انجلی کے ڈراؤنے خواب کا آغاز ایک فون کال سے ہوا تھا جس کی قیمت پاکستانی حساب سے تقریبا 19 کروڑ روپے بنی۔
فون کرنے والے نے اپنا تعلق ایک کوریئر کمپنی سے بتایا تھا اور کہا کہ ممبئی کسٹمز نے منشیات سے بھرا ہوا ایک پارسل پکڑا ہے جو انجلی بیجنگ بھجوا رہی تھیں۔
دلی کی مضافات کی رہائشی انجلی بھی ڈیجیٹل گرفتاری کے فراڈ کا شکار ہو گئیں۔ اس فراڈ میں دھوکے باز اپنا تعلق کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے بتا کر ویڈیو کال پر دھمکی کا استعمال کرتے ہیں۔ انجلی کو عمر قید کی سزا کی دھمکی سمیت ان کے بیٹے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی ان کی جانب سے تعمیل کی وجہ بنا۔
ستمبر کے پانچ دن انھیں سکائپ پر 24 گھنٹے مسلسل نگرانی کا سامنا رہا۔ اس دوران دھمکیوں کی مدد سے انھیں اپنی زندگی کی جمع پونجی ٹرانسفر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’اس کے بعد میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔‘
جب کال ختم ہوئی تب تک انجلی کا اعتماد اور ان کی پوری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ اور ان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ منفرد بھی نہیں۔
انڈیا کی حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2022 سے 2024 کے درمیان ڈیجیٹل گرفتاری کا فراڈ تین گنا بڑھا اور ایک لاکھ 23 ہزار مقدمات سامنے آئے۔
یہ فراڈ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب حکومت اخبارات میں پورے صفحات پر مبنی اشتہارات دینے سمیت ٹی وی اور ریڈیو پر مہم چلانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ انڈیا کے وزیر اعظم خود لوگوں کو انتباہ کر چکے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک چار ہزار سکائپ اور 83 ہزار واٹس ایپ اکاوئنٹ بند کیے جا چکے ہیں جو ایسے فراڈ سے منسلک پائے گئے تھے۔
انجلی ایک سال سے تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگا رہی ہیں۔ وہ اپنے غائب ہو جانے والے پیسے کی تلاش میں ہیں اور وزیر اعظم تک کو مدد کے لیے خط لکھ چکی ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ کمزور بینکاری تحفظ اور بڑھتے ہوئے فراڈ کی وجہ سے ملک میں قوائد و ضوابط بہتر کرنے کی ضرورت ہے جہاں ڈیجیٹل بینکاری کو سائببر جرائم کا سامنا ہے۔
انجلی کا کہنا ہے کہ ان کو انڈیا کے بڑے بینکوں میں ناکامیوں کا ادراک ہوا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انجلی نے کہا کہ وہ ایچ ڈی ایف سی بینک کی برانچ میں چار ستمبر کو جعلسازوں کی ویڈیو سرویلنس میں گئیں جہاں سے انھوں نے دو کروڑ 80 لاکھ انڈین روپے ٹرانسفر کیے۔ اگلے دن انھوں نے تین کروڑ روپے پھر سے ٹرانسفر کیے۔
وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ ’بینک کو کسی چیز پر شک نہیں ہوا‘ اگرچہ کہ جو رقم وہ ٹرانسفر کر رہی تھیں وہ ان کے معمول کے لین دین سے دو سو گنا زیادہ تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ اتنی بڑی رقم کی منتقلی کے باوجود بینک کو یا پھر ان کے مینیجر کر کوئی شک کیوں نہیں ہوا۔
’کیا تین دن میں اتنی بڑی رقم کی منتقلی سے شک نہیں ہونا چاہیے اور جرم ہونے سے روکنا نہیں چاہیے؟‘ وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی کریڈٹ کارڈ سے 50 ہزار روپے خرچ کرے تو بینک سے فون آتا ہے تو سیونگ اکاوئنٹ سے کروڑوں روپے نکلوانے پر کیوں نہیں؟
انجلی کو بینک کی جانب سے ایک ای میل کی گئی جس میں ان کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا۔ بینک کا کہنا تھا کہ انجلی نے واردات کے بعد رپورٹ کرنے میں دو تین دن کی تاخیر کی اور ان کی ہی ہدایات پر بینک نے رقم کی منتقلی کی اس لیے حکام کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
جب ڈیٹنگ کی ایک ’محفوظ‘ ایپ ہیک ہونے سے ہزاروں خواتین کی تصاویر اور لوکیشن لیک ہو گئیںوہ آن لائن گیم جس میں ہزاروں خواتین کا ’شکار‘ کیا گیا اور ان کی خفیہ ویڈیوز بنائی گئیںفراڈ کے شبہے پر 70 لاکھ واٹس ایپ اکاؤنٹ بند: ہیکرز کِن طریقوں سے آپ کو پھنسا سکتے ہیں اور اُن سے کیسا بچا جائے؟ایک گھنٹے میں 23 کروڑ ڈالر کے ڈیجیٹل اثاثے غائب: انڈیا میں کرپٹو کرنسی کی سب سے بڑی چوری کا معمہ
انڈیا کے بینکاری محتسب نے بھی ان کی شکایت پر کارروائی نہیں کی۔ اس کی جانب سے 2017 کے ایک قانون کا حوالہ دیا گیا کہ ایسے مواقع پر انجلی جیسے صارفین ہی نقصان کے ذمہ دار ہیں اگر فراڈ ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوا۔
بینک نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ جب ہماری انجلی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ایک چارٹ کی مدد سے بتایا کہ ان کا پیسہ ایک بینک سے دوسرے تک کیسے پہنچا۔
Getty Imagesیہ فراڈ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب حکومت اخبارات میں پورے صفحات پر مبنی اشتہارات دینے سمیت ٹی وی اور ریڈیو پر مہم چلانے پر مجبور ہو چکی ہے
ان کے چارٹ کے مطابق پہلے ان کے اکاوئنٹ سے آئی سی آئی سی آئی بینک میں ’مسٹر پیوش‘ نام کے ایک اکاوئنٹ میں پیسہ منتقل ہوا۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق ٹرانسفر سے قبل اس اکاوئنٹ میں چند ہزار روپے تھے۔
انجلی سوال کرتی ہیں کہ آئی سی آئی سی آئی بینک نے اس اکاوئنٹ میں اتنے زیادہ پیسوں کے ٹرانسفر کی اجازت کیسے دی جب کہ ’ہونا یہ چاہیے تھا کہ منی لانڈرنگ کے قوانین کے تحت مانیٹرنگ نطام کو فعال ہو جاتا۔‘
ان کو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ بینک نے اسی اکاوئنٹ سے دوبارہ پیسے کی منتقلی کی فوری اجازت کیسے دی اور صارف کی ویریفیکیشن کے بنا اسے منجمند کیوں نہیں کیا۔
آئی سی آئی سی آئی نے مسٹر پیوش کے خلاف ایک شکایت درج کروائی جس کے بعد انھیں گرفتار کیا گیا لیکن وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ انجلی کہتی ہیں کہ پیوش کے اکاوئنٹ کو فریز کرنے میں تاخیر انھیں بہت مہنگی پڑی۔
بی بی سی کو ایک تحریری بیان میں آئی سی آئی سی آئی بینک نے جواب دیا کہ انھوں نے تمام ضوابط کو مکمل کیا اور اس منتقلی تک کچھ بھی مشکوک نہیں ہوا تھا۔ بیان کے مطابق ’ایسا تاثر کہ بینک نے ضوابط پورے نہیں کیے بے بنیاد ہے۔‘
بینک کا کہنا ہے کہ انجلی کی شکایت کے فوری بعد اکاوئنٹ فریز کر دیا گیا تھا اور پولیس مقدمہ درج کروانے میں اور اکاوئنٹ ہولڈر کی تلاش میں بھی بینک نے انجلی کی مدد کی۔
محتسب نے بھی بینک کے خلاف شکایت برخواست کرتے ہوئے کہا کہ تمام ضوابط کو پورا کیا گیا تھا اور بینک یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا تھا کہ اس بینک اکاوئنٹ کو فراڈ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
پولیس کی تفتیش میں علم ہوا کہ آئی سی آئی سی آئی اکاوئنٹ میں انجلی کی رقم منتقل ہونے کے چار منٹ کے اندر ایک اور بینک کے 11 مختلف اکاوئنٹس میں پیسہ چلا گیا۔
ان میں سے آٹھ اکاوئنٹ جعلی ناموں پر تھے جن کا کچھ پتہ نہیں چلا اور بینک کے پاس ان کی مکمل دستاویزات بھی نہیں تھیں۔ باقی تین میں سے ایک رکشہ ڈرائیور تھا، ایک بیوہ خاتون اور ایک کارپینٹر کے نام پر اکاوئنٹ بنوایا گیا تھا۔ پولیس کو علم ہوا کہ ان تین میں سے دو کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ان کے اکاوئنٹ میں اتنا پیسہ آیا تھا۔
مئی میں پولیس نے اس بینک کے ایک سابق ڈائریکٹر کو گرفتار کر لیا جو جیل میں ہیں۔ عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست تین بار مسترد کی ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ بہت سے اکاوئنٹ ان کے ہی اصرار پر کھولے گئے تھے جو مجرموں کو پیسوں کے عوض بیچے گئے جنھوں نے انھیں منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا۔
اس بینک نے بی بی سی کے سوالوں کے جواب نہیں دیے۔
تقریبا ایک سال بعد انجلی اور دیگر افراد نے انڈیا کی کنزیومر عدالت سے رجوع کیا۔ اب نومبر میں بینک ان درخواستوں پر جواب جمع کرائیں گے۔
جیسے جیسے یہ فراڈ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، یہ بحث بڑھ رہی ہے کہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کی کیا ذمہ داری ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں برطانیہ نے قوانین میں تبدیلی کی تھی جن کے تحت سروس فراہم کرنے والوں کو ایسے صارفین کی رقم واپس کرنے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
انجلی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل مہیندرا لمائے کا کہنا ہے کہ ’بینکوں کی ایک ذمہ داری ہے اور اگر کوئی بینک غیر معمولی حرکت دیکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس منتقلی کو روکے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ جعلی اکاوئنٹ کھولنے سے بینک اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے اور صارفین کی رقم کی حفاظت نہیں کر سکے۔
تاہم اب تک انجلی صرف ایک کروڑ روپے کی واپس لے پائی ہیں۔ ان کے وکیل کہتے ہیں کہ ابھی ایک طویل قانونی لڑائی باقی ہے۔
انجلی کہتی ہیں کہ انھیں لوٹے ہوئے پیسوں پر بھی ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو ان کے ’زخموں پر نمک چھڑکنے‘ کے برابر ہے۔اب وہ اس ٹیکس سے چھوٹ حاصل کرنے کے لیے بھی کوشش کر رہی ہیں۔
نوٹ: متاثرہ خاتون کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا نام تبدیل کیا گیا ہے۔
جب ڈیٹنگ کی ایک ’محفوظ‘ ایپ ہیک ہونے سے ہزاروں خواتین کی تصاویر اور لوکیشن لیک ہو گئیںوہ آن لائن گیم جس میں ہزاروں خواتین کا ’شکار‘ کیا گیا اور ان کی خفیہ ویڈیوز بنائی گئیںفراڈ کے شبہے پر 70 لاکھ واٹس ایپ اکاؤنٹ بند: ہیکرز کِن طریقوں سے آپ کو پھنسا سکتے ہیں اور اُن سے کیسا بچا جائے؟ایک گھنٹے میں 23 کروڑ ڈالر کے ڈیجیٹل اثاثے غائب: انڈیا میں کرپٹو کرنسی کی سب سے بڑی چوری کا معمہپاس ورڈ کی معمولی غلطی جس نے 158 سال پرانی کمپنی ڈبو دی اور 700 افراد کو بے روزگار کر دیاخواتین سے دوستی، واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا: توہینِ مذہب کے مقدمات میں گرفتار پاکستانی نوجوانوں کی کہانیاں اور الزامات