ہی ایک منظر فلوریڈا کے LoanDepot پارک میں اُس وقت پیش آیا جب فلڈیلفیا فلائیز اور میامی مارلنز کے درمیان مقابلہ جاری تھا۔ فلائیز کے ہیریسن بیڈر نے ایک بھرپور ہٹ لگائی، گیند تماشائیوں کی نشستوں میں گری اور ایک شخص نے خوش قسمتی سے اسے اٹھا کر اپنے بیٹے لِنکن کو دے دیا۔ بچے کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے وہ رنگ تھے جو کھیل کو دیکھنے کا اصل لطف سمجھائے دیتے ہیں۔
مگر یہ مسرت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ اچانک ایک خاتون سامنے آئیں، جو بعد میں سوشل میڈیا پر ’فلائیز کیرن‘ کے نام سے مشہور ہوگئیں۔ انہوں نے بحث چھیڑ دی کہ گیند ان کی ہے۔ چند جملوں کی تلخی کے بعد انہوں نے بچے کے ہاتھ سے گیند چھین لی۔ یہ منظر وہاں موجود تماشائیوں نے بھی دیکھا اور کسی نے موبائل پر محفوظ کرکے آن لائن ڈال دیا۔ لمحوں میں یہ ویڈیو وائرل ہوئی اور ہزاروں صارفین نے اس پر شدید ردعمل دیا۔
ایکس پر لوگ اس خاتون پر برس پڑے۔ انہیں سخت، خود غرض اور کھیل کی روح کے منافی رویے کا مظاہرہ کرنے والا قرار دیا گیا۔ صارفین نے لکھا کہ بچوں کی خوشی سب سے قیمتی ہے، اور ایسا لمحہ چھین لینا کھیل کے حسن کو مٹا دینے کے مترادف ہے۔ بحث میں یہ پہلو بھی شامل ہوا کہ والد نے گیند اتنی آسانی سے کیوں چھوڑ دی؟ کچھ نے کہا کہ وہ جھگڑے سے بچنا چاہتے تھے، لیکن زیادہ تر افراد کے نزدیک اصل قصور خاتون کا تھا جنہوں نے ایک بچے کے معصوم جذبے پر پانی پھیر دیا۔
یہ واقعہ وہیں ختم نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر شور بڑھا تو میامی مارلنز کی انتظامیہ نے لِنکن کو گفٹ بیگ دے کر خوشی واپس لوٹانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد فلڈیلفیا فلائیز نے بھی قدم بڑھایا اور بچے کی ملاقات ہیریسن بیڈر سے کرائی، جس نے دستخط شدہ بیٹ تحفے میں دیا۔ اس دوران بزنس مین مارکس لیمنس نے بھی اعلان کیا کہ وہ لِنکن اور اس کے خاندان کو ورلڈ سیریز کے ٹکٹس اور سفر کے لیے ایک آر وی فراہم کریں گے۔
یوں ایک لمحہ جو تلخی اور تنازع سے جڑا ہوا تھا، آخرکار خوشگوار انجام پر ختم ہوا۔ لوگوں نے اس نتیجے کو زندگی کا سبق قرار دیا کہ جو دوسروں کے حق پر ہاتھ ڈالتا ہے، اسے رسوائی ملتی ہے، اور جو برداشت سے کام لیتا ہے، اس کے لیے کہیں بہتر راستے کھل جاتے ہیں۔